مکافات عمل!

منی لانڈرنگ کیس میں آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور ایف آئی اے کی طلبی کے باوجود ہفتے کو بھی پیش نہیں ہوئے۔ فریال تالپور تو اس کیس میں اپنی ضمانت کرا چکی ہیں، لیکن پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری پیش ہوئے نہ ضمانت کرائی۔ اس بنا پر انہیں کسی بھی وقت گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ ایف آئی اے نے دونوں ملزموں کی عدم پیشی پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ نیب آرڈی نینس کے تحت اس کے حکام کو کسی بھی ملزم کی گرفتاری کے اختیارات حاصل ہیں۔ امکان یہی ہے کہ سپریم کورٹ سے رجوع کرنے پر نیب کو اس کے اختیارات استعمال کرنے اور ملزموں کو گرفتار کرنے کی ہدایات جاری کی جائیں گی۔ فریال تالپور کے وکیل اور پیپلز پارٹی کے رہنما فاروق ایچ نائیک نے ایف آئی اے اور سپریم کورٹ کے نام اپنی درخواست میں کہا ہے کہ میری مؤکلہ کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ پر شدید تحفظات ہیں، لہٰذا انہیں تبدیل کیا جائے تو فریال تالپور مکمل تعاون کریں گی۔ وطن عزیز میں یہ عجیب رواج چل پڑا ہے کہ ملزمان کو عدالتوں اور ریاستی اداروں کے حکام پر اعتراضات اور تحفظات کا حق حاصل ہے۔ گویا اپنی مرضی کا منصف ہو تو ہم پیش ہوں گے، ورنہ جائز عدالتی کارروائیوں میں بھی تعاون نہیں کریں گے۔ یہ رعایتیں صرف سیاستدانوں، حالیہ و سابقہ حکمرانوں، اعلیٰ بیورو کریسی کے ارکان اور اثرو رسوخ رکھنے والے ملزمان کو دی جاتی ہیں۔ جس کا واضح مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنے خلاف مقدمات میں تاخیر پر تاخیر کی جائے اور اس دوران اندرون و بیرون ملک سودے بازی کرکے یا کہیں سے مدد حاصل کرکے اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کا موقع تلاش کیا جائے۔ آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے خلاف پینتیس ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے مقدمات قائم ہیں۔ ایف آئی اے کی تحقیقات کے نتیجے میں ابتدائی طور پر تیئس ارب روپے کی منی ٹریل کا پتہ لگایا جاچکا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق بینکوں سے حاصل کئے جانے والے اب تک کے ریکارڈ سے انکشاف ہوا ہے کہ منی ٹریل ستر ارب روپے تک جاپہنچی ہے۔ مسلسل ریکارڈ ملنے کے باعث منی لانڈرنگ کے پچھتر ارب روپے سے بھی تجاوز کرنے کے امکانات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ منی لانڈرنگ کے مقدمات میں آصف علی زرداری کے منہ بولے بھائی اویس مظفر ٹپی بھی شامل ہیں اور ان کے خلاف بھی تحقیقات ہورہی ہے۔ بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں بھتوں اور کمشین لینے کا آغاز کرنے والے ان کے شوہر آصف علی زرداری مسٹر ٹین پرسنٹ کے لقب سے مشہور تھے۔ پھر پیپلزپارٹی کے اگلے ادوار میں وہ قومی دولت کے لوٹ کھسوٹ، بھتوں کی وصولی، زمینوں پر قبضوں اور صنعت و تجارت کے اکثر بڑے معاملات میں اپنا کمیشن بڑھاتے بڑھاتے مسٹر سینٹ پرسنٹ (یعنی سو فیصد والے) قرار پائے اور ان کی یہ شہرت پاکستان ہی میں نہیں، بیرون ملک بھی دوام حاصل کر گئی۔
اداروں اور عدالتوں کی سست رفتاری پر اہل وطن سخت حیران و پریشان ہیں کہ کھربوں روپے لوٹ کر اپنے، عزیز و اقارب اور فرضی ناموں سے بیرون ملک منتقل کرنے والے اب تک قرار واقعی سزاؤں سے کیونکر بچے ہوئے ہیں؟ قوم کو حاضر، سابق حکمران، سیاستدان اور نوکر شاہی کے کل پرزوں میں سے کسی کو جیل میں ڈالنے یا پھانسی پر چڑھانے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اصل میں ان کے حلق میں ہاتھ ڈال کر اور پیٹ پھاڑ کر ساری دولت نکلوائی جائے تب ہی تو ملک اور عوام کے دلدر دور ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد کوئی نیا قرضہ لینے کی مجبوری باقی نہ رہے گی، بلکہ سارے پرانے قرضے بھی ادا ہو سکتے ہیں۔ ضرورت کے مطابق ڈیم بنا کر پانی کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ بجلی کے منصوبے شروع کرکے وطن عزیز کو تاریکی سے مستقل نجات دلائی جاسکتی ہے۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں کو فعال بنایا جاسکتا ہے اور صنعت و تجارت کی ترقی سے بے روزگاری کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ نواز شریف، ان کے خاندان کے افراد اور ساتھیوں کے خلاف سزاؤں اور تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو نااہل قرار دینے کے باوجود ملک کو اب تک مالی شعبے میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے۔ آصف علی زرداری، فریال تالپور، اویس ٹپی جیسے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے نہ جانے کتنے لوگ اب تک قید و بند کی سزاؤں سے بھی بچے ہوئے ہیں تو ان سے لوٹی ہوئی دولت اگلوانے میں مزید کتنا عرصہ درکار ہوگا؟ اس تاخیر کی وجہ سے عوام کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا ہونا لازمی ہے۔ یہ لوگ صرف مالی کرپشن میں ملوث نہیں، بلکہ اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے انہوں نے قاتلوں اور دہشت گردوں کے گروپ بھی بنا رکھے تھے، جن میں لیاری کا بدنام زمانہ دہشت گرد عزیر بلوچ قانون کی گرفت میں ہونے کے باوجود اب تک سزا سے بچا ہوا ہے۔ اس کے بابا لاڈلا اور عبد الرحمن ڈکیٹ نامی وحشیوں کے بارے میں یہاں تک لرزہ خیز انکشافات ہوئے ہیں کہ وہ لوگوں کو قتل کرکے ان کے سروں سے فٹ بال کھیلتے تھے۔ یہ سب کچھ پیپلز پارٹی اور اس کی حکومتوں کی سرپرستی میں ہوتا رہا۔ لیاری کے عوام میں سیاسی شعور پیدا ہونے اور اپنے حقوق سے آگہی کے بعد انہوں نے حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی سے جان چھڑانے کا فیصلہ کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کو اپنے حلقے میں بدترین شکست سے دوچار کیا، جس کا آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے رہنما تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ آج نہیں تو کل یہ ہونا ہی تھا۔ رب کائنات نے ظالموں کی سزاؤں کے لئے صرف آخرت کا حساب کتاب نہیں رکھا، بلکہ دنیا میں بھی مکافات عمل کا سلسلہ جاری ہے، جس کی لپیٹ میں بالآخر آصف زرداری، فریال تالپور اور ان کے تمام حواری آتے جا رہے ہیں۔ تاہم پاکستان کے عوام ان سب کے خلاف مزید کارروائیوں میں تاخیر پر حیرت زدہ ہو کر ان اندیشوں کا اظہار کر رہے ہیں کہ لوگوں کو ان کے حقوق اور انصاف دلانے میں تاخیر کرنے والے بھی کہیں مکافات عمل کی لپیٹ میں نہ آجائیں۔ ٭

Comments (0)
Add Comment