مقبوضہ کشمیر میں بھارتی آئین کی دفعہ 35-A کی منسوخی کے منصوبے کے خلاف اتوار کو دو روزہ مکمل پہیہ جام ہڑتال اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہڑتال کی اپیل کرنے والے حریت رہنما سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کو ان کی رہائش گاہوں میں نظر بند کردیا گیا، جبکہ محمد یٰسین ملک گرفتاری سے بچنے کے لئے روپوش ہوگئے۔ حریت رہنماؤں کی اپیل پر ہونے والی مکمل ہڑتال اور مظاہروں میں مقبوضہ کشمیر کے عام باشندوں کے علاوہ تاجروں، مذہبی و سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے بھرپور شرکت کی۔ ریاستی حکومت نے ریل سروس معطل کر دی۔ اس کے علاوہ ہندوؤں کی امر ناتھ یاترا کو بھی عارضی طور پر ملتوی کر دیا گیا۔ پہلے دن پوری مقبوضہ وادی جموں و کشمیر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی وجہ سے معمولات زندگی بری طرح درہم برہم ہوکر رہ گئے۔ ہفتے کے روز بھارتی فوجیوں کی فائرنگ سے وادی میں کئی مقامات پر مزید سات کشمیری نوجوان شہید ہوئے، کئی شہروں میں اتوار کو ان کی نماز جنازہ بھی ادا کی گئی۔ واضح رہے کہ بھارتی آئین کی دفعہ 35-A کے تحت مقبوضہ کشمیر کو ملک کے دوسرے علاقوں سے مختلف حیثیت حاصل ہے۔ اس آرٹیکل نے جموں و کشمیر کے مستقل مکینوں کو خصوصی حقوق و مراعات دی ہیں۔ غیر کشمیریوں کے یہاں مستقل طور پر رہائش اختیار کرنے پر پابندی عائد ہے۔ بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS) کی ایک ذیلی تنظیم ’’ہم شہری‘‘ نے دفعہ 35-A کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرکے اسے بھارتی آئین سے ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ 1954ء میں ایک صدارتی حکم کے ذریعے آرٹیکل 35-A کو بھارتی آئین میں شامل کیا گیا تھا۔ پیر کو اس دفعہ کے خلاف دائر کی گئی درخواست کی سماعت سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو کرنی تھی، جس پر کشمیری باشندوں نے اتوار سے دو روز پر امن احتجاج شروع کردیا، لیکن ایک جج کی غیر حاضری کے سبب پیر کو سماعت نہ ہو سکی۔ سپریم کورٹ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم صرف یہ دیکھیں گے کہ آرٹیکل 35-A ملکی آئین کے بنیادی ڈھانچے سے تو نہیں ٹکراتا۔ اب اس کیس کی سماعت دو ہفتے بعد ہوگی۔ جموں و کشمیر کی سابقہ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے خبردار کیا ہے کہ ریاست کی خصوصی حیثیت سے کھیلنے کا نتیجہ پورے بھارت کے لئے نہایت خطرناک ہوگا۔ کشمیری رہنماؤں اور بھارتی حکومت کے درمیان ایک معاہدے کے تحت 1954ء میں آئین کے آرٹیکل 35-A کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت اور یہاں کے باشندوں کو بعض رعایات دی گئی تھیں۔ ان میں وادی سے باہر کے بھارتی باشندوں کو کشمیر کی مستقل شہریت اختیار کرنے، یہاں جائیداد خریدنے اور خواتین کو وادی سے باہر کے مردوں سے شادی کرنے کی صورت میں جائیداد خریدنے پر پابندی عائد ہے۔ بھارت کے انتہا پسند ہندو اس دفعہ کو ختم کرا کے بھارتی ہندوؤں کو وادی جموں و کشمیر میں مستقل طور پر آباد کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں تاکہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو ختم کرکے اقلیت میں تبدیل کیا جاسکے اور وادی کے وسائل پر قابض ہوکر مسلم آبادی کو ان سے محروم کر دیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں سات سے آٹھ لاکھ فوج اور پولیس کے اہلکار پہلے ہی کشمیریوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ اگر کشمیریوں کو حاصل خصوصی مراعات ختم کردی گئیں تو بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیموں کو وادی پر قبضہ و تسلط کی پوری آزادی مل جائے گی۔ لہٰذا کشمیریوں کا اس منصوبے کے خلاف احتجاج، ہڑتالیں اور مظاہرے بلاجواز نہیں، بلکہ بھارت سے آزادی کی تحریک کا لازمی جز ہے۔ اگر بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیری باشندوں کے خلاف بغض و تعصب اور امتیازی سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی فیصلہ سنایا تو اس سے ان کے اپنے ملک میں انتشار، بدامنی اور تباہی و بربادی کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے، جس کا نتیجہ بھارت کے ٹکڑے ہونے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
عمران خان کا خواب، آگے کیا ہو گا؟
پیر کو تحریک انصاف، حامی جماعتوں اور آزاد ارکان کے ایک اجلاس میں عمران خان کو ملک کا آئندہ وزیر اعظم نامزد کر دیا گیا ہے۔ صوبوں کے گورنروں اور وزرائے اعلیٰ پر مشاورت کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، جو اندرونی اختلاف اور انتشار کی گواہی دیتا ہے۔ عمران خان کے بعض کھلاڑی اپنے پسندیدہ عہدوں کا مطالبہ کررہے ہیں، جبکہ سودے بازی کے ذریعے دوسری جماعتوں سے آنے والے ارکان پارلیمان اور آزاد ارکان بھی حصہ بقدر جثہ بلکہ اس سے بھی زیادہ حاصل کرنے کے لئے بے چین ہیں۔ ایم کیو ایم بعداز خرابی بسیار تحریک انصاف کی حلیف بننے پر تیار تو ہوگئی، لیکن وفاقی حکومت کی تشکیل سے پہلے ہی دونوں جماعتوں کا اتحاد اختلاف میں تبدیل ہونے لگا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی نے یہ کہہ کر نیا پنڈورا بکس کھول دیا کہ ہم تو مجبوری میں ایم کیو ایم کے پاس گئے تھے، اس سے اتحاد بھی مجبوری میں کیا۔ ایم کیو ایم پر جو الزامات لگائے، میں ان پر قائم ہوں۔ ہمیں حکومت سازی کے لئے اپنے ووٹ پورے کرنے تھے۔ ادھر عمران خان نے فردوس شمیم نقوی سے ان کے بیان پر وضاحت طلب کر لی ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ کے سینئر نائب صدر منظور حسین وسان نے جو سیاسی خواب دیکھنے کی شہرت رکھتے ہیں، اس صورتحال پر دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایم کیو ایم حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف پر دھاندلی کے الزامات لگا رہی تھی، لیکن تعجب ہے کہ اس نے نکاح بھی اسی جماعت سے کرلیا۔ عجلت میں ہونے والی یہ شادی زیادہ عرصے تک نہیں چلے گی۔ بہت جلد ان کے درمیان طلاق ہو جائے گی۔ تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق نے فردوس شمیم نقوی کے بیان کو ان کی ذاتی رائے قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پارٹی پالیسی نہیں ہے۔ کراچی کی بہتری کے لئے ہم ہر جماعت کے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار ہیں۔ اہل وطن کو اچھی طرح یاد ہے کہ ایم کیو ایم اور اس کے بانی قائد کی سب سے زیادہ اور نہایت شدت کے ساتھ عمران خان نے مخالفت کی تھی اور اسے قاتل، دہشت گرد اور بھتہ خور قرار دے کر اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان کے دشمن الطاف حسین کا برطانیہ تک پیچھا کریں گے اور وہاں مقدمہ دائر کرکے اسے قرار واقعی سزا سے دوچار کرائیں گے۔ اب اگر اقتدار کی خاطر عمران خان اور ان کے ساتھی قاتل اور دہشت گردوں کے ایک گروہ سے ہاتھ ملا سکتے ہیں جو ان کے خیال میں ملک دشمن بھی ہے، تو وہ بھارت اور امریکا سمیت کسی بھی پاکستان دشمن کو اپنے اقتدار کی بقا کے لئے ضروری سمجھیں، تو کیا ان سے بھی حمایت و تعاون حاصل کرنے کے لئے آمادہ ہو جائیں گے۔ ان کا وزیر اعظم بننے کا خواب بائیس سال میں پورا ہوا ہے تو اس کی بقا کے لئے وہ کہاں تک آگے جا سکتے ہیں؟
٭٭٭٭٭