حکومت سازی کے لئے خدوخال واضح ہو چکے ہیں۔آئندہ چند روز میں نیا چاند چڑھنے کو ہے۔ کون جیتا، کون ہارا، عددی برتری کے لئے کس نے کیا حربہ استعمال کیا، کس نے کتنی سرمایہ کاری کی، کس نے ضمیر بیچا، کس نے کس قیمت میں خریدا، اس سب کا ڈھنڈورا مدتوں پٹتا رہے گا کہ یہ نئی بات ہرگز نہیں، سب کی سب ہماری پختہ سیاسی روایات ہیں، جن کا توڑ کسی کے پاس نہیں، اُن کے پاس بھی نہیں، جنہوں نے ان روایات کے خلاف نعرہ لگا کر عوام کو لبھایا اور پھر خود بھی سب کچھ بھول بھال کر اسی نظام کے آگے سجدہ ریز ہوگئے۔ چہ جائیکہ قوم کے نصیب!
نئی حکومت بنانے والی ہر جماعت ابتداء میں بڑے متاثرکن دعوے کرتی ہے، تحریک انصاف بھی کر رہی ہے تو حیرانی کیسی؟ سابقہ کوئی حکومت اپنے دس فیصد وعدے بھی پورے نہ کر سکی، خواہ وہ تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن ہی کیوں نہ رکھتی ہو، نواز لیگ کو ایسے مواقع کئی بار ملے، مگر اقتدار کی غلام گردشوں نے نواز شریف کو اپنے حصار سے باہر نہیں نکلنے دیا نہ ہی انہوں نے خود کبھی ایسی کوئی کوشش کی کہ وہ عوامی نمائندہ بن کر عوام میں نکل آتے، مصاحبین کب چاہتے ہیں کہ شہ سے ان کے روابط کمزور، عوام کے گہرے ہوں اور پارٹی لیڈر عوامی نمائندہ بن کر ان کی آنکھوں کا تارہ بنے۔ رہے خاںصاحب تو انہیں تو بہت ہی زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی کہ ان پر سرمایہ کاری کرنے والوں نے یونہی تو رات دن ایک نہیں کئے، لہٰذا خاں صاحب کو اپنی صفوں کے دانیال، طلال، نہال اور خواجگان سمیت کر مانیوں جیسوں کی کرپانوں سے عافیت کی از حد ضرورت ہوگی۔ خاں صاحب کو قبل ازوقت ایسے بلند و بانگ دعوؤں سے بھی پرہیز کرنا چاہئے، جو آگے چل کر ان کے لئے طعن و تشنیع کا روپ دھار سکتے ہوں، جیسا کہ انہوں نے کہا کہ وہ ایوان وزیر اعظم کو یونیورسٹی اور گورنر ہاؤسز کو لائبریریاں بنا دیں گے۔ خاں صاحب حکومت تو بنائیے، کرنے کے اور بھی بہت سے کام ہیں، جو آپ ہی کو کرنے پڑیں گے۔ قوم منتظر ہے اور دعا گو بھی کہ شاید آپ ہی کے اقدامات ان کے دکھ درد کا مداوا ثابت ہوں۔
حافظ جی کے ذہن میں بھی بہت سی تجاویز کلبلا رہی ہیں، جنہیں وہ آنے والے حکمرانوں اور حکام بالا تک پہنچانا چاہتے ہیں، حالیہ الیکشن کے دوران بھی کچھ معقول تجاویز اراکین اسمبلی کے حوالے سے سامنے آئیں، جنہیں امانتاً مناسب وقت کے لئے رکھ چھوڑا تھا، اب جب کہ خاں صاحب کی طرف سے بھی کچھ اصلاحات کی سن گن ہے کہ وہ پروٹوکول لینے سے خود بھی اجتناب کریں گے اور اپنے وزراء اور دوسرے سرکاری ذمہ داران کو بھی ایسا نہیں کرنے دیں گے تو ڈھارس بندھی ہے کہ کچھ عرض کر ہی دیا جائے۔ ویسے حافظ جی کو یہ بھی پتہ ہے کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کوئی اہمیت نہیں رکھتی، مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں ہو جاتا کہ انسان ہمت ہی ہار بیٹھے، اس حوالے سے تو خان صاحب خود ایک بہترین مثال ہیں۔ اپنے حصے کا کام تو سب کو کرنا چاہئے، سو حافظ جی بھی آمادۂ اظہار ہیں۔
سیاسی رہنماؤں کا بے جا پروٹوکول واقعی عوام کے لئے کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ عمران خان اگر اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر ایسے عوام دشمن اقدامات کا قلع قمع کریں گے تو ان کی عوامی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا، نہ صرف پرووٹوکول بلکہ پولیس سمیت دیگر محکموں سے رشوت اور اختیارات کے ناجائز استعمال، سڑکوں اور شاہراہوں سے تجاوزات کے خاتمے پر بھی انہیں توجہ مرکوز کرنی ہوگی، ٹرانسپورٹ کی بے ہنگمی سے بھی عوام کو نجات دلانی ہوگی۔ مہنگائی، چور بازاری اور ملاوٹ کا سد باب بھی کرنا ہوگا تاکہ غربت، امن عامہ اور صحت کے مسائل سے بھی نجات مل سکے۔ حافظ جی کو پتہ ہے کہ یہ سب کام وزیر اعظم کے کرنے کے نہیں، مگر ان تمام متعلقہ محکموں اور اداروں کے سربراہوں اور ذمہ داروں کی ڈور بالواسطہ وزیر اعظم کے ہی ہاتھ میں ہوتی ہے، اگروہ اس ڈور کو وقتاً فوقتاً ہلاتے رہیںگے اور ذمہ داروں سے پوچھ گچھ کا فریضہ بھی سرانجام دیا جاتا رہے گا تو معاشرتی خرابیوں سے حتی الامکان نجات مل سکتی ہے۔ مذکورہ بالامعاملات پر اگر عمل درآمد کو یقینی بنا دیا جائے توسونے پر سہاگہ۔
ایک عمومی عوامی رد عمل اراکین اسمبلی کے حوالے سے یہ ہے کہ وہ اپنے انتخاب کے بعد تکبر کا شکار ہو جاتے ہیں، عوام کے مسائل حل کرنا تو دور کی بات، وہ عوام میں اٹھنا بیٹھنا تک پسند نہیں کرتے، جب کہ انہیں عوامی خدمت گار کے طور پر منتخب کیا جاتا ہے۔ سرکاری مراعات و پروٹوکول اور مصاحبین کی فوج ظفر موج انہیں ماورائی مخلوق بنا دیتی ہے، وہ مخلوق جو عوام کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔ اختیارات کے زعم سے ان کے اندر موجود خدمت کا جذبہ اپنی موت آپ مرجاتا ہے اور تکبر برہنہ رقص کرتا پایا جاتا ہے، لہٰذا ضروری ہوگا کہ تمام بااختیار لوگوں کو عوام سے رجوع کرنے کا پابند بنایا جائے۔ اس حوالے سے جس کسی کے بارے میں شکایت اور اختیارات کے زعم میں خود سری کا معاملہ سامنے آئے، اس کی فی الفور تحقیقات کراکے اسے سزا اور عوام کو عدل فراہم کیا جائے تاکہ بااختیار خود کو مالک و مختار سمجھنے کے بجائے عوام کا خدمت گزار سمجھیں۔
نئی حکومت کے زمام کار اسی وقت کامیاب وکامران ہو سکتے ہیں جب وہ عوامی رائے کو اہمیت دیں۔ حافظ جی ذیل میں کچھ تجاویز پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں، جنہیں عوامی اصلاحاتی ایکٹ کا درجہ دے کر مثال قائم کی جا سکتی ہے۔
1۔ پارلیمنٹ اراکین چوں کہ عوامی خدمت گار کے طور پر منتخب ہوتے ہیں، لہٰذا ان کی تنخواہ بھی عام مزدور کے برابر ہونی چاہئے۔ پارلیمنٹ میں انہیں جس مقصد کے لئے لایا جاتا ہے، انہیں صرف انہی کاموں کی اجازت ہونی چاہئے ناکہ وہ ہر سالانہ بجٹ کے بعد اپنی تنخواہوں کو ڈبل کرنے کا بل اور اپنی مراعات میں اضافے کی تحریکات پیش کریں۔
2۔ ارکان پارلیمنٹ کو علاج معالجے کے لئے بیرون ملک بھیجنے کی روایت کا خاتمہ ہونا چاہئے، ان کے لئے ملک کے اندر موجود سرکاری اسپتالوں سے علاج کو لازم قرار دیا جائے، جہاں عام عوام کا علاج ہوتا ہے، ایسا کرنے سے ایک تو سرکاری اسپتالوں کا نظام کار درست ہوگا، دوسرے ادویات کی ترسیل میں دو نمبری بھی ختم ہوگی، کیوں کہ انتظامیہ کو پتہ ہوگا کہ کسی بھی وقت کوئی رکن اسمبلی یا اس کے گھر کا کوئی فرد علاج کرانے آسکتا ہے، لہٰذا معاملات شفاف رکھنا اس کی مجبوری ہوگی کہ کہیں اس کا معاملہ اسمبلی میں پہنچ کراس کی پکڑ کا سبب نہ بن جائے۔
3۔ اراکین اسمبلی کی تمام مفت مراعات کا خاتمہ کیا جائے، جن میں خاندانوں سمیت ہوائی جہازوں کے مفت اور رعایتی سفر، بجلی، پانی، فون اور مہنگی رہائشیں، اسمبلی اجلاسوں میں صرف دوسرے شہروں سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ کو ہی ہوائی سفر کی اجازت ہو، قرب و جوار والوں کو ریلوے، بس اور ٹیکسی الاؤنس دیا جائے، جن کے پاس اپنی گاڑیاں ہوں، انہیں صرف فیول الاؤنس دیا جائے، پارلیمنٹ کے پورے سیشن کے دوران اراکین کی پارلیمنٹ لاجز میں رہائش لازمی قرار دی جائے۔
4۔ جن اراکین پارلیمنٹ کا ریکارڈ مجرمانہ ہو یا انہیںکسی بھی جرم میں عدالت سے سزا یا جیل ہو چکی ہو، انہیں پارلیمنٹ کے لئے تاحیات نااہل قرار دیاجائے۔
5۔ تمام اراکین پارلیمنٹ پر عمر کی حد لاگو کی جائے، جب ساٹھ سال کے بعد ایک سرکاری ملازم کو ملازمت کے قابل نہیں سمجھا جاتا تو ملک و قوم کے فیصلے کرنے والے کے لئے یہ رعایت کیوں؟ 65 سال کی حد کراس کرنے کے بعد کسی کو سیاست نہ کرنے دی جائے، اس طرح نوجوان قیادت سامنے آسکے گی، جو ملک و قوم کے لئے حد درجہ فائدہ مند ثابت ہوگی۔
6۔ عام ملازمتوں کی طرح کسی بھی رکن پارلیمنٹ سے اس کی جسمانی اور نفسیاتی فٹنس کا سرٹیفکیٹ لازمی لیا جائے، اس کے لئے سرکاری سطح پر ایک غیر جانب دار میڈیکل بورڈ بنایا جائے، اگر بورڈ کا کوئی رکن جعلی سرٹیفکیٹ دینے میں ملوث پایا جائے تو اس کو نہ صرف ملازمت سے برطرف کیا جائے، بلکہ اس کی تمام جائیداد بھی بحق سرکار ضبط کرلی جائے۔
7۔ دیگر ملازمتوں کی طرح ارکان پارلیمنٹ کے لئے بھی تعلیم یافتہ ہونا لازمی قرار دیا جائے۔ صوبائی، قومی اسمبلیوں کے لئے بالترتیب گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ اور سینیٹ کے لئے پی ایچ ڈی امیدوار ہونے چاہئیں۔ نیز تمام امیدواروں کے لئے ضروری قرار دیا جائے کہ وہ قرآن پاک پڑھے ہوئے ہوں اور اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بھی پوری طرح واقف ہوں۔
8۔ تمام اراکین اسمبلی کے بچوں کے لئے لازمی قرار دیا جائے کہ وہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں تاکہ طبقاتی کشمکش کا خاتمہ ہو سکے، قانون سازی کے ذریعے پوسٹ گریجویٹ کی سطح تک تمام سرکاری ملازمین کے بچوں کو بھی سرکاری اسکولوں اور یونیورسٹیز میں تعلیم کا پابند بنایا جائے۔
9۔ عوامی نمائندوں کو آئین کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دی جائے۔ سیکورٹی کے نام پر مسلح اہل کاروں کی فوج ظفر موج رکھنے کی اجازت ہرگز نہ دی جائے، ضروری صورتوں میں ایک محافظ کافی سمجھا جائے۔
10۔ پارلیمنٹ کے کسی بھی رکن کو اس کے حلقے کا ترقیاتی فنڈ براہ راست نہ دیا جائے، بلکہ کوئی مکینزم بنا کر بالواسطہ ادائیگیاں کی جائیں تاکہ ترقیاتی فنڈ ہضم نہ کئے جا سکیں۔
11۔ ہر رکن اسمبلی سے چھ ماہ بعد یا سال میں ایک بار اس کے حلقے کے مسائل اور جرائم کی شرح کا حساب لیا جائے تاکہ وہ خود کو اپنے انتخابی حلقے کے مسائل دور کرنے اور لاقانونیت کے خاتمے میں کردار ادا کرنے کا پابند سمجھے۔
گستاخی معاف! تجاویز تو اور بھی ہیں، لیکن یہ وہ گیارہ بنیادی نکات ہیں، جن پر اگر خلوص دل اور نیک نیتی سے عمل درآمد کرا لیا جائے تو نہ صرف صاف ستھرے معاشرے کی بنیاد پڑ سکتی ہے، بلکہ یہی لائحۂ عمل آنے والی حکومتوں کے لئے بھی نشان منزل ثابت ہو سکتا ہے۔
(وما توفیقی الا باللہ)
٭٭٭٭٭