آیئےہاتھ اٹھائیں ہم بھی ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو کسی اہل ہجر کی بد دعا کہ خود سری کا قصور ہے یہ جو بات بن کے بگڑ رہی ہے تو کوئی بات ضرور ہےیہ عجیب لوگ ہیں جن کے بیچ بکھر رہی متاع عمر نہ کسی پر گرد جنون ہے نہ کہیں غبار شعور ہےاگر رنج و مصیبت سے ہے دل چور تو سوئے کشتگان کربلا دیکھکیا ایسی منزلوں کے لیے نقد جاں گنوائیں جو خود ہمارے نقش کف پا کے دم سے ہیںیادوں سے، خوابوں سے اور امیدوں سے ربط ہو جائے تو جینے میں آسانی کرتا ہےمٹی، پانی، آگ، ہوا سب اس کے رفیقجس کو اصول فرق مراتب آتا ہے کچھ نام جانتا ہوں وہ کافی ہیں اور بس یہ ساتھ ہیں تو کچھ ابد آباد تک نہ دے بس ایک راستہ ہے زیر کرنے کا، جیتنے کا یہ جتنی پرپیچ ہوتی جائے اسی قدر سہل و سادہ ہو جا فروغ صنعت قدآوری کا موسم ہے سبک ہوئے پہ بھی نکلا ہے قدو قامت کیا؟
روز اک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھرزق برحق ہے یہ خدمت نہیں ہو گی ہم سے گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا جو دل میں ہے اب اس کا تذکرہ کرنا پڑے گا رحمت سید لولاکؐ پر کامل ایمان امت سید لولاک سے خوف آتا ہے یہ معجزہ بھی کسی کی دعا کا لگتا ہے یہ شہر اب بھی کسی بے وفا کا لگتا ہے سینۂ ظلم میں ہونا ہے ترازو اک تیر کاش ایسا ہو کہ اس بار کماں میری ہو میں چاہتا تھا کہ سورج میری گواہی دے سو میں نے رات کے آگے سپر نہیں ڈالی کبھی میرے نام سے بھی کوئی سند وفا کبھی میرے حق میں بھی فیصلہ ہو زمین کا دمشق مصلحت و کوفہ نفاق کے بیچ فغاں قافلہ بے نور کی قیمت کیا دل ان کے ساتھ مگر تیغ اور شخص کے ساتھ یہ سلسلہ بھی کچھ اہل ریا کا لگتا ہے بجز دیوانگی واں اور چارہ ہی کہو کیا ہے جہاں عقل و خرد کی ایک بھی مانی نہیں جاتی پاپوش کی کیا فکر ہے دستار سنبھالاپایاب ہے جو موج گزر جائے گی سر سےیہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحروہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیںہاں تلخی ایام ابھی اور بڑھے گیہاں اہل ستم مشق ستم کرتے رہیں گےمنظور یہ تلخی، یہ ستم ہم کو گوارادم ہے تو مداوائے الم کرتے رہیں گےہاں جرم وفا دیکھئے کس کس پہ ہے ثابت وہ سارے خطاکار سرِدار کھڑے ہیں قفس ہے بس میں تمہارے، تمہارے بس میں نہیںچمن میں آتش گل کے نکھار کا موسمچلے ہیں جان و ایمان آزمانے آج دل والے وہ لائیں لشکر اغیار و اعدا ہم بھی دیکھیں گےوہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھاوہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہےوہ جب بھی کرتے ہیں اس نطق و لب کی بخیہ گریفضا میں اور بھی نغمے بکھرنے لگتے ہیںکہیں سے سنت منصور و قیس زندہ ہےصبا نے پھر در زنداں پر آکے دی دستکسحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائےاے خاک نشینو! اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آپہنچا ہےجب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گےاب کسی لیلیٰ کو بھی اقرار محبوبی نہیںان دنوں بدنام ہے بس ایک دیوانے کا نامنثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاںچلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلےجو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلےنظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلےقرض نگاہ یار ادا کر چکے ہیں ہمسب کچھ نثار راہ وفا کر چکے ہیں ہممے خانے کی رونق ہیں کبھی خانقاہوں کیاپنا لی ہوس والوں نے جو رسم چلی ہےدلداریٔ واعظ کو ہمیں باقی ہیں ورنہاب شہر میں ہر رند خرابات ولی ہےمرے چارہ گر کو نوید ہو صف دشمناں کو خبر کروجو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا ہےاب بزم سخن صحبت لب سوختگاں ہےاب حلقۂ مے طائفۂ بے طلباں ہےدریدہ دل ہے کوئی شہر میں ہماری طرحکوئی دریدہ دہن شیخ شہر کے ماننداماں کیسی کہ موج خوں ابھی سر سے نہیں گزریگزر جائے تو شاید بازوئے قاتل ٹھہر جائےیہ چند اشعار ہیں جو فیض احمد فیض، افتخار عارف اور بعض دوسرے شعرا کے مجموعوں سے لیے گئے ہیں۔ ممکن ہے قارئین کرام کو ان میں اپنی پسند کے اشعار مل جائیں اور ہماری محنت کام آئے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قارئین اسے وقت کا ضیاع سمجھیں۔ سو چلئے عمران خان صاحب کی بات کرتے ہیں، جو آئندہ چند دنوں میں ملک کے دوسرے بڑے منصب پر فائز ہونے جا رہے ہیں۔ اب ان کے چاہنے والے یہ تجویز لے کر آئے ہیں کہ وزارت عظمیٰ کا حلف انہیں پارلیمنٹ کے بجائے ڈی چوک پر عوام کے سامنے لینا چاہئے۔ اس طرز نو میں کوئی حرج بھی نہیں۔ تاہم کئی خدشات ہیں اور اعلیٰ شخصیتوں کی حفاظت پر مامور ایجنسیوں کے اس پر تحفظات ہیں۔ گو ہمارے سلامتی کے ادارے بڑی حد تک دہشت گردی کی روک تھام میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ مگر دشمنوں سے خبردار رہنا اور حفاظتی انتظامات کرنا ضروری ہیں۔ جان کی حفاظت سے زیادہ ناموروں کے اقبال کے تحفظ ضروری ہے۔ ہمارے یہاں فول پروف کی ایک اصطلاح کثرت سے استعمال ہوتی ہے، تو ہمیں اپنے ایئر مارشل شربت علی چنگیزی یاد آجاتے ہیں۔ ایک مجلس میں وہ دفاعی مقامات کی حفاظت پر بریفنگ دے رہے تھے کہ ان سے سوال کیا گیا کہ کیا ہم نے کہوٹہ کی فول پروف سیکورٹی کا بندوبست کیا ہے؟ چنگیزی صاحب مرحوم نے فرمایا ’’میاں ہم مسلمان ہیں، ہمارا یہ ایمان ہے کہ کائنات نے فنا ہو جانا ہے۔ رہے گی صرف خدا تعالیٰ کی ذات۔ ہم نے اپنے دفاع کا امکانی حد تک بندوبست کیا ہے۔ خدا نہ کرے دشمن نے کوئی فضول حرکت کی تو ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر اس کے ایسے مقامات کو نشانہ بنائیں گے، جن میں ایک صورت گڑھ بھی ہے۔‘‘
سو صرف انفرادیت کے شوق میں جناب عمران خان کو ایسے مشوروں کو ماننے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ حق تعالیٰ سلامت رکھے۔ ڈی چوک میں پھولوں کے ساتھ پتھروں کی بارش بھی ہو سکتی ہے۔ گزشتہ اسمبلی کا رکن ہونے کے باوجود ان کی حاضری نہ ہونے کے برابر تھی۔ اب ایوان کو چلانے کے لیے ان کی غیر حاضری نقصان دہ ہوگی اور پارلیمانی آداب کا خیال رکھنا بھی ضروری ہو گا۔ ہوتا کیا ہے؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ خدا خیر کرے۔ (آمین)
٭٭٭٭٭