امریکی محکمہ خارجہ نے مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں قائم اپنے سفارت خانوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ جس ملک میں بھی کام کررہے ہیں، وہاں سخت نظر رکھیں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ کسی بھی ایسے ملک کو امریکی امداد کی ترسیل نہ ہو پائے، جس کی فوج انسانی حقوق کو پامال کرنے کی مرتکب ہو رہی ہو۔ امریکی محکمہ خارجہ کی یہ ہدایات حقیقت سے زیادہ افسانہ محسوس ہوتی ہیں، کیونکہ دنیا بھر میں کسی بھی جگہ اور کسی بھی ملک میں کوئی بھی فوج انسانی حقوق کی اس قدر سختی اور شدت کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں کرتی، جتنا کہ خود امریکہ اور اسرائیل کی افواج کرتی ہیں اور برسوں سے کرتی چلی آرہی ہیں۔ اس حوالے سے دونوں ملکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، یہ انسانیت کے خلاف سنگین جرائم سے بھری پڑی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی افواج جنگی جرائم میں ملوث رہی ہیں اور اب بھی یہ جرائم کر رہی ہیں۔
ان ممالک کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے بے گناہ اور نہتے عوام کے خلاف کیمیکل، بایولوجیکل، ریڈیولوجیکل اور ڈیپلیٹڈ یورنیم سمیت متعدد ایسے ہتھیار استعمال کئے ہیں، جن کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ امریکہ نے تو اس قسم کے ہتھیار اتنی کثرت سے استعمال کئے کہ سینکڑوں امریکی فوجی بھی ان کی تابکاریوں کی زد میں آکر یا تو ہلاک ہوئے یا پھر کینسر اور دیگر موذی امراض میں مبتلا ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے خلاف انسانی تاریخ کے اولین ایٹم بموں کا استعمال امریکہ نے کیا، حالانکہ امریکہ کو جاپان کے خلاف ایٹم بم استعمال کرنا ضروری نہ تھا۔ لیکن امریکہ نے اپنے ایٹم بم کے تجربے کے فوراً بعد یہ خوفناک ہتھیار جاپان کے خلاف استعمال کیا، جس کا مقصد جاپان کی شکست کے ساتھ ساتھ دنیا کو یہ پیغام بھی دینا تھا کہ دنیا امریکہ سے خبردار رہے اور اس کی مخالفت کی کوشش نہ کرے، کیونکہ امریکہ کے پاس ایٹم بم جیسا خوفناک اور تباہ کن ہتھیار ہے،
جو دنیا میں کسی کے پاس موجود نہیں۔
ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد اسرائیل میں ڈیوڈ فرائیڈمین کو امریکی سفیر مقرر کیا گیا، جو ڈونالڈ ٹرمپ کی طرح اسرائیلی عشق میں مبتلا ہو کر عقل و خرد سے آزاد ہو گئے ہیں۔ ڈیوڈ فرائیڈمین ایسی تحقیقات پر یقین نہیں رکھتے جو اسرائیلی فوج کے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کی بابت کی جائے یا پھر اسرائیلی فوج کے عوام کے ساتھ بدسلوکی کے بارے میں کی جائے۔ موصوف کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ اسرائیلی بری فوج کے بارے میں اس قسم کی تحقیقات کرنا امریکی مفادات کے خلاف ہوگا، جبکہ امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات بھی متاثر ہوں گے۔ حالانکہ دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ اسرائیلی فوج نہتے فلسطینیوں کے ساتھ کس طرح کا ظالمانہ سلوک اور رویہ اختیار کرتی چلی آرہی ہے۔ ان کے گھروں پر جبراً قبضہ کیا جاتا ہے یا انہیں مسمار کر کے ان کی جگہ نئی یہودی بستیاں آباد کی جاتی ہیں۔
اسرائیلی فوج نے غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے اور برسوں سے ان لوگوں کو ایک جیل کی شکل میں زندگیاں گزارنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ اسرائیل نے رواں برس کے شروع سے اب تک 1400 فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے اور شاید کوئی دن ایسا نہیں جاتا، جب ان مجبور و محصور لوگوں کو شہید نہ کیا جاتا ہو۔ اسرائیل نے پورے غزہ کو یرغمال بنایا ہوا ہے، ان تک کسی قسم کی امداد نہیں جانے دی جاتی۔ گزشتہ چند روز کے دوران بھی امدادی کشتیوں کی غزہ پہنچنے کی کوشش اسرائیلی بحریہ نے ناکام بنا دی۔ غزہ کی آبادی اسرائیلی فوج کی ننگی جارحیت کا کئی بار نشانہ بن چکی ہے۔ اسرائیلی فوج نے اس محصور سویلین آبادی کے خلاف دنیا بھر کا جدید اور ممنوعہ اسلحہ استعمال کیا ہے، جس کی بڑی مقدار اسے امریکہ اور برطانیہ نے فراہم کی۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اسرائیل میں امریکی سفیر ڈیوڈ فرائیڈمین کا کہنا ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ کی ایک جمہوری ریاست ہے، جس کی فوج کسی بھی طرح سے انسانی حقوق کی پامالی میں شریک نہیں اور نہ ہی کبھی اس نے انسانی حقوق کی پامالی میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔ بلاشبہ امریکی سفیر کی یہ بات آنکھوں دیکھے مکھی نگلنے کی ایک روشن مثال کہی جا سکتی ہے۔ امریکہ اسرائیل کی محبت میں اس قدر اندھا ہو چکا ہے کہ اسے اب غلط اور صحیح میں تمیز کرنے کی صلاحیت بھی حاصل نہیں رہی۔
ڈیوڈ فرائیڈمین فرماتے ہیں کہ اسرائیلی فوج میں احتساب اور تحقیقات کا ایک انتہائی مضبوط اور مستحکم نظام موجود ہے، جس کی موجودگی میں یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی اسرائیلی فوجی زیادتی کرے اور اس نظام کی زد میں آنے سے محفوظ رہے۔ اسرائیل کی فوجی امداد میں کٹوتی یا پھر اسے مکمل طور پر بند کرنا امریکہ کے مفادات کے خلاف ہوگا اور خاص کر ایسی شکل میں جبکہ اسرائیل کو حالت جنگ جیسی صورت حال کا سامنا رہتا ہو۔ ڈیوڈ فرائیڈمین کا یہ جھوٹا بیان اسرائیلی فوج کی وحشت و بربریت اور دہشت گردی کو جائز قرار دینے کی ایک انتہائی افسوسناک اور بھونڈی کوشش کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ اسرائیلی فوج اسرائیل کے قیام سے اب تک جو کچھ کرتی چلی آرہی ہے، وہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے نا کہ اسے مکمل طور پر سپورٹ کیا جائے اور اسے جدید ترین ہتھیاروں کی شکل میں انعام و اکرامات سے نوازا جائے۔
اسرائیلی فوج کا شمار دنیا کی ظالم ترین اور انسانی حقوق کو پامال کرنے والی افواج میں ہوتا ہے اور اسے کسی بھی طرح سے دنیا کی اعلیٰ اخلاقی کردار کی حامل فوج قرار نہیں دیا جا سکتا، جیسا کہ ڈیوڈ فرائیڈمین دعویٰ کرتے ہیں۔ اصل میں اسرائیلی فوج امریکی محکمہ خارجہ کی اس گائیڈلائن کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتی ہے، جو اس نے امریکی فوجی امداد کو جاری کرنے کے لیے وضع کر رکھی ہے اور امریکہ میں کوئی بھی ایسا موجود نہیں، جو اسرائیلی فوج کے ظالمانہ کردار کو اجاگر کرتے ہوئے اس کی فوجی امداد کو روکنے کی قرارداد کانگریس میں پیش کر سکے۔ جہاں تک اسرائیلی فوج کے شفاف اور مضبوط احتساب اور تحقیقاتی نظام کا تعلق ہے تو یہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور کے مترادف ہے، کیونکہ جب بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل یا انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے اداروں نے اسرائیلی فوج کے فلسطینیوں کے خلاف کئے جانے والے مظالم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے تو اسرائیلی حکومت نے کبھی ان کے سات تعاون نہیںکیا، بلکہ اپنی فوج کو سپورٹ کیا ہے۔ ایہود اولمرٹ جب اسرائیلی وزیر اعظم تھا تو غزہ پر ڈھائے جانے والے مظالم کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کا ایک وفد اسرائیل آیا تھا، لیکن اولمرٹ نے کسی بھی اسرائیلی فوجی کو اس وفد سے ملنے کی اجازت نہیں دی تھی، جن پر مظالم کے الزامات تھے۔
کسی بھی ملک کو امریکی امداد دینے سے متعلق قانون بہت واضح، صاف اور غیر مبہم ہے۔ 1961ء کا Foreign Assistance Act ان حکومتوں کو امریکی امداد کی فراہمی پر قدغن اور پابندی عائد کرتا ہے، جو بین الاقوامی معیار کے مطابق اور تسلیم شدہ انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی کی مرتکب ہوتی ہوں۔ جس میں ٹارچر، ظلم، غیر انسانی سلوک، ذلت آمیز سلوک، ذلت آمیز سزائیں، بغیر کسی الزام کے طویل عرصے حراست میں رکھنا، غیر قانونی طور پر لوگوں کو غائب کرنا یا ایسے لوگوں کو غائب کر کے انہیں خفیہ یا پوشیدہ طور پر حراست میں رکھنا وغیرہ شامل ہے۔ امریکہ اور اسرائیل بڑے پیمانے پر ان اقدامات کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں اور دونوں کی تاریخ اس قسم کے جنگی جرائم سے بھری پڑی ہے۔ چنانچہ اس اعتبار سے اسرائیل کو سرے سے کوئی امداد فراہم ہی نہیں کی جانی چاہئے۔
اسی طرح 2001ء میں پاس کئے جانے والے Foreign Operations Appropriation Act واضح طور پر یہ کہتا ہے کہ اس قانون کے تحت کسی بھی ملک کی فوج یا سیکورٹی ادارے کو سپورٹ کرنے یا انہیں تربیت فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ امریکی وزیر خارجہ کو اس کی وزارت خارجہ کی جانب سے یہ تصدیق فراہم کی جائے کہ یہ فوج یا سیکورٹی ادارہ کسی طور پر بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی مرتکب نہیں ہے۔ قانون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کوئی ایک یا چند فوجی بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہوں تو انہیں نہ تو سپورٹ کیا جائے اور نہ ہی انہیں تربیت فراہم کی جائے، مگر امریکہ خود ہی اپنے قوانین کی کھلے عام دھجیاں اڑاتا رہتا ہے، کیونکہ اسرائیلی فوجی امریکہ میں باقاعدگی سے تربیتی پروگراموں میں شریک رہتے ہیں۔
یہی قانون کسی ایسی فوج یا سیکورٹی ادارے کو ضروری تربیت کے لیے فنڈز کی فراہمی پر بھی پابندیاں عائد کرتا ہے جو انسانی حقوق کی پامالی کے مرتکب ہوتے ہوں۔ یہ قانون امریکی امداد کو اس وقت تک معطل رکھنے کا کہتا ہے جب تک ان افراد کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لایا جائے یا ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی نہ کی جائے، لیکن جب اس قانون کو اسرائیل اور دیگر امریکی حلیفوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کا اطلاق ان ممالک پر سرے سے ہوتا ہی نہیں، گویا یہ اس قانون سے مستثنیٰ ہیں۔
اسرائیل کا ریکارڈ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے انتہائی داغدار اور سیاہ ہے۔ اس کے خلاف اس ضمن میں ہزاروں کی تعداد میں دستاویزی موجود ہیں، جس کے تحت اسرائیل کے خلاف سخت ترین کارروائی ہونی چاہئے اور اسے ایک ڈالر بھی امریکی امداد کے طور پر نہیں فراہم کیا جانا چاہئے، لیکن اسرائیل کو ہر سال امریکہ کی جانب سے اربوں ڈالرز کی امداد فراہم کی جاتی ہے، جس میں فوجی امداد بھی ہوتی ہے، جس کے تحت اسرائیل کو جدید ترین ہتھیار اور ان کی جدید ترین ٹیکنالوجی فراہم کی جاتی ہے۔ امریکہ اسرائیل کو جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ جدید ترین اسمارٹ بم، میزائل اور ایمونیشن بھی فراہم کرتا ہے۔ اسرائیل کو امریکی امداد کی فراہمی میں ایک منفرد مقام حاصل ہے اور وہ ہر برس امریکی امداد کی وصولیابی میں اول نمبر پر ہوتا ہے۔
قابل افسوس بات یہ ہے کہ امریکی حکومت، کانگریس، سینیٹ، بیوروکریسی، پینٹاگون، تمام تر میڈیا اسرائیل کے گندے ترین ریکارڈ سے نہ صرف درگزر کرتے ہیں، بلکہ اس کی زبردست بھی حمایت کرتے ہیں۔ اسرائیلی مظالم اور جنگی جرائم کے بارے میں بات تک نہیں کی جاتی۔ اس کے ظلم و بربریت کا نشانہ بننے والے معصوم اور نہتے فلسطینیوں کو دہشت گرد کہا جاتا ہے اور اسرائیلی مظالم کو اس کے دفاع کا حق قرار دیا جاتا ہے۔ اسرائیل کے حوالے سے امریکی منافقت بالکل واضح ہے، لیکن دنیا میں کوئی بھی نہیں جو امریکی حکومت کے اس ظالمانہ کردار اور اسرائیلی حکومت کی دہشت گردیوں کی کھل کر حمایت کرنے پر اس پر کھل کر نکتہ چینی اور تنقید کر سکے۔
٭٭٭٭٭