پشتون قیادت اور پشتون عوام

خوشحال خان خٹک کے بارے میں یہ بات کسی نے کیوں نہیں لکھی کہ ’’وہ کبھی تلوار کو قلم کی طرح اور کبھی قلم کو تلوار کی طرح چلاتا تھا‘‘
وہ خوشحال خان خٹک جس نے لکھا تھا:
’’بہت سارے لوگ آئے
اور ہوا کی طرح گزر گئے!‘‘
وہ خوشحال خان خٹک جس نے یہ بھی لکھا تھا کہ:
’’میرے بدن پر لگا ہوا تیر
میرے اپنے ہی ترکش کا تھا
مجھے کسی دوسرے کے ہاتھ سے
زیادتی کی فکر ہے اور نہ ڈر‘‘
کاش! وہ پشتون سیاستدان خوشحال خان خٹک کے ان دو اشعار پر غور کریں، جو پشتون سیاستدان آج کل یہ الفاظ کثرت سے استعمال کر رہے ہیں کہ ’’موجودہ انتخابات میں پوری پشتون لیڈر شپ کو پارلیمنٹ سے دور کر دیا گیا ہے۔‘‘ مگر کیا مظلومیت کی دہائی دینے والی پشتون قیادت اس سوال کا جواب دینا گوارا کرے گی کہ قومی وطن پارٹی کے آفتاب شیرپاؤ سے لے کر عوامی نیشنل پارٹی کے اسفند یار ولی اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی تک سارے پشتون رہنماؤں نے برسوں تک اسمبلیوں میں موجود رہتے ہوئے کون سے کارنامے سر انجام دیئے ہیں؟
وہ سارے پشتون جنہوں نے جوانی کا سونا اقتداری سیاست میں لٹا دیا اور اب ان کے بچے کھچے بالوں میں چاندی چمک رہی ہے، ان میں تو اتنی ہمت بھی نہیں ہے کہ وہ شیرباز خان مزاری کی طرح (A Journey to Disillusionment) جیسی کتاب لکھیں اور اپنی نئی نسل کو بتائیں کہ انہوں نے سیاسی سفر کے دوران کب اور کہاں جان بوجھ کر راستہ بھولا اور بھٹکنے میں کامیاب ہوگئے۔ خوشحال خان خٹک نے اپنی بات کرتے ہوئے دراصل ان رہنماؤں کے لیے لکھا ہے:
’’میرے بدن پر لگا ہوا تیر
میرے اپنے ہی ترکش کا تھا‘‘
یہ زخمی ہونے یا شہید ہونے کی بات نہیں۔ یہ خودکشی کی بات ہے۔ جس طرح علامہ اقبالؒ نے کہا تھا:
’’تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی‘‘
وہ سیاسی تہذیب جس کو پختون قوم پرستی کے نعروں اور نغموں سے ایک دلہن کی طرح اس لیے سجایا گیا کہ وہ اقتداری محل میں داخل ہو پائے، وہ تہذیب آج برصغیر کی بہت بڑی رائٹر قرت العین حیدر کے مشہور ناول ’’آگ کا دریا‘‘ کے سب سے دلچسپ باب کا وہ کردار ہے، جس کا نام چمپا ہے۔ وہ اس شخص کے سامنے بھیک کے لیے ہاتھ پھیلاتی ہے، جس کے دامن کو اس نے کبھی مہندی والے ہاتھوں سے روکا تھا۔ زندگی بہت بڑے المیوں کی داستان ہے۔ سیاست کی کہانی صرف آنسو گیس سے بہنے والے اشکوں سے نہیں لکھی جاتی۔ اس میں ندامت کی سیاسی بھی شامل ہوتی ہے۔
عمران خان نے جس طرح پشتون قوم پرستوں سے عوامی حمایت چھین لی ہے، اس میں عمران خان کی اہلیت سے زیادہ پشتون لیڈر شپ کی نااہلی ہے۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کا ساتھ مقتدر حلقوں نے دیا ہے، مگر مقتدر حلقے کس کے ساتھ نہیں رہے؟ وہ جو سفید شلوار قمیض پہن کر آتے ہیں اور وہ جو اپنی شوخ رنگ کی شال کو کندھوں پر لہراتے ہیں۔ ان کو اپنی حالیہ پریس کانفرنسوں کے بعد ایک بار مڑ کر اس اردو شعر کے آئینے میں بھی خود کو دیکھنا چاہئے کہ:
’’اتنی نہ بڑھا پاکیِٔ داماں کی حکایات
دامن کو ذار دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ‘‘
کیا اپنی جبری ناکامی کا رونا رونے والی پشتون قیادت اس حقیقت سے انکار کر سکتی ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر سب سے زیادہ خون پشتونوں کا بہا ہے۔ اس بات سے فرق پڑتا بھی ہے اور نہیں بھی پڑتا کہ وہ کس نظریئے کے حامی تھے؟ ان کے بارے میں میڈیا نے ’’مقتول‘‘ لفظ لکھا یا ’’شہید‘‘؟ اس سے فرق پڑتا بھی ہے اور نہیں بھی پڑتا۔ جب گاؤں میں ایک جوان کا جنازہ آتا ہے، تب صرف پیڑ ہی نہیں، پہاڑ بھی اداس ہو جاتے ہیں۔ پشتونوں کا خون گزشتہ چار
عشروں سے جس طرح پانی کی طرح بہایا گیا ہے؟ اس سلسلے میں پشتون لیڈر شپ نے کیا کیا؟ کبھی اپنی مرضی کا مذہبی کلچر مسلط کرنے کی کوشش اور کبھی اس کے خلاف ایک اور نام سے آپریشن! کبھی ڈرون حملے اور کبھی بارودی سرنگیں! کبھی بازار میں بم دھماکے اور کبھی سیاسی جلسے کو مقتل بنانے کی کوشش! خیبر پختون خوا کی سنگ لاخ سرزمین کو اسٹیج بنا کر جس طرح عالمی ایجنسیوں نے خونی کھیل کھیلے ہیں، اتنے اور کسی سرزمین پر نہیں کھیلے گئے۔ پختونوں کا کلچر اب تک پردے کے پیچھے ہے۔ میڈیا کی نظر محدود ہے۔ میڈیا پشتون معاشرے میں موجود وہ درد ناک بحران بیان نہیں کرسکتا، جس کے بارے میں کبھی کسی نے تفصیل سے سوچا بھی نہیں ہے۔ ہزاروں پشتون پرائی جنگ میں قتل ہو چکے ہیں۔ ہزاروں خاندانوں کے سہارے چھن چکے ہیں۔ یتیم بچوں کی تعداد کوئی نہیں جانتا۔ بیواؤں کے دکھ بیان نہیں ہوئے۔ وہ سب کچھ جو ایک شدید ترین درد ہے، وہ درد ککر پریشر کی طرح پشتون معاشرے میں پکتا رہا ہے اور پشتون معاشرہ اپنی قبیلائی انا کے باعث اگر اس کا اعتراف نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ یہ درد محسوس نہیں کرتا۔ پشتون معاشرہ کا اندر گل چکا ہے۔ وہ باہر سے مضبوط ہونے کا تاثر دے رہا ہے، مگر اس کا دل اس کے سینے میں پگھل چکا ہے۔
سیاسی قیادت صرف ووٹ نہیں لیتی۔ سیاسی قیادت صرف سرخ ٹوپیاں اور سیاہ چادریں نہیں پہنتی۔ سیاسی قیادت صرف سفید لباس میں ملبوس ہوکر اسٹیج سے ہاتھ نہیں ہلاتی۔ سیاسی قیادت کا سب سے اولین فرض یہ ہے کہ وہ اپنے معاشرے کا علاج کرے۔ عوام کے دکھ اور درد ختم کرے۔ یتیموں کے سر پر دست شفقت رکھے اور بیواؤں کو اس طرح حوصلہ دے جس طرح ایک باپ اپنی بیٹی کو دیتا ہے۔ یہ ایک تقریر کرنے، ایک بیان جاری کرنے اور ایک انٹرویو دینے سے بڑی بات ہے۔ یہ اپنے معاشرے کا مسیحا بننے والی بات ہے۔ مگر سب جانتے ہوئے، سب کچھ سنتے ہوئے اور سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی پشتون لیڈرشپ نے پشتون عوام کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ پشتون اگر آج کراچی سے لے کر کیلیفورنیا تک پھیلے ہوئے ہیں تو اس کا سبب یہ نہیں کہ ان کے لیے پشتون لیڈرشپ نے راستے تراشے ہیں۔ پشتون عوام یتیم بچوں کی طرح اپنی ہمت سے آگے بڑھے ہیں۔ ان پر کسی لیڈر نے اس طرح ہاتھ نہیں رکھا جس طرح ایک بزرگ اپنے بچوں پر ہاتھ رکھتا ہے۔ پشتون لیڈرشپ نے اپنے ہم زبان لوگوں کے لیے کیا کیا ہے؟ پاکستان میں کتنے میڈیکل ادارے اور کتنے جدید تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ہیں؟ پشتونوں کے امیج کو بہتر بنانے کی کوشش تک نہیں کی گئی۔ پشتون آج بھی اگر کراچی میں کسی راؤ انوار کے ہاتھ چڑھ جاتا ہے تو تین دن تک اس کی چھلنی لاش سرد خانے میں پڑی ہوتی ہے اور اگر رائے عامہ کے دباؤ پر وہ راؤ انوار گرفتار بھی ہو جاتا ہے تو اس کی رہائی پر کوئی احتجاج نہیں ہوتا۔ کیا قومیں اس طرح بنتی ہیں؟ کیا قوم پرست اس طرح کرتے ہیں؟ اگر پشتون لیڈر شپ کا کردار عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے سلسلے میں صحیح نہیں رہا تو پھر اس لیڈر شپ کے لبوں پر شکایت کیوں؟
سیاست میں سازش ہوتی رہتی ہے، مگر ہمارے سینئر پشتون رہنماؤں کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ سازش کی آگ سلگانے سے قبل ہوا کا رخ دیکھا جاتا ہے۔ اگر پشتون لیڈر شپ کو اس بات پر یقین ہے کہ ان کے مینڈیٹ پر ڈاکہ پڑا ہے تو یہ ان کی خوش فہمی ہے۔ انتخابات میں چوری تو ہوتی رہتی ہے، مگر ڈاکہ بہت بڑی بات ہوتا ہے۔ اگر پشتون اپنی قوم پرست قیادت کو آگے لانے کا اجتماعی فیصلہ کرتے تو وہ اس فیصلے پر عمل بھی کرتے اور اس عمل کی حفاظت بھی کرتے۔ پشتون لیڈر شپ کے لیے یہ بات بہت تلخ ہے، مگر اسے یہ بات برداشت کرنی چاہئے کہ پشتون عوام نے اس بار انہیں بھرپور تعداد میں ووٹوں سے نہیں نوازا۔ پشتون لیڈر شپ اگر اس سے بھی زیادہ برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے تو اس کو یہ بات سننے کی آزمائش سے گزرنا ہوگا کہ ’’پشتون عوام نے پشتون قیادت کو سیاسی نااہلیت کی سزا دی ہے۔‘‘ پشتون قیادت کو یہ سزا قبول کرنی چاہئے۔ پشتون قیادت کو پانچ برس تک آنے والے انتخابات کا انتظار کرنے کے بجائے ابھی سے غریب اور ٹوٹے پھوٹے پشتونوں کے معاشرتی مسائل کو حل کروانے کے لیے پرامن سیاسی جدوجہد کا آغاز کرنا چاہئے۔ پشتون لیڈر شپ کو اپنی حالیہ شکست سے بہت کچھ سیکھنا چاہئے۔ اگر پشتون قیادت نے اپنی شکست کی کتاب پڑھنے میں کامیابی حاصل کی تو انہیں ناکامی کا ذائقہ چکھنے سے بچ جانے کا راستہ مل پائے گا۔
پشتون لیڈر شپ نے ابھی تک ایسی جدوجہد نہیں کی، جس پر وہ فخر کا اظہار کر سکے۔ پشتون لیڈرشپ اس وقت ہار جانے سے صدمے سے دوچار ہے، مگر اس شکست میں انا سے زیادہ اقتداری سیاست کے نقصان کا احساس ہے۔ اگر مختلف پارٹیوں اور گروہوں میں بٹی ہوئی پشتون قیادت کو اپنی شکست کا واقعی سخت صدمہ پہنچتا تو ہم ان کی فلسفیانہ اور فنکارانہ بخیہ گری کرتے۔ ہم انہیں بتاتے کہ جب انقلاب فرانس ناکام ہوا تھا اور فرانس کے اکثر ادیب اور شاعر مایوسی کی تاریک گہرائی میں گر گئے تھے، تب روسو نے یہ صدا بلند کی تھی کہBack to Nature’’‘‘ یعنی فطرت کی طرف واپس جاؤ۔ پشتون قیادت نے جدوجہد تو کیا، کوئی کام ہی نہیں کیا۔ پھر بھی اگر ان کی روح پر اس ناکامی کے ناخنوں کی خراشیں آئی ہیں تو انہیں اپنے اس کلچر کی طرف لوٹنا چاہئے، جو انہیں اس طرح توانائی فراہم کر سکتا ہے، جس طرح شیر اپنے کمزور اور نوزائیدہ بچوں کے منہ پر اپنا منہ رکھ کر ان میں اپنے سانس کی ہوا بھرتا ہے۔ کسی بھی قوم کا کلچر اس کی بیماری بھی دور کرتا ہے اور اس کی بحالی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مگر یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چاہئے کہ کلچر محض لباس نہیں۔ لباس کلچر کا معمولی حصہ ہے۔ اصل کلچر ان معیارات کا مجموعہ ہے، جن کو فراموش کرکے ہم ایک مصنوعی تہذیب کے ہاتھ میں کھلونا بن جاتے ہیں۔
پشتون لیڈر شپ کو چاہئے کہ وہ اپنے عوام کی انگلی پکڑ کر واپس اس راستے پر جائے، جہاں سے وہ جان بوجھ کر راستہ بھولی تھی!! ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment