کسی بدو سے ایک شخص نے سوال کیا کہ گرمیوں کے موسم میں جب دوپہر کا وقت ہوتا ہے، جب درختوں کے سائے بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ سورج کی گرمی سے انسان تڑپ رہا ہوتا ہے، تم اس وقت صحراء میں ہوتے ہو۔ صحراء میں ریت شدید گرم ہوتی ہے اوپر سے سورج کی تپش، تو ایسے عالم میں تم کیسے گزارہ کرتے ہو؟
وہ بدو مسکرایا اور کہنے لگا: ارے! یہی تو زندگی ہے۔ اس وقت ہم میں سے کوئی ایک میل کی مسافت سے تیز چلتا ہوا آتا ہے۔ اس کا جسم پسینے سے شرابور ہو جاتا ہے۔ پسینے کے قطرے اس کے چہرے پر موتیوں کی طرح چمک رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں وہ اپنی لاٹھی ریت میں نصب کرتا ہے، پھر اپنی پسینہ والی چادر اتار کر اسے اس لاٹھی پر لٹکا دیتا ہے۔ چاروں طرف سے ہوائیں شمال سے، جنوب سے، مشرق سے اور مغرب سے آتی ہیں۔ وہ اس چادر سے ہو کر گزرتی ہیں، پھر اس چادر سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آتے ہیں۔ تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہم کسریٰ کے ایوان میں بیٹھے ہیں۔
قارئین کرام! آپ نے بدو کی بات سنی اور پڑھی۔ آپ کو اندازہ ہوا کہ یہ لوگ اپنی زندگی سے کس قدر خوش و خرم ہیں۔ میں گزشتہ سال دسمبر 2017ء میں تھر پارکر گیا۔ وہاں ہم نے کچھ کنویں کھدوائے اور نلکے لگوائے۔ مجھے ایک سرکنڈوں سے بنا ہوا گھر دکھایا گیا۔ میں نے اس کے مالک سے کہا: بھائی! آپ لوگ اس صحراء کو چھوڑ کر شہروں میں کیوں آباد نہیں ہو جاتے؟ حکومت بھی آپ کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا: صاحب! اگر آپ سے کہا جائے کہ آپ شہر چھوڑ کر یہاں آ کر بس جائیں توکیا آپ یہاں رہنے کے لیے آ جائیں گے؟ میرے انکار پر کہنے لگا: جس طرح آپ شہری زندگی نہیں چھوڑ سکتے، اسی طرح ہم بھی اس صحراء کی زندگی کو نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم لوگ صدیوں سے یہاں آباد ہیں۔ ہم بڑے خوش وخرم اور مطمئن ہیں۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ مزدور درخت کے نیچے بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنا مختصر سا دستر خوان جو کبھی اخبار کے کاغذ پر یا کپڑے کے چھوٹے سے ٹکڑے پر مشتمل ہوتا ہے، بچھایا ہوتا ہے اور بڑے مزے سے خدا کا نام لے کر اور اس کا شکر ادا کرتے ہوئے کھانا کھا رہے ہوتے ہیں۔ اپنی زندگی کو انجوائے کرتے ہیں۔ ان سے پوچھیں کیا حال ہے؟ تو جواب میں بار بار کہیں گے: مالک کا شکر ہے، مولا کا کرم ہے… کیا مجال ہے کہ ان کے منہ پر شکوا کے الفاظ ہوں۔ مؤمن کی شان یہی ہے کہ حق تعالیٰ جس حال میں رکھے وہ اپنی زندگی پر خوش ہوتا ہے۔آئیے رسول اقدسؐ کی ایک حدیث کا مفہوم پڑھ کر آگے بڑھتے ہیں۔ مؤمن کے ہر کام پر تعجب ہے۔ اس کے لیے ہر صورت میں خیر ہی خیر ہے ۔گویا وہ ہر حالت میں راضی اور خوش اور مطمئن ہے اور یہ اطمینان صرف مؤمن ہی کو ملتا ہے۔ اگر اسے مشکل آتی ہے تو صبر کرتا ہے اور یہ صبر کرنا اس کے لیے خیر کا باعث ہوتا ہے اور اگر اسے کشادگی، راحت اور سکون ملتا ہے تو وہ شکر کرتا ہے اور یہ شکر کرنا بھی اس کے لیے خیر وبھلائی کا باعث ہوتا ہے۔
مجھے بہت مرتبہ چین یا یورپی ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ میں نے کافروں سے جب بھی پوچھا کہ تمہارے حالات کیسے ہیں؟ وہ عموماً وہ حالات کا شکوا ہی کرتے نظر آئے ہیں۔ ان کے چہروں پر مایوسیوں کی پرچھائیاں ہوتی ہیں۔ نو مسٹر نو، بزنس اچھا نہیں۔ بس اس سال کاروبار پچھلے سال سے کم رہا۔ کبھی حکومت پر الزام، کبھی لیبر کے مسائل، کبھی مارکیٹ میں بے پناہ مقابلہ، کبھی کسٹمر کی کمی، گویا اپنے حالات سے وہ کبھی مطمئن نہیں ہوتے۔
مسلمان کی زندگی کافر کی زندگی سے یکسر مختلف، پاکیزہ اور خوشگوار ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ النحل آیت نمبر 97 میں حق تعالیٰ فرماتے ہیں: (ترجمہ) ’’جو شخص بھی نیک اعمال کرے، خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مؤمن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی بسر کروائیں گے اور آخرت میں اس کے بہترین اعمال کے مطابق اسے ان کا اجر عطا کریں گے۔‘‘
اس آیت کے عربی الفاظ میں ’’فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاۃً طَیِّبَۃً‘‘ شامل ہیں۔ جن کے معنی ہیں: پاکیزہ زندگی بسر کروائیں گے۔ میں نے اس آیت کو بار بار پڑھا اور خوب لذت حاصل کی۔ ایسے ہی خیال آیا، میں نے اپنی زندگی پر نظر دوڑائی، حق تعالیٰ کے بے پناہ انعامات کو سوچا، ان پر غور و فکر کیاکہ لا تعداد ایسی نعمتیں ہیں، جو میرے رب نے مانگے بغیر مجھے عطا کر دی ہیں۔ مجھے اپنے گناہ گار ہونے کا خوب معلوم ہے، مگر جب رب تعالیٰ کی رحمت، فضل اور کرم نوازی پر غور و فکر کرتا ہوں تو پھر اپنی زندگی بھی پاکیزہ اور خوشگوار نظر آتی ہے۔
قارئین کرام! بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حیاۃ طیبہ سے مراد مال کی کثرت، وسیع و عریض تجارت، دولت، بیک بیلنس، نوکر چاکر، گاڑیوں اور بنگلوں کا حصول ہے۔ بعض سمجھتے ہیں کہ اگر زیادہ اولاد ہو، اعلیٰ منصب یا جاہ و جلال ہو تو یہ پاکیزہ زندگی ہے۔
حق تعالیٰ کے نزدیک حیاۃ طیبہ یعنی پاکیزہ زندگی کی شرط اول ایمان ہے۔ دوسری شرط عمل صالح یعنی نیک اعمال سنت نبویؐ کے مطابق، رسول اکرمؐ کے بتائے ہوئے طریقوں اور اصولوں کے مطابق ہوں۔ مفسرین نے کہا کہ حیاۃ طیبہ دراصل سعادت کا دوسرا نام ہے۔
قارئین کرام !کتنی ہی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ آپ گہری نیند سو رہے ہیں۔ کانوں میں حی علی الصلاۃ، حی علی الفلاح کی آواز سنائی دیتی ہے، آپ اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ قدم وضو کے لیے اٹھ جاتے ہیں۔ آپ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے مسجد کی طرف جا رہے ہیں ۔ میں کئی مرتبہ سوچتا ہوں اور اپنے رب سے زبانی بھی کہتا جاتا ہوں: الٰہی! تیری توفیق اور مہربانی سے ایسا ہو رہا ہے کہ میں تجھے راضی کرنے کے لیے مسجد جا رہا ہوں۔ اگر تیری رضا اور تیرا کرم مطلوب نہ ہوتا، تیرا خوف اور ڈر نہ ہوتا تو میں اپنے بستر پر سو رہا ہوتا۔ مسجد میں داخل ہوئے، اب رب کے حضور ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ میں اپنے آپ کو اس کائنات کا سب سے خوش قسمت انسان سمجھ رہا ہوں کہ وہ ایسے رب کے سامنے کھڑا ہے جو زمین و آسمان اور اس میں جو کچھ ہے اس کا مالک ہے۔ جو واقعی سب سے بڑا ہے۔
میری سعادت اور خوش قسمتی ہے کہ میں مؤمن ہوں، میں کوشش کرتا ہوں کہ میں حلال رزق کماؤں اور کھاؤں۔ حیاۃ طیبہ سے مراد رزق حلال کا ہونا بھی ہے۔ میں قناعت پسند ہوں۔ جو میرے رب نے میرے مقدر میں لکھ دیا میں اس پر دل و جان سے راضی ہوں۔ میرا دل خوشیوں سے لبریز ہے۔ میں سعادت مند ہوں۔ مجھے رزق کی فکراس لیے نہیں کہ میرے پیدا ہونے سے پہلے میرا رزق لکھ دیا گیا تھا۔ جب تک وہ رزق کھا نہ لوں مجھے موت نہیں آئے گی۔ میری موت کا وقت بھی مقرر ہے، جو رات مجھے قبر میں آنی ہے، وہ دنیا میں نہیں آ سکتی۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭