افغانستان میں موجود اندرونی و بیرونی دہشت گرد

افغانستان کے مشرقی صوبے پکتیا کے شہر گردیز میں نماز جمعہ کے موقع پر ایک مسجد میں دو برقع پوش خود کش بمباروں نے حملے کئے، جس کے نتیجے میں تیس سے زائد نمازی شہید اور سو کے قریب زخمی ہوگئے۔ دہشت گردوں نے خود کو دھماکوں سے اڑانے سے قبل نمازیوں پر فائرنگ بھی کی ۔ گورنر پکتیا کے ترجمان عبداللہ عصرات کے مطابق جمعہ کی نماز کے دوران دو خود کش دھماکے کئے گئے۔ طالبان کی جانب سے دھماکے کرنے کی تردید کی گئی ہے، جبکہ کسی اور گروپ نے اب تک ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ افغانستان کے مختلف علاقوں میں آئے دن خود کش حملے اور بم دھماکے کئے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک طرف شدید جانی و مالی نقصان ہوتا ہے تو دوسری جانب شہریوں میں خوف و ہراس پھیلتا اور عدم تحفظ کا احساس جنم لیتا ہے۔ مسلمانوں اور انسانوں کے دشمنوں کا اصل ہدف خوف و ہراس پھیلانا ہے تاکہ کم و بیش سینتیس سال سے جنگ زدہ اس ملک میں کبھی امن و استحکام قائم نہ ہوسکے۔ اسّی کے عشرے میں سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کرکے پاکستان کی جانب قدم بڑھانے کا منصوبہ بنایا تو اس نے افغان طالبان اور افواج پاکستان کے ہاتھوں بدترین شکست کھائی۔ وہ افغانستان پر تو کیا فتح حاصل کرتا، خود ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور پاکستان و افغانستان کو اللہ تعالیٰ نے کمیونسٹ جارحیت سے محفوظ رکھا۔ سوویت یونین کی ذلت آمیز شکست کے کچھ عرصے بعد طالبان کے دور میں تقریباً ساڑھے پانچ سال تک افغانستان میں ایسا مثالی امن قائم ہوا کہ مسلمانوں کے بدترین مخالف حلقے اور ذرائع ابلاغ بھی اس کی تعریف پر مجبور ہوگئے۔ بیرونی خواتین مبصرین اور صحافیوں نے اس زمانے میں افغانستان کا دورہ کیا تو واپسی پر واضح الفاظ میں کہا کہ وہاں ہر طرف امن و سکون اور چین ہے۔ عورتوں پر پردے کی پابندی ضرور ہے لیکن ان کی عزت و آبرو پوری طرح محفوظ ہے جس کا مغربی معاشرے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اور پھر ان خبروں کے تناظر میں کہ آئندہ چل کر پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی وفاق قائم ہوسکتا ہے، مؤرخین اور دانشوروں کا خیال تھا کہ جنرل ضیاء الحق وفاق کی کسی تجویز پر غور کر رہے ہیں ۔ امریکا نے جنرل ضیاء الحق کو اگست 1988ء میں اعلیٰ فوجی جرنیلوں کے ساتھ طیارے کے ایک حادثے میں شہید کرادیا۔ امریکا کی سرپرستی میں اسلام دشمن قوتوں نے پاکستان اور افغانستان کے اتحاد کا خطرہ بھانپ لیا تھا۔ وہ اس تاریخی حقیقت سے بھی باخبر تھے کہ پاکستان میں افغانستان کو بالآخر شامل ہونا ہے اور اس ملک کے نام میں پنجاب کے ’’پ‘‘ کے بعد ’’الف‘‘ دراصل افغانیہ کا مخفف ہے جو پاکستان کے شمالی علاقوں اور افغانستان کی نمائندگی کرتا ہے۔ امریکا نے سوویت یونین کے افغان مجاہدین کے ہاتھوں پرخچے اڑنے سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور اپنے دو شہروں پر گیارہ ستمبر 2001کے حملوں میں القاعدہ کو ماخوذ کرکے افغانستان پر وحشیانہ بمباری کے ذریعے اسے تباہ و برباد کرنے کا پروگرام بنایا۔ اس کا بھی اصل ہدف پاکستان اور اس کے ایٹمی اثاثے تھے، لیکن اس وقت کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے افغانستان پر حملوں میں امریکا سے تعاون کرکے فوری طور پر پاکستان کو بچالیا۔
سترہ سال تک افغانستان پر اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ قبضے کے باوجود امریکا کو بھی بالآخر پسپائی اختیار کرنی پڑی اور وہ اپنے پندرہ ہزار فوجیوں کو وہاں رکھ کر ڈیڑھ لاکھ سے زائد امریکی و اتحادی فوجیوں کو افغانستان سے نکالنے پر مجبور ہوگیا، لیکن امریکا اب بھی افغانستان کی جان چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ 2001ء میں امریکی وحشت و درندگی کا جو دور افغانستان میں شروع ہوا، اس کے نتائج بدترین دہشت گردی کی صورت میں پاکستان کو بھی بھگتنے پڑے اور اس کے ایک کھرب ڈالر کے مالی نقصان کے علاوہ ستر ہزار سے زائد شہریوں اور فوجیوں نے جان کے نذرانے پیش کئے۔ افواج پاکستان نے اپنے ملک میں تو جانیں قربان کرکے بہت حد تک دہشت گردوں پر قابو پالیا ہے، لیکن جب تک پڑوسی ملک افغانستان میں امن و استحکام کا دور نہیں آتا اور وہاں سے ایک ایک غیر ملکی فوجی بے دخل نہیں ہوجاتا، دونوں ملکوں میں امن و سکون قائم ہونا مشکل ہے۔ گزشتہ روز افغانستان کے شہر پکتیا میں نماز جمعہ کے دوران کیا جانے والا خود کش دھماکا کسی مسلمان کی کارروائی نہیں ہوسکتی۔ افغان طالبان کا ہمیشہ سے یہ مؤقف ہے کہ وہ بے گناہ شہریوں پر حملے کرکے ان کی جان لینے کا تصور بھی نہیں کرسکتے کجا یہ کہ مسجدوں اور نمازیوں پر حملوں کے مرتکب ہوں۔ ان کی تمام تر توجہ غیر ملکی فوجیوں اور ان کے پروردہ مقامی اہلکاروں پر مرکوز رہتی ہے۔ ابھی اکتیس جولائی کو مشرقی افغانستان میں ایک سرکاری کمپائونڈ پر بم دھماکوں سے پندرہ افراد جاں بحق ہوئے تھے، جبکہ ملک کے مغربی حصے میں سڑک کنارے نصب ایک بم کا دھماکا ہوا تو اس میں گیارہ افراد ہلاک ہوئے۔ اس سے قبل افغانستان کے دارالحکومت کابل میں انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایک دھماکے میں چودہ افراد جاں بحق اور ساٹھ زخمی ہوچکے تھے۔ گزشتہ جمعہ کے دھماکے مشرقی افغانستان کی کسی امام بارگاہ پر پہلی مرتبہ کئے گئے۔ اس کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مسلمان دشمن قوتوں کی سازش ہے۔ اس کا مقصد ایک جانب مسلمانوں کو نقصان پہنچانا اور دوسری طرف مسلک کی بنیاد پر تفرقہ اور انتشار پھیلانا نظر آتا ہے۔ یاد رہے کہ خواجہ حسن کے علاقے میں واقع صاحب الزماں مسجد کو گردیز میں اہل تشیع کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان یہ تو کہتے ہیں کہ پچھلے دنوں عام افغان شہریوں کی ہلاکتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، لیکن یہ عالمی تنظیم کسی بھی مسلمان ملک میں غیر ملکی جارحیت اور دہشت گردی روکنے کی کوشش نہیں کرتی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران افغانستان میں خود کش حملوں اور دھماکوں سے ایک ہزار چھ سو بانوے عام شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی بے حسی اور بے بسی کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو اس سے کسی مدد کی امید رکھنا عبث ہے۔ پاکستان اور افغانستان کا امن و استحکام اور ترقی و خوشحالی ایک دوسرے سے وابستہ ہے لہٰذا دونوں ملکوں کی حکومتوں کو خود ہی دہشت گردوں سے نمٹنا ہوگا ، اندرونی بھی اور بیرونی بھی۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment