مارگلہ کے سرسبز پہاڑوں کے دامن میں مرحوم شاہ فیصل کا سفید دودھیا تحفہ کسی سچے موتی کی طرح دکھائی دے رہا تھا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کسی نے سبز مخمل پر چمکتا ہوا سپید موتی رکھ دیا ہے، جس کے ساتھ سبزے کی قبا پہنے مارگلہ کے پہاڑ سبز پوش پہرے داروں کی طرح مستعد اور چوکنے کھڑے ہیں۔ سیلانی بہت پہلے کبھی شاہ فیصل مسجد آیا تھا۔ یہ خاصی پرانی بات ہے، جس کی یادوں کے نقوش بھی وقت نے دھندلا چھوڑے ہیں، اب کی بار اس کا اسلام آباد آنا ہوا تو اسلام آباد کے امینوں اور صادقوں میں سے ایک نے اسے شاہ فیصل مسجد ملنے کی پیشکش کی، آج کل امین اور صادق بھلا کہاں اور کسے ملتے ہیں؟ سیلانی نے یہ موقع کیوں کر گنوا سکتا تھا۔
جس وقت صادق کاکڑ کی کال آئی، سیلانی اپنے ایک دو کام نمٹا کر وجے ولبھانی کی ’’لن ترانیاں‘‘ پڑھ رہا تھا، وجے ولبھانی اور سونوجین واہگہ پار کے پڑوسی ہیں، فلمسازی ان کی روزی روٹی ہے، نریندرا مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد بھارت میں انتہا پسندوں کو ملنے والی اٹھان نے ہندوتوا کا خواب دیکھنے والوں کو بے چین، مضطرب اور اتاؤلا کر رکھا ہے، ان کا بس نہیں چل رہا کہ کس طرح بھارت میں بسنے والے غیر ہندوؤں کو ایک ایک کر کے کان سے پکڑ پکڑ کر ہندو دھرم میں شامل کر لیں یا پھر ان کا کریا کرم ہی کر ڈالیں۔ پاکستان مخالف انتہا پسندی کی اس پھیلتی ہوئی سوچ سے فائدہ اٹھانے کے لئے بولی ووڈ کے وجے ولبھانی اور سونوجین نے بھارت کے من گھڑت ’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘ پر فلم بنانے کا اعلان کیا ہے، یقینا یہ فلم سینما گھروں کے سامنے انتہا پسندوں کو قطار باندھ کر فلمسازوں کو باچھیں پھیلانے کا موقع دے گی، ان کا فلم پر لگا ہوا سرمایہ دوگنا تگنا کرکے واپس لوٹائے گی اور پاکستان مخالف جذبات کو خوب بھڑکائے گی۔
سیلانی اس فلمی انتہا پسندی کی جزئیات نکال ہی رہا تھا کہ صادق کاکڑ کی کال آگئی ’’سیلانی بھائی! آپ اسلام آباد آ رہے ہیں؟‘‘
سیلانی کے اثبات کے جواب میں صادق کاکڑ نے سیلانی کے ایک دن کے لئے جملہ حقوق محفوظ کر لئے، اس کا اصرار تھا کہ کھانا ساتھ کھائیں گے، جواب میں سیلانی نے دعوت قبول کرتے ہوئے بے تکلفی سے فرمائش کر دی کہ یہاں کہیں کابلی پلاؤ ملتا ہے تو وہیں چلیں گے۔ صادق نے بتایا کہ فکر نہ کریں، یہاں ایک اچھا افغانی ریسٹورنٹ ہے۔ صادق سے ملاقات کا مقام شاہ فیصل مسجد طے ہوا، اس روز اتفاق سے ایسی کڑک دھوپ تھی کہ مارگلہ کے پہاڑ بھی اف اف کرتے لگ رہے تھے، اس سخت گرمی میں بھی خلق خدا کو چین نہیں تھا، وہ اپنی پرائی زنانیوں کے ساتھ شاہ فیصل مسجد پہنچے ہوئے تھے، ان میں نکاح شدہ جوڑوں کے ساتھ ان جوڑوں کی تعداد اچھی خاصی تھی، جن کے بارے میں گمان کیا جا سکتا ہے کہ وہ نکاح کے خواہاں ہیں۔ شاہ فیصل مسجد میں واقعتاً ایک شاہکار ہے۔ شاہ فیصل مرحوم نے بہت اخلاص سے اللہ اکبر کی صداؤں سے مارگلہ کے پہاڑوں کی خامشی توڑی اور خوبصورت مسجد بنا دی۔ ایسا نہیں کہ اس خوبصورت مسجد کی دیکھ بھال نہیں ہوتی، ہوتی ہے، لیکن اس کے عملے اور متعلقہ ادارے سے زیادہ یہاں آنے والے جوڑے دیکھ بھال کرتے ہیں، وہ حاسدوں کی نظر سے بچنے کے لئے خاصا ’’دیکھ بھال‘‘ کر بیٹھتے ہیں۔
مسجد میں داخل ہوتے ہی سنگ مرمر کے کتبے پر نظر پڑتی ہے، جس پر پیتل کی دھات سے الفاظ کاٹ کاٹ کر لکھا گیا ہے کہ یہ مسجد سعودی عرب کی جانب سے پاکستانی عوام کے لئے تحفہ ہے۔ اس تحریر کے الفاظ اب گرنا شروع ہو گئے ہیں، مسجد میں رنگ و روغن کا کام بھی اس بے احتیاطی سے جاری ہے کہ خوبصورت ٹائلوں سے منقش دیواروں پر جا بجا رنگ کے چھینٹے پڑ رہے ہیں۔
نماز کے بعد سیلانی نے جوتا چھپائی کی عوامی رسم سے محفوظ رہنے پر دو جوڑوں کے دس روپے سکہ رائج الوقت ادا کئے اور باہر نکل آیا۔ شدید گرمی میں صادق کاکڑ سے ملاقات یوں ہوئی کہ کبھی وہ یہاں اور کبھی سیلانی وہاں۔ پشتونوں کے لئے ایڈریس سمجھانا سمجھنا اور سائیکل چلانا ہمیشہ سے مشکل کام رہے ہیں اور یہاں معاملہ یہ تھا کہ ایک طرف کوہاٹ کا سیلانی تھا، تو دوسری طرف کوئٹہ کا صادق کاکڑ۔ لگ بھگ بیس پچیس منٹ کے مسلسل رابطوں کے بعد سامنے سے درمیانے قد و قامت کا جینز، ٹی شرٹ میں ملبوس نوجوان ہاتھ ہلاتا ہوا آتا دکھائی دیا۔
صادق کاکڑ تپاک سے ملا اور مہمانوں کو ٹیکسی میں بٹھا کر سیدھا افغانی ریسٹورنٹ لے گیا، جہاں ایسا رش تھا گویا تحریک انصاف والوں نے آزاد امیدواروں کی ’’آزادی‘‘ ختم کرانے کے اہتمام کر رکھا ہو۔ کابلی پلاؤ، افغانی بوٹی اور افغانی نانوں تک رسائی کے لئے انہیں ایک گوشے میں انتظار کرنا پڑا، جس کے بعد ہی وہ کھانے کی میز تک پہنچ سکے۔
میز کے گرد پڑی کرسی سنبھالتے ہوئے صادق کاکڑ مسکراتے ہوئے کہنے لگا
’’سیلانی بھائی! آپ کو تو یاد بھی نہیں ہوگا، آپ سے بارہ برس پہلے ہوئی تھی۔‘‘
’’یار مجھے تو واقعی یاد نہیں۔‘‘
’’میں اس وقت جامعہ بنوریہ سائٹ کراچی میں پڑھتا تھا، اس وقت کے وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ نے جامعہ آنا تھا، مجھے پتہ چلا کہ سیلانی بھی آرہا ہے تو میں اور ساتھیوں کے ساتھ وہاں پہنچ گیا، آپ سے مختصر سی رسمی ملاقات ہوئی، بعد میں آپ کو کھانے کی دعوت دینے کے لئے کال کی تو آپ نے کہا کہ جامعہ کی طرف سے ہمارے کھانے کا انتظام ہے۔‘‘
’’دلچسپ…‘‘ سیلانی نے مسکرادیا اور کہنے لگا ’’دیکھ لیں بارہ برس بعد ہی سہی، دعوت تو قبول کی ناں!‘‘
صادق کاکڑ سے سیلانی کی فیس بک والی دوستی ہے، سیلانی اکثر اس کی تصاویر اور تحاریر پڑھ کر سوچتا رہتا ہے کہ یہ بندہ آخر کرتا کیا ہے، کبھی نیپال، کبھی ترکی، کبھی سری لنکا اور کبھی جرمنی… یہ کسی فضائی کمپنی میں اسٹیورڈ بھی نہیں، پھر ایسے سیر سپاٹے… سیلانی نے دانتوں سے گوشت کا ریشہ نکالتے ہوئے ذہن سے چپکی یہ بات بھی نکال کر سامنے رکھ دی۔
’’یار! تم کرتے کیا ہو؟ یہ سیر سپاٹے کس کھاتے میں ہوتے ہیں؟‘‘
سیلانی کے اس سوال کے جواب میں ایک مختلف صادق کاکڑ نے سامنے آکر حیران کردیا۔ صادق بتانے لگا ’’سیلانی بھائی! میں ایک ایسے پشتون گھرانے سے ہوں، جہاں تعلیم دوسری نہیں، تیسری چوتھی ترجیح ہے۔ ہمارے یہاں تعلیم کا رواج نہیں ہے، مجھے بھی والدین نے جامعہ بنوریہ میں مولوی بننے کے لئے داخل کرا دیا اور میں بھی وہاں سے صرف مولوی بن کر ہی نکلتا اگر تعلیم کے آخری دنوں میں میرے بڑے بھائی کے ایک دوست کو نہ دیکھتا، وہ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ وکیل بھی تھے، میں ان سے بڑا متاثر ہوا کہ یہ کیسا مولوی ہے، جو وکالت بھی کر رہا ہے۔ میں نے بھی سوچا کہ میں بھی وکیل بنوں گا، پھر معلومات لیں اور اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کا پتہ چلا۔ وہاں داخلہ لینے کا طریقہ معلوم کیا، پھر میں نے ضروری کاغذات تیار کئے اور اسلام آباد آکر اسلامی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ اب یہاں سے وکالت پاس کرکے پریکٹس کر رہا ہوں اور ارادہ ہے کہ مجسٹریٹ ہو جاؤں، اس کے لئے بلوچستان میں جیوڈیشل مجسٹریٹ کے امتحان کی تیاری کر رہا ہوں۔ ان شاء اللہ منتخب ہو جاؤں گا‘‘۔
صادق کاکڑ کو سترہ گریڈ کے سرکاری افسر کی ملازمت کی بھی پیشکش ہے، لیکن اس کی مجسٹریٹ بننے میں زیادہ دلچسپی ہے۔ صادق کہنے لگا: ’’سیلانی بھائی! میرا دل بہت کڑھتا ہے جب مدارس کے طلباء کو فراغت کے بعد پریشان دیکھتا ہوں، دستار بندی کے بعد جب وہ مدرسے کی چہار دیواری سے باہر نکلتے ہیں تو ایک ایسا معاشرہ نظر آتا ہے، جہاں ان کے لئے روزگار کے مواقع محدود سے محدود تر ہوتے ہیں، اب خود ہی بتائیں ناں، مدرسے سے فارغ التحصیل بندہ کہاں کھپتا ہے؟ نظام ایسا ہے کہ اس کے لئے عصری تعلیم بہت ضروری ہے، اس کے بغیر ملازمتیں کہاں ملتی ہیں، یہ حالات دیکھ کر اکثر طلباء تخصص کے نام پر دوبارہ مدارس میں جائے پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ چلو کچھ برس اور مدرسے میں رہ لیں، لیکن آخر کب تک، تخصص کے بعد انہیں اک روز تو اس معاشرے میںقدم رکھنا ہی ہوتا ہے‘‘۔
صادق کی اس بات نے سیلانی کو اپنا ایک پولیس انسپکٹر دوست یاد دلا دیا، جو اپنے عالم دین بھائی کے لئے بہت پریشان تھا، اس کا بھائی دستار فضیلت سجانے کے بعد مسجد میں مصلیٰ اور مدرسے میں ’’گھنٹہ‘‘ لینے کی درجنوں کوششوں کے بعد ایک پرچون کی دکان میں سامان ڈھو رہا تھا، اس کے دوست کا کہنا تھا کہ بہت مشکل سے کہہ کہلا کر ایک مدرسے میں ساڑھے تین ہزار روپے کی ملازمت ملی ہے، جس میں کرایہ بھی پورا نہیں ہو رہا۔ اس نے جذباتی انداز میں سیلانی سے کہا تھا کہ یہ لاکھوں مولوی دستاریں باندھ باندھ کر آخر کہاں جائیں گے، سب کو تو مسجد نہیں مل سکتی، سب کو مدارس میں نہیں کھپایا جا سکتا اور ان کے پاس دنیاوی کام دھندوں کے لئے کوئی اہلیت نہیں، یہ آخر کریں تو کیا اور جائیں تو کہاں؟؟
صادق کو بھی یہی کڑھن ہے، وہ بھی جلتا کڑھتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک تو مدارس کے طلباء آگے نہیں آتے اور پھر اوپر سے ان کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کی جاتی۔ آپ ذرا معلومات تو لیں کہ کوئی طالب علم رکشہ چلا رہا ہے تو کوئی عطر کی دکان کھولے بیٹھا ہے۔ صادق کہنے لگا کہ مدارس کے طلباء کی سرے سے کیرئیر کونسلنگ نہیں ہوتی، انہیںخبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ کیا کیا کر سکتے ہیں، کن شعبوں میں جا سکتے ہیں؟ صادق کاکڑ نے بتایا کہ پہلا مرحلہ کاغذات کی تیاری کا ہوتا ہے، طلباء کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ مدرسے کی سند کے مساوی جامعہ کی ڈگری کیسے لی جاتی ہے اور پھر داخلہ کیسے ہوتا ہے۔ وہ کہنے لگا: میں نے یہاں داخلہ لیا تو انگریزی میرے سامنے پہاڑ بن کر کھڑی ہوگئی، میں نے بھی ہمت نہیں ہاری اور اسے سرکرنے کا تہیہ کرلیا۔ سیلانی بھائی! میں نے انگریزی کے لئے نمل یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور پھر ڈیڑھ سال میں انگریزی میری سواری ہو گئی۔
صادق کاکڑ تین برسوں میں پندرہ ممالک کی مفت میں سیر کر چکا ہے۔ اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے اس کا کہنا ہے کہ ایک بار یونیورسٹی میں جرمنی کی این جی او نے تحقیق کے حوالے سے ورکشاپ منعقد کی۔ میں نے بھی حصہ لیا اور پھر انہیں مقالہ لکھ کر دیا، وہ منظور ہو گیا، جس کے بعد جرمنی میں ورکشاپ رکھی گئی اور یہاں سے مجھے مدعو کیا گیا، اس کے بعد اور بھی راہیں کھلتی چلی گئیں، میں نے کئی سیمیناروں میں شرکت کی، اب میں اسی طرح مختلف موضوعات پر مقالہ جات لکھتا ہوں اور دنیا گھومتا پھرتا ہوں، اب تک صرف تین سال میں پندرہ ممالک گھوم چکا ہوں۔ صادق کاکڑ دینی مدارس کے طلباء کے لئے ایک مثال ہے۔ وہ جینز شرٹ پہن کر بھی عالم دین ہی ہے، کوئی اس سے دین کا علم نہیں چھین سکا۔ وہ جینز شرٹ میں بھی اپنے اردگرد کے لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔
سیلانی سوچنے لگا کہ دینی مدارس کے طلباء کو بھی صادق کی طرح اپنی راہیں نکالنا ہوں گی۔ مسجد، منبر اور مدرسے کی چہار دیواری بہت اچھی، لیکن دیگر شعبوں میں بھی پہنچنا ہوگا اور یہ کچھ ایسا مشکل نہیں، ایک ایسے پس منظر کا نوجوان جس کے گھر میں تعلیم کسی طاق پر رکھی بوسیدہ شے سے زیادہ حیثیت نہ رکھتی ہو، وہ وہاں سے اسلام آباد کی اسلامی یونیورسٹی میں پہنچ کر ایک محقق اور ایک وکیل بن سکتا ہے، غم روزگار سے ہٹ کر سکون سے زندگی گزار سکتا ہے، اپنے دوستوں، حلقہ احباب کے لئے مثال بن سکتا ہے تو مدارس کے اور طلباء ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ سیلانی یہ سوچتے ہوئے میز کی دوسری طرف بیٹھے مولانا صادق کاکڑ ایڈووکیٹ کو ستائشی نظروں سے دیکھنے لگا اور دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭
٭٭٭٭٭