پچیس جولائی 2018ء کو ہونے والے عام انتخابات کو لاجواب نہ کہا جائے تو پھر کیا کہا جائے کہ ان کے صاف و شفاف ہونے یا نہ ہونے اور انتخابی نتائج روکنے اور اعلان کرنے کا سلسلہ دو ہفتے بعد بھی جاری ہے۔ اب تک حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اصل پارٹی پوزیشن کیا ہے۔ کسی حلقے میں دوبارہ گنتی سے کوئی ہارا ہوا شخص جیتا ہوا قرار دیا جاتا ہے تو کہیں جیتنے والا شکست خوردہ بتایا جاتا ہے۔ حالیہ انتخابات پر مختصر اور جامع ترین تبصرہ یہ کیا گیا ہے کہ الیکشن تو شفاف ہوا، لیکن نتائج میں دھاندلی کی گئی۔ اس کے ثبوت میں پیش کی جانی والی یہ چار باتیں کافی ہیں۔ اول، گنتی کے وقت کئی پولنگ اسٹیشنوں سے پولنگ ایجنٹوں کو نکال دیا گیا تھا۔ دوم، فارم نمبر پینتالیس کئی جگہ اب تک دستیاب نہیں، جس پر ووٹوں کی تصدیق شدہ تعداد درج کر کے پولنگ ایجنٹوں کے حوالے کی جاتی ہے، تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ سوم، ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو ’’شفاف‘‘ پولنگ کی رپورٹنگ کے لیے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ چہارم، انتخابی نتائج کو ریکارڈ کرنے والا آر ٹی ایس عین وقت پر بیٹھ گیا، خراب ہو گیا یا اسے جان بوجھ کر خراب کر دیا گیا۔ اس کے بعد نتائج کے درست ہونے کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی تھی۔ انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر مسلسل سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ریمارکس خاص طور پر قابل توجہ ہیں کہ پتا نہیں الیکشن کمیشن کیسے چل رہا ہے۔ انتخابات والے دن میں نے چیف الیکشن کمشنر کو تین مرتبہ فون کیا، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ شاید وہ سو رہے تھے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آر ٹی ایس (اچانک) بیٹھ گیا۔ گویا الیکشن اچھا خاصا چل رہا تھا، الیکشن کمیشن نے مہربانی کر دی۔ انتخابات کے روز چیف الیکشن کمشنر سو رہے ہوں یا جاگ رہے ہوں۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے لفظ ’’شاید‘‘ استعمال کر کے ان کی عزت رکھ لی۔ اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ چیف الیکشن کمشنر نے اگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا فون ایک مرتبہ بھی نہ سنا تو انہوں نے فیصلہ کن معرکے والے دن کس کی بات سنی ہوگی یا کیا کارکردگی دکھائی ہو گی؟ ان حالات میں وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی نتائج مشکوک قرار پائیں اور ان پر احتجاج کیا جائے تو کیا عجب ہے؟ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے دو حلقوں سمیت ستائیس حلقوں کے نتائج روک لیے ہیں۔ مطلب یہ کہ نمبر گیم ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ اس صورت میں حکومتوں کی تشکیل کیونکر معتبر قرار پائے گی۔ اس سلسلے کی ایک اہم خبر یہ ہے کہ الیکشن کے موقع پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کے لیے یکساں تعداد میں بیلٹ پیپرز جاری کئے گئے تھے۔ لیکن الیکشن کمیشن کے اپنے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں قومی اسمبلی کے برعکس صوبائی اسمبلیوں کے لیے ساڑھے بارہ لاکھ سے زائد افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ 2018ء کے انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد دس کروڑ انسٹھ لاکھ پچپن ہزار سے زیادہ تھی۔ ان میں سے پانچ کروڑ پچپن لاکھ بیس ہزار چھ سو کے قریب ووٹ قومی اسمبلی کے لیے ڈالے گئے، جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے لیے پڑنے والے ووٹوں کی تعداد پانچ کروڑ سڑسٹھ لاکھ بانوے ہزار سے زائد تھی۔ اس طرح قومی اسمبلی کے مقابلے میں صوبائی اسمبلی کے لیے ڈالے جانے والے ووٹ بارہ لاکھ اکہتر ہزار چھ سو پینسٹھ زیادہ تھے۔ یکساں تعداد میں ووٹ کی پرچیاں (بیلٹ پیپرز) جاری کئے جانے کے باوجود قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے پڑنے والے ووٹوں کے اس فرق کی وجہ کیا ہے؟ سیاسی مبصرین اور انتخابی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جعلی ووٹ ڈالنے والوں نے اس امر کا خیال نہیں رکھا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے یکساں تعداد میں ووٹ بھگتائے جائیں۔ کچھ ایسا ہی فرق مردوں اور خواتین کے بیلٹ بکسوں سے برآمد ہونے والے ووٹوں میں پایا گیا۔ ان ثبوت و شواہد اور حقائق کی روشنی میں حالیہ انتخابات کو شفاف کہنے کے باوجود نتائج کو دھاندلی پر مبنی قرار دیا جائے تو غلط نہیں۔ لیکن آخر میں وہی ایک بات کہ اپنے وطن میں عام انتخابات ہمیشہ ایسے ہی ہوتے ہیں، جن کے نتائج کو تمامتر احتجاج کے باوجود بالآخر تسلیم کر لیا جاتا ہے اور دس بارہ فیصد ووٹ حاصل کرنے والا بھی عوام کی اکثریت کا نمائندہ قرار پاتا ہے۔
حکومت کی تشکیل سے قبل یوٹرن
قرضوں کی دلدل میں گردن تک دھنسے ہوئے ملک پاکستان کی غربت کا سبب وسائل کی کمی نہیں، بلکہ عوام پر مسلط دو خاندانوں کا چالیس پچاس سال سے جاری اقتدار ہے، جس نے کرپشن اور نااہلی کے ریکارڈ قائم کر کے قومی وسائل کی لوٹ مار کے ذریعے اپنی آئندہ کئی نسلوں کے لیے دولت کے انبار جمع کر لیے۔ ان کے اعزہ و اقارب، دوسرے سیاست دان اور نوکر شاہی کے ارکان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ تازہ ترین انکشاف کے مطابق ان پاکستانیوں کے خفیہ غیر ملکی اثاثوں کی مالیت تین کھرب پچاس ارب ڈالر (تقریباً تینتالیس ہزار کھرب روپے) ہے۔ سرکاری طور پر تحقیقات کرنے والوں کے مطابق 2018ء کی ایمنسٹی اسکیم کے تحت تین ماہ کے دوران پانچ ہزار تین سو سے زائد افراد نے دس کھرب روپے کے اکائونٹس ظاہر کئے ہیں۔ ظاہر کردہ آٹھ اعشاریہ ایک ارب ڈالرز غیر ملکی اثاثوں کا صرف دو اعشاریہ تین فیصد ہیں۔ دبئی میں موجود اثاثوں کا مجموعی حجم بیالیس کھرب چالیس ارب روپے ہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ اور امریکا میں ایک کھرب ڈالر اور سوئٹزر لینڈ میں پاکستانیوں کے دو کھرب ڈالر زیرگردش ہیں۔ یہ اور دوسری تمام لوٹی ہوئی رقوم کو وطن واپس لانا نئی حکومت کی ذمے داری ہے، جو اگر پوری ہو جائے تو پاکستان میں ترقی و خوش حالی کے شاندار دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔
متوقع وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کچھ روز پہلے اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت آئی ایم ایف سے کوئی قرضہ نہیں لے گی۔ اب ان کا کہنا ہے کہ خسارے میں جانے والے اداروں کا انتظامی ڈھانچا بدلنے کے علاوہ آئی ایم ایف سمیت کمرشل قرضے، دوست ممالک سے مدد، بیرون ملک پاکستانیوں اور دیگر عالمی اداروں سے قرضوں کا آپشن موجود ہے۔ حکومت کی تشکیل سے قبل ہی بیانات کا یہ تضاد تحریک انصاف کی ’’یوٹرن‘‘ کی روایتی پالیسی کو ظاہر کر رہا ہے تو آئندہ کیا ہوگا؟
٭٭٭٭٭