مسعود ابدالی
masood_abdali@hotmail.com
آج کل بنگلہ دیش شدید ہنگاموں کی لپیٹ میں ہے۔ ان ہنگاموں کا آغاز 29 جولائی کو ایک ٹریفک حادثے سے ہوا جب ڈھاکہ ایئرپورٹ کے قریب ایک17 سالہ بچی دیا خانم میم اور 18 سالہ عبد الکریم رجب کو ریس لگاتی بسوں میں سے ایک نے کچل کر ہلاک کردیا۔دونوں ہلاک شدگان اسٹوڈنٹ تھے۔ اس لئے ان کی ہلاکت کے خلاف ملک بھر کی جامعات اور تعلیمی اداروں کے طلبہ سڑکوں پر نکل آئے۔ احتجاج کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ یہ خبر پڑھ کر ہمیں 20 سالہ بچی بشریٰ زیدی یاد آگئی، جو اپریل 1985ء کو کراچی میں ریس لگاتی ایک بس کے نیچے آکر اپنی جان سے گئی اور اس کے بعد پھوٹنے والے فسادات اور نفرت کی لہر پر آج تک قابو نہ پایا جا سکا۔
کراچی کی طرح بنگلہ دیش کے ہر بڑے شہر میں سڑک پر حادثات بہت عام ہیں۔ یہاں بھی کم عمر ڈرائیور بلا لائسنس بسیں چلاتے بلکہ اڑاتے ہیں۔ بسوں کی جانچ پڑتال کو کوئی نظام نہیں اور ناقص بریک والی بسیں سڑکوں پر دندناتی پھر رہی ہیں۔ بسیں اپنے اسٹاپ پر پوری طرح نہیں رکتیں اور طلبہ چلتی ہوئی بسوں سے اترنے اور سوار ہونے مجبور ہیں، جس کی وجہ سے حادثات روزمرہ کا معمول ہیں۔ حادثے کے بعد طلبہ کا ردعمل فطری تھا۔ چنانچہ سارے ملک میں ہنگامے شروع ہوگئے۔ مشتعل مظاہرین نے تین سو سے زائد بسوں کو نذر آتش کردیا۔ احتجاج کے دوران مسلح افراد نے امریکی سفیر کے قافلے پر حملہ کر دیا، جس سے گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ تاہم امریکی خاتون سفیر مارسیا برنیکاٹ محفوظ رہیں۔ 65 سالہ مارسیا کو 2014ء میں سابق امریکی صدر بارک اوباما کی جانب سے بنگلہ دیش کے لیے سفیر مقرر کیا گیا تھا۔ اس احتجاج کے ساتویں روز جھڑپوں کے بعد حکومت نے موبائل اور انٹرنیٹ سروس کو معطل کر دیا ہے۔ احتجاج پر تشدد کے نتیجے میں 100 سے زائد طلبہ کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ زخمیوں میں سے کچھ کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
وزیر اعظم حسینہ واجد ہر مظاہرے کو حکومت کے خلاف سازش اور تختہ الٹنے کی کوشش سمجھ لیتی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے مظاہروں کو پوری قوت سے کچلنے کی کوشش کی۔ پولیس و قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم عوامی چھاترو لیگ کے مسلح کارکن بھی میدان میں آگئے اور پر امن احتجاج خونریز تصادم میں تبدیل ہوگیا۔ پولیس ہر جگہ ربر کی گولیاں استعمال کر رہی ہے، جس کی وجہ سے ہزاروں طلبہ زخمی ہوئے۔ پھر حسینہ واجد صاحبہ نے انتہائی سخت احکامات جاری کئے، جس کے مطابق پیر سے پولیس مظاہرین کے خلاف ربر کی گولیوں کے بجائے اصلی گولی استعمال کرے گی اور مظاہرے کے ذمہ دار طلبہ کے والدین پر نقصِ امن اور ملک سے غداری کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔
بھولی حسینہ کو کون سمجھائے کہ ان معصوم بچوں کو تمہارے تخت و تاج سے کوئی دلچسپی نہیں، یہ تو صرف اپنے جینے کا حق مانگ رہے ہیں، جسے ٹریفک پولیس اور وزارت داخلہ کی رشوت ستانی نے مشکل بنا دیا ہے۔ حیرت ہے کہ ایک ماں ہوکر بھی بی بی کو ان بچوں پر رحم نہیں آتا۔