پاکیزہ زندگی کیسے ملے؟!! (دوسرا و آخری حصہ)

عبدالمالک مجاہد

مجھے امام ابن تیمیہؒ یاد آ جاتے ہیں۔ دمشق کا جیل خانہ ان کے لیے دوسرے گھر کیق طرح تھا۔ اس کے دروازے ان کے لیے اکثر و بیشتر کھلتے رہتے تھے۔ حکمران جب چاہتے گرفتار کر لیتے، جب چاہتے چھوڑ دیتے۔ جیل خانہ سے اموی مسجد کوئی زیادہ دور نہیں۔ ساری زندگی علم کی روشنی پھیلانے کی وجہ سے شادی کے لیے وقت نہ مل سکا۔ ان کی مالی کفالت سگا بھائی کر رہا تھا۔ ایک چھوٹا سا کمرہ ان کی رہائش گاہ تھی۔ کتنی مرتبہ اموی مسجد کے صحن میں لیٹ جاتے۔ ایک دن جیلر نے قید خانہ کھولا۔ جیل کی کال کوٹھری میں امام ابن تیمیہؒ خوش و خرم ہیں۔ جیلر سے مخاطب ہوئے اپنا تاریخی جملہ کہا: ’’مَا ذَا یَصْنَعُ بِي أَعْدَائِي‘‘ یعنی ’’میرے دشمن میرا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔‘‘ ’’أَنَا وَجَنَّتِي وَبُسْتَانِي فِي صَدْرِي‘‘ یعنی ’’ارے میں تو وہ ہوں کہ میری جنت، میرا باغیچہ، میری خوشیاں میرے سینے میں ہیں۔ میں جہاں اور جس جگہ جاؤں یہ میرے ساتھ ساتھ ہوتی ہیں۔‘‘… ’’اِنَّ قَتْلِي شَھَادَۃٌ‘‘ ’’میں وہ ہوں کہ اگر مجھے قتل کریں گے تو یہ میرے لیے شہادت ہوگا۔‘‘ ’’إِنَّ سِجْنِي خَلْوَۃٌ‘‘ ’’جیل میرے لیے خلوت ہے۔ (جس میں مجھے ذکر وفکر اور علمی کام کا موقع ملے گا۔‘‘ ’’وَإِخْرَاجِي مِنْ بَلَدِي سَیَّاحَۃٌ‘‘ ’’اور اگر مجھے ملک بدر کریں گے تو یہ میرے لیے سیر و سیاحت ہے۔‘‘
حقیقی سعادت، خوشیاں پاکیزہ زندگی کا مفہوم رسول اقدسؐ نے ہمیں اس طرح بتایا ہے کہ تم میں سے اگر کوئی شخص امن و امان کی حالت میں صبح کرتا ہے۔ تندرست و توانا ہے۔ اس کے پاس ایک دن کا کھانا ہے تو گویا اسے دنیا جہان کی خوشیاں اور مسرتیں مہیا کر دی گئیں۔
پاکیزہ زندگی والے لوگ اس طرح کی زندگی گزارتے ہیں کہ گھر میں کھانے پینے کی چیزیں متوفر نہ ہونے کے باوجود خوش اور سعادت مند ہیں۔ اپنی زندگی پر مطمئن ہیں۔ ایک نیک شخص نے کہا تھا: ’’خدا کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، ہم جس مزے اور لذت میں زندگی گزار رہے ہیں اگر حکمرانوں کو اس کا علم ہو جائے تو وہ تلواریں لے کر آئیں اور ہم سے وہ پاکیزہ زندگی زبردستی چھین کر لے جانے کی کوشش کریں۔‘‘
ہارون الرشید بنو عباس کا نامور خلیفہ ایک مرتبہ رِقّہ نامی شہر میں آیا ہوا تھا۔ لوگ اس سے ملنے کے لیے آئے تھے۔ پھر ایک دن شہر میں دھوم مچ گئی کہ مشہور محدث ابن المبارکؒ اس شہر میں تشریف لا رہے ہیں۔ لوگ ان کے استقبال کے لیے شہر سے باہر نکلتے ہیں۔ اس کثرت سے لوگ آئے کہ ہجوم کے باعث لوگوں کے جوتے ٹوٹ جاتے ہیں۔ گرد و غبار چھا گیا ہے، لوگ آگے بڑھ بڑھ کر ان سے مصافحہ کر رہے ہیں۔ ہارون الرشید کی بیگم زبیدہ بنت جعفر چھت پر کھڑی یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ اس نے پوچھا: یہ کون شخصیت ہے جس کے استقبال کے لیے دنیا امڈ پڑی ہے۔ اسے بتایا گیا کہ یہ مشہور محدث ابن المبارکؒ ہیں۔ بے اختیار کہنے لگی: ’’خدا کی قسم! اصل بادشاہی تو ان لوگوں کے پاس ہے۔ ہارون تو اصل بادشاہ نہیں، جو لوگوں کو زبردستی کوڑوں اور تلوار کے زور پر استقبال کے لیے بلاتا ہے۔‘‘
سیدنا عمر بن عبد العزیزؒ مشہور اموی خلیفہ جو پانچویں خلیفہ راشد کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ جب مدینہ کے گورنر تھے تو انہوں حجاج بن صواف سے کہا: میرے لیے ایک قمیص بازار سے خرید کر لاؤ۔ وہ گئے اور چار سو درہم کی ایک قمیص خرید لائے۔ عمر بن عبد العزیزؒ نے ہاتھ لگا کر دیکھا اور کہا: کس قدر موٹا اور بھدا کپڑا ہے۔ پھر جب خلیفہ بنے تو ان کے لیے چودہ درہم کی قمیص لائی گئی۔ کہنے لگے: واہ! کس قدر نرم اور ملائم کپڑا ہے۔ یہ ہوتی ہے قناعت والی پاکیزہ زندگی جسے نصیب ہو جائے۔
فاطمہ بنت عبد الملک کا شوہر عمر بن عبد العزیزؒ راتوں کو اٹھ کر عبادت کرنے والا، خشیت الٰہی سے جاگنے والا، نجانے دن میں کتنے نوافل پڑھنے والا تھا، فاطمہ بھی اپنے خاوند کے رنگ میں رنگ گئیں۔ وہ بھی تہجد پڑھتیں، کثرت سے نوافل ادا کرتیں۔ ایک دن عمر بن عبدالعزیزؒ نے خاتون اول سے پوچھا: کبھی اپنا ماضی بھی یاد آیا؟ وہ دن یاد کرو جب ہم نعمتوں میں تھے۔ فاطمہ کہنے لگیں: اگر آپ چاہیں تو وہ عیش عشرت کے دن واپس لوٹ سکتے ہیں۔ صرف آپ کے اشارے کی دیر ہے، مگرعمر بن عبد العزیزؒ تو ایک پاکیزہ زندگی گزار رہے تھے۔
فاطمہ سے کہنے لگے: مجھے جب بھی کوئی چیز ملی میں نے اس سے افضل اور بہتر کی تمنا کی۔ میرے رب نے وہ مجھے عطا کر دی۔ ایک وقت تھا میرے دل میںخیال آیا کہ مجھے کسی شہر کا امیر بنا دیا جائے۔ میری یہ خواہش پوری ہو گئی، مجھے مدینہ کا گورنر بنا دیا گیا۔ جب مجھے گورنر بنایا گیا تو دل میں خیال آیا کہ کیا میں کبھی خلیفہ بھی بن جاؤں گا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ مجھے خلیفہ بنا دیا گیا۔ جب خلافت مل گئی تو میں نے پھر ایک تمنا کی…
قارئین کرام! آپ تصور کر سکتے ہیں کہ انہوں نے کیا تمنا کی ہو گی؟ امیر المؤمنین سے بڑا عہدہ کوئی ہو سکتا ہے؟ آدھی دنیا کی حکومت ان کے پاس تھی۔ انہیں دنیا جہاں کی نعمتیں میسر تھیں۔ تو کیا دنیا جہان کی نعمتوں سے بھی کوئی چیز افضل اور بہتر ہو سکتی ہے؟ جی ہاں! ایک چیزہے، میں نے دنیا وما فیہا سے افضل چیز ’’جنت‘‘ کی تمنا کی ہے۔ اپنے رب سے اب میری یہی درخواست ہے کہ مجھے جنت مل جائے۔ ادھر فاطمہ بھی اپنے شوہر کے ساتھ جنت کی تمنا کرتی ہیں۔ قارئین کرام! یاد رکھئے کامیاب انسان وہی ہے جسے جنت مل جائے۔
امام ذہبیؒ اپنی مشہور زمانہ کتاب سیر اعلام النبلاء میں بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حطیم میں حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ، مصعب بن زبیرؓ، عروہ بن زبیرؓ اور عبداللہ بن عمرؓ اکٹھے ہوئے۔ بیت اللہ شریف اس کی عظمت اور حطیم جسے حجر اسماعیل بھی کہا جاتا ہے، یہ بیت اللہ شریف کا حصہ ہے، اب یہ چاروں بڑے عظیم لوگ ہیں۔ ان کی شان، عظمت، توقیر کے کیا کہنے، ان میں سے پہلے تین عشرہ مبشرہ صحابی حضرت زبیر بن عوامؓ کے صاحبزادے ہیں۔ سیدہ اسماء بنت ابوبکرؓ ان تینوں کی والدہ تھیں۔ چوتھی بڑی شخصیت سیدنا عمر فاروقؓ کے صاحبزادے عبداللہؓ ہیں۔
عبداللہ بن عمرؓ اپنے دوستوں سے مخاطب ہوئے کہنے لگے: ساتھیو! آؤ اس مقدس گھر میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی اپنی تمنا بیان کریں۔ اللہ کے گھر میں، حطیم میں بیٹھے ہیں، آج جو جو تمہاری جائز خواہشات ہیں مانگ لو، ہو سکتا ہے من و عن پوری ہو جائیں۔ عبداللہ بن زبیرؓ کہنے لگے: میری خواہش ہے کہ مجھے خلیفہ بنایا جائے، میں امیر المؤمنین بنوں۔ عروہ بن زبیرؓ کہنے لگے: ’’میری خواہش ہے کہ مجھ سے لوگ علم سیکھیں۔‘‘ مصعب بن زبیرؓ کہنے لگے: میری تمنا ہے کہ مجھے عراق کا والی بنا دیا جائے اور سیدہ عائشہ بنت طلحہؓ اور سیدہ سکینہ بنت حسینؓ سے شادی کروں۔
جب عبداللہ بن عمرؓ کی باری آئی کہ وہ اپنی تمنا بیان کریں تو قارئین پاکیزہ زندگی کے طلب گاروں کا حال کچھ ایسا ہوتا ہے کہ کہنے لگے: میری تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت کر دے۔
اس واقعہ کے راوی ابو الزنادؒ کہتے ہیں کہ ان تینوں نے جو جو تمنا کی تھی، اللہ تعالیٰ نے ان سب کی تمناؤں کو پورا کر دیا۔ اور امید ہے کہ ابن عمرؓ کو بھی بخش دیا گیا ہوگا۔
قارئین کرام! جانتے ہیں کہ اطمینان، چین، سکون والی پاکیزہ زندگی کب اور کیسے ملتی ہے؟ یاد رکھئے جس انسان کا اخلاق اچھا ہے، جو دوسروں کے کام آتا ہے، جو دوسروں کو خوشیاں مہیا کرتا ہے، اسے پاکیزہ زندگی ملتی ہے۔
عربوں میں احنف بن قیس نہایت بردبار اور اعلیٰ اخلاق والی شخصیت گزری ہے۔ یہ اعلیٰ اخلاق کے لحاظ سے ضرب المثل تھے۔ ان سے کسی نے پوچھا: آپ نے یہ اعلیٰ اخلاق کہاں سے سیکھا؟ کہنے لگے: قیس بن عاصم سے… پھر ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ قیس بن عاصم اپنے گھر میں بیٹھے تھے، ان کی گود میں ان کا معصوم بیٹا تھا۔ ان کے پاس ان کی خادمہ آئی، اس کے پاس لوہے کی گرم سیخ تھی، جس پر بھنا ہوا گرم گوشت کافی مقدار میں رکھا ہوا تھا۔ خادمہ کے ہاتھ سے لوہے کی گرم سیخ قیس پر گر جاتی ہے۔ انہوں نے جسم کو حرکت دی تو سیخ بچے پر جا گری گوشت اتنا زیادہ گرم تھا کہ بچے کی فوری موت واقع ہو گئی۔ خادمہ سخت گھبرائی کہ یہ کیا ہو گیا… میرے آقا کا معصوم بچہ میری غفلت کے باعث مارا گیا، اب پتہ نہیں مجھے کس قسم کی سزا دی جائے گی۔ قیس بن عاصم نے خادمہ کی طرف دیکھا اور کہنے لگے: خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، تم اللہ کے لیے آزاد ہو۔
اگر آپ کو ذہنی سکون، چین اور پاکیزہ زندگی درکار ہے تو ہر حالت میں اللہ کا شکر ادا کریں، اس کے بے شمار انعامات ہیں اور تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا انکار کرو گے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment