’’لفظوں کے لہجے‘‘

لفظوں کے بھی لہجے ہوتے ہیں، بعض لفظوں کے خوبصورت معنے ان کے بدصورت لہجوں میں دب کر مر جاتے ہیں… پروفیسر نے یہ کہتے ہوئے لبوں میں سگریٹ دبا کر طویل کش لیا اور ڈھیر ساری نکوٹین حلق سے نیچے اتار کر پھیپھڑوں تک پہنچا دی۔ ساتھ ہی سیلانی کی پشت پر مضبوط فولادی دروازہ کھلا اور کھڑ کھڑ کھڑکھڑ بے ہنگم شور کسی بدتمیز نوجوان کی طرح زبردستی اندر گھس آیا۔ ’’قراقرم ایکسپریس‘‘ کے فولادی پہیوں تلے فولادی پٹریوں سے چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی، جس پر شاید اس نے احتجاج کیا تھا۔
سیلانی اس وقت ریل گاڑی میں سوار شہر قائد سے شہر قیادت کی جانب رواں دواں تھا۔ پروفیسر اس کا ساتھی مسافر تھا، ادھیڑ عمر کھچڑی بالوں والا پروفیسر دنیا کے ان خوش نصیب لوگوں میں سے تھا، جنہیں غم روزگار سے مکمل نجات حاصل تھی، اس کے مطابق اس کا لاہور میں دو کنال پر بنگلہ تھا، جس کی نچلی منزل کرائے پر دے کر اس نے اوپر دو کمرے بنا لئے تھے، چھڑا چھانٹ آدمی تھا، بنگلے کا کرایہ گزر اوقات اور دو کمرے رہائش کے لئے بہت کافی تھے، وہ مزے سے کاندھے سے کیمرہ لٹکائے، کتابوں سے بھرا بستہ لئے گھومتا پھرتا آوارہ گردی کرتا رہتا تھا۔ اس نے اپنا تعارف شیخ سلمان منور کے نام سے کرایا تھا، اس کا کہنا تھا کہ اسے دوست احباب ایس ایس ایم کے نام سے زیادہ جانتے ہیں۔ ایس ایس ایم کا کہنا تھا کہ سفر کا مزہ ریل گاڑی ہی میں ہے، بھلا ہوائی جہاز کا بھی کوئی سفر ہے، پتہ ہی نہیں چلتا کہ جہاز ساکت ہے یا اڑ رہا ہے۔ سیلانی کو وہ پروفیسر، پروفیسر سا لگا تھا اور اس نے یہ بات اس سے کہہ بھی دی تھی کہ میں تو آپ کو پروفیسر سمجھا تھا، جس پر اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ’’میں نے تو تعلیم بھی مکمل نہیں کی تھی، نفسیات میں داخلہ لیا اور ایک سال پڑھنے کے بعد دل بھر گیا، پھر فلسفہ اور لسانیات پڑھنے کا خبط ہوا اور سال بھر بعد یہ خبط بھی اتر گیا۔‘‘
’’خیر میں تو پھر بھی آپ کو پروفیسر ہی کہوں گا۔‘‘ سیلانی کی بات پر وہ مسکرا دیا۔
سیلانی اور ایس ایس ایم میں وہی عارضی دوستی ہوگئی، جو دو مسافروں میں ہوتی ہے۔ اس کے سوا کمپارٹمنٹ کے دیگر مسافروں میں ایک اسٹیٹ بینک کے ملازم تھے، جن کی گفتگو کا محور ذیابیطس اور بیگم قابو رکھنے کے نسخے تھا۔ دوسرے صاحب سیلز سے متعلق تھے، جو آس پاس کا خیال کئے بغیر فون پر منہ بھر بھر کر جھوٹ بول رہے تھے، کسی کو بتاتے کہ میں شیر شاہ میں ہوں اور کسی سے کہتے کہ کورنگی میں سیٹھ صاحب کے ساتھ میٹنگ ہو رہی ہے، اس جھوٹ سے فارغ ہونے کے بعد وہ بندہ تجزیہ نگار بن کر انتخابات پر رائے زنی شروع کر دیتا۔ اس کی بے تکی گفتگو بدمزہ کئے دے رہی تھی۔ ریل گاڑی کی چھک چھک کے ساتھ اس کی جھک جھک کا مقابلہ چل رہا تھا، وہ اس مقابلے میں نازیبا لطیفوں کا تڑکا لگانا نہ بھولتا اور پھر خود ہی قہقہہ لگا کر تالی مارنے کے لئے ہاتھ سامنے کر دیتا۔ سیلانی کا جی چاہا کہ کہیں سے سوئی مل جائے اور وہ اس کی ہتھیلی میں چبھو دے۔
اس سیلزمین کی وجہ سے سیلانی کے سر میں درد ہونے لگا تھا۔ سیلانی نے اس کا اظہار کیا تو اسٹیٹ بینک کے ملازم نے جھٹ سے پوچھا:
’’آپ کو دائمی قبض کی شکایت تو نہیں؟‘‘ اس سوال کے بعد موصوف نے جواب کا انتظار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور علاج بھی بتانے لگے: ’’اسپغول ہوتا ہے ناں، اس کی بھوسی لیں، کم از کم دو چائے کے چمچ اور کھانے سے پہلے پھکی مار لیں، اب کھانے میں مونگ کی پتلی دال ابال کر اس میں ایک چمچ سرکا ملالیں، پھر دیکھیں ایسی اجابت آئے گی کہ پیٹ میں تنکا بھی نہیں رہے گا‘‘۔
’’مجھے قبض نہیں ہے۔‘‘ سیلانی نے غصے میں چبا چبا کرکہا اور اٹھ کر کمپارٹمنٹ سے باہر آگیا۔ وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا کہ اس نیم حکیم اور جھکی سیلز مین کے ساتھ اٹھارہ گھنٹے کا سفر کیسے کٹے گا۔ وہ برے برے منہ بناتا ہوا یہ سوچ رہا تھا کہ فولادی دروازہ کھلا اور ایس ایس ایم مسکراتا ہوا آگیا۔
’’سر!آپ یہاں آگئے، ادھر حکیم صاحب آپ کا پوچھ رہے ہیں۔‘‘
’’مجھے تو بخشیں بھائی، مجھے ان کی حکمت سے کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘
’’اور آپ کے خیال میں انہیں اس کی پروا ہوگی؟‘‘ یہ کہہ کر ایس ایس ایم نے جیب سے سگریٹ نکال لی۔
’’آپ تو سگریٹ نہیں پیتے، مجھے اجازت دیں گے؟‘‘
’’آپ کو کیسے پتہ کہ میں سگریٹ نہیں پیتا؟‘‘
’’آپ کے ہونٹوں پر وہ سیاہی نہیں، جو ہم نکوٹین والوں کے لئے مخصوص ہے۔‘‘ ایس ایس ایم نے مسکراتے ہوئے سگریٹ سلگائی اور پھر اس کی نظر سیلانی کے پیچھے کسی چیز پر جم کر رہ گئی، پھر وہ آگے بڑھا اور سیلانی کے پیچھے پڑا ہوا اخبار کا تراشہ اٹھا لیا۔ یہ ملک کا ایک کثیر الاشاعت انگریزی اخبار تھا، پرانی تاریخ کا اخبار تھا۔ ایس ایس ایم پیشانی پر بل ڈالے اس اخبار میں کچھ پڑھنے لگا اور پھر نتھنوں سے دھواں اگلتے ہوئے بڑبڑانے لگا:
’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘
’’خیریت؟‘‘
’’یہ دیکھیں۔‘‘ ایس ایس ایم نے طویل سانس لیتے ہوئے وہ تراشہ سامنے کردیا، یہ ایک انگریزی روزنامے کی چار کالمی خبر کی سرخی تھی:
’’Three Kashmiri saparatists die in gun battle‘‘
(تین کشمیری علیحدگی پسند فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک)
’’اگر اس اخبار کا نام چھپا لیا جائے تو کوئی یہ سرخی پڑھ کر بتا سکے گا کہ یہ بھارتی اخبار ہے یا پاکستانی؟ بھارتی
اخبارات بھی کشمیری حریت پسندوں کو علیحدگی پسند، عسکریت پسند اور آتنک وادی لکھتے ہیں، لیکن یہ تو پاکستان ہے ناں بھائی، آپ کا میڈیا کہاں جا رہا ہے، کس کی زبان بول رہا ہے، کچھ خبر لیجئے جناب‘‘
’’افسوس ناک، حیرت ہے یہ لفظ چھپ کیسے گیا، ہو سکتا ہے غلطی سے چھپ گیا ہو۔‘‘
’’نہ،نہ، نہ، نہ… اب آپ میڈیا کی غلط وکالت کر رہے ہیں، یہ غلطی نہیں ہے، جان بوجھ کر لکھا گیا ہے اور بہت سوچ سمجھ کر لکھا گیا ہے، ان لفظوں کے پیچھے پوری theme ہوتی ہے، کیا اس اخبار کے ایڈیٹر کو علیحدگی پسند اور حریت پسند کا فرق نہیں پتہ ہوگا؟‘‘
ایس ایس ایم کی بات سو فیصد درست تھی۔ اخبار کی سرخی سب ایڈیٹر نکالتا ہے، جس کی منظوری نیوز ایڈیٹر دیتا ہے اور نیوز ایڈیٹر کوئی ہلکا آدمی نہیں ہوتا۔ وہ اخبار کی سرخیوں پر ایڈیٹر سے بات کرتا ہے، رائے دیتا اور ہدایات لیتا ہے، یہ محض غلطی نہیں ہو سکتی‘‘۔
اب ایس ایس ایم کسی ماہر لسانیات کی طرح لفظوں کی ساخت اور لہجے بتانے لگا: ’’ایک لفظ ہے لال، لام الف لا اور لام ساکن، اب آپ ذرا آنکھیں بند کرکے لفظ دوہرائیں ’’لال‘‘۔
سیلانی نے آنکھیں بند کیں اور زیر لب بڑبڑایا:
’’لال‘‘
’’اب ذرا اسی طرح کہیں سرخ۔‘‘ سیلانی نے ایسا ہی کیا۔
’’اب اسی طرح آنکھیں بند کئے کہیں لال اور سرخ۔‘‘
سیلانی نے ایسا ہی کیا اور پھر اسے ایس ایس ایم کی آواز آئی ’’ذرا محسوس کریں کہ لال کہتے ہوئے کس طرح کا رنگ تخیل میں آتا ہے اور سرخ کہنے سے کیسا؟‘‘
حیرت انگیز طور پر دونوں الفاظ کے احساسات مختلف تھے۔ لال کہنے سے بس عام سا لال رنگ کا خیال ذہن میں آیا، سرخ کہنے سے گہرا گاڑھا سرخ رنگ کا تصور ہوا۔ سیلانی نے جھٹ سے آنکھیں کھول دیں اور حیرت سے ایس ایس ایم کو تکنے لگا، جو سگریٹ کا آخری کش کھینچ کر اسے ریل کے بیت الخلا میں اچھال رہا تھا۔ ایس ایس ایم کہنے لگا: میں نے کہا تھا ناں کہ لفظوں کے بھی لہجے ہوتے ہیں، یہاں بڑی باریکی سے کام ہوا ہے، حریت پسند کچھ اور ہوتے ہیں اور علیحدگی پسند کچھ اور۔ افسوس کہ یہ وقت بھی آنا تھا، میں کوئی بہت اچھا انسان یا اچھا پاکستانی نہیں ہوں، لیکن سیلانی صاحب! کم اچھا ہی سہی، پاکستانی تو ہوں ناں، میں اس اخبار کی سرخی کے خلاف احتجاج کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے اپیل کر رہا ہوں کہ آپ ایک صحافی کی حیثیت سے اسے رپورٹ کریں، کشمیریوں نے پاکستان کے لئے چار نسلیں قربان کر دی ہیں اور جس ملک کے لئے وہ بے امان ہیں، وہیں سے انہیں علیحدگی پسند کہا جا رہا ہے؟؟؟‘‘
سیلانی نے اس اخباری تراشے کی موبائل سے تصویر کھینچ کر رکھ لی اور اسلام آباد میں فرصت ملنے پر شیخ سلمان منور کا احتجاج ریکارڈ پر لانے کے لئے لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا۔ بظاہر بات چھوٹی سی تھی، لیکن سیلانی کا دل بوجھل کئے دے رہی تھی۔ غالباً ملکی تاریخ میں کشمیری حریت پسندوں کو کسی نے علیحدگی پسند نہیں لکھا تھا۔ سیلانی نے ایس ایس ایم کا احتجاج صفحہ قرطاس پر ڈالا اور بوجھل دل لئے سیل فون میں محفوظ اخباری تراشے کی تصویر دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment