کیا دنیا میں ایک اور جنگ عظیم شروع ہونے جا رہی ہے؟ یہ جنگ کن ہتھیاروں سے لڑی جائے گی؟ بظاہر تو ان دو سوالوں میں سے پہلے سوال کا جواب ہاں میں نظر آتا ہے۔ ایک نئی جنگ عظیم دنیا کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ جبکہ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ جنگ روایتی ہتھیاروں سے نہیں لڑی جائے گی، یہ فوجی سے زیادہ اقتصادی ہوگی، میزائلوں، طیاروں اور گنوں سے زیادہ تجارتی پابندیوں، ریٹنگ کے کھیل، کرنسی بے قدر کرکے اور محاصروں کے ذریعے لڑی جائے گی۔ وینزویلا، ترکی، روس اور ایران اس کی زد میں آچکے ہیں۔ کینیڈا کو بھی سعودیہ سے رگڑا لگوا دیا گیا ہے، ہر جنگ تباہی لاتی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر جنگ سے ایک نئی آزادی بھی جنم لیتی ہے۔ ایک نئی تعمیر کا آغاز ہوتا ہے۔ بالکل ایسے جیسے دوسری جنگ عظیم کی تباہی سے نئی آزادیوں نے جنم لیا تھا۔ برطانیہ سمیت یورپی ممالک کو اپنی نو آبادیوں سے بوریا بستر سمیٹ کر جانا پڑا تھا، کیوں کہ جرمن رہنما ہٹلر جنگ ہار کر بھی انہیں ہرا گیا تھا، اس نے یورپی ممالک کو اتنا نحیف کر دیا تھا کہ ان سے اپنا آپ سنبھالا نہیں جا رہا تھا، ایسے میں وہ اپنی نوآبادیاں کیسے سنبھالتے، پھر طاقت کا توازن بھی یورپ سے بحر اوقیانوس کے پار امریکہ کے پاس منتقل ہو رہا تھا، جس نے انتہائی سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جاپان پر دو ایٹم بم گرائے تھے اور یوں لاکھوں بے گناہ لوگوں کی جلی ہوئی لاشوں اور ہیرو شیما اور ناگا ساکی جیسے جاپانی شہروں کو راکھ بنا کر جنگ عظیم دوم نے میں اپنی فتح کی بنیاد رکھی تھی۔
طاقت کا توازن بحر اوقیانوس کے پار منتقل ہوا تو پاکستان اور بھارت سمیت درجنوں ممالک کو آزادی مل گئی، افریقہ نے بھی طویل دور غلامی سے بظاہر نجات پالی، عالمی نقشے میں ایشیا سے یورپ تک درجنوں ملک ابھر کر سامنے آگئے۔ اگرچہ غور سے دیکھا جائے تو یہ آزادی مکمل آزادی نہیں تھی، یہ ٹھیک ہے کہ غلامی کی زنجیریں کسی حد تک ٹوٹ گئیں، یورپی افواج کو ایشیا اور افریقہ کے مقبوضہ علاقوں سے جانا پڑا، نئے ممالک کی حیثیت تسلیم کرلی گئی، انہیں نئی بنائی گئی اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں میں نمائندگی دے دی گئی، یہاں تک ان کی مجبوری تھی، کیوں کہ جیسا کہ ہم نے لکھا ہے کہ یورپی ممالک ہٹلر سے جنگ جیت کر بھی ہار گئے تھے اور ان میں اتنا دم خم نہیں بچا تھا کہ وہ اپنی نو آبادیوں پر قبضے برقرار رکھ پاتے، دوسری جانب نئی طاقت امریکہ بھی اس وقت اتنا مضبوط نہیں تھا کہ ان ساری نوآبادیوں میں یورپی ممالک کی جگہ لے لیتا، اس لئے بادل نخواستہ انہیں نئی حقیقتوں کو تسلیم کرنا پڑا۔ غلامی کی پرانی زنجیریں وہ ٹوٹنے سے نہ روک سکے، لیکن انہوں نے کمال ہوشیاری سے نئی زنجیریں تیار کرلیں، پہلے فوج کے ذریعے دوسرے ملکوں پر قبضے کئے جاتے تھے، ان کی جگہ عالمی مالیاتی ادارے بنا دئیے گئے، دوسروں کی معیشتیں کنٹرول کرنے کے لئے ریٹنگ ایجنسیاں بنالی گئیں، تاکہ ان کے ذریعے پرانی نوآبادیوں سے نمودار ہونے والے ممالک کو کنٹرول کیا جائے، گن کی جگہ ڈالر نے لے لی، وائسرائے نظام کی جگہ جمہوریت متعارف کرا دی گئی، ساتھ ہی اس نظام سے وابستہ سیاستدانوں کے لئے مغرب میں مفادات پیدا کردئیے گئے، موروثی سیاست کی سرپرستی کی گئی، ان کے لئے اکائونٹ اور ان کے بچوں کے لئے تعلیم کے نام پر اپنے دروازے کھول دئیے گئے، تاکہ آئندہ آنے والی حکمران نسل بھی کنٹرول میں رہے۔ وہ اپنے ممالک کو بہتر بنانے کے بجائے مغرب کو ہی اپنا اصلی ٹھکانہ سمجھتے رہیں، اس کے ساتھ شہریت کا تڑکہ بھی لگا دیا گیا۔ کچھ کے ساتھ تو میمیں بھی لگا دی گئیں۔ یوں ان نئی زنجیروں کے ذریعے دنیا کو کنٹرول کرنے کا آغاز ہوا۔
نوے کی دہائی میں سوویت یونین کی تحلیل تک دو طاقتیں یعنی امریکہ اور سوویت یونین دنیا کو کنٹرول کرتی رہیں۔ لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اب ساری طاقت امریکہ کے ہاتھ میں آگئی ہے، حتیٰ کہ آج سوویت یونین کی باقیات روس بھی ان نئی زنجیروں سے متاثر ہونے لگا ہے۔ آج اس کی معیشت پر بھی واشنگٹن کے فیصلے اثر انداز ہوتے ہیں۔ اب تک تو یہ نظام چل رہا تھا اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ امریکہ اور یورپ میں اتحاد تھا، یورپ جونیئر شراکت دار تھا، لیکن اب لگتا ہے کہ امریکہ یورپ کو بھی شراکت داری سے فارغ کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے، ٹرمپ کے آنے کے بعد امریکہ سارے فیصلے خود کر رہا ہے اور یورپ کو بھی باقی دنیا کی طرح ڈکٹیشن دی جاتی ہے کہ وہ ان فیصلوں پر عمل کرے۔ ایران سے ایٹمی معاہدہ توڑنے، عالمی ماحولیاتی معاہدے سے علیحدگی اور تجارت پر محصولات عائد کرنے کے فیصلے اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ان معاملات میں امریکہ نے یورپ سے مشاورت نہیں کی، بلکہ انہیں فیصلہ سنایا ہے، جیسے وہ باقی دنیا کو سناتا ہے۔ یورپ نے ناگواری کا اظہار بہت کیا، مخالفت کی بھی کوشش کی، لیکن اب تک وہ امریکہ کے سامنے بے بس ہی نظر آیا ہے۔ بظاہر امریکہ نے انہیں ڈھیر کر دیا ہے، یورپی رہنمائوں نے بہت آوازیں لگائیں کہ ایران پر پابندیاں اقوام متحدہ نے نہیں لگائیں، اس لئے وہ ان پر عمل کے پابند نہیں، لیکن عملی طور پر یورپی کمپنیاں ایران سے کاروباری ناطے توڑ رہی ہیں۔
اس محاذ آرائی میں امریکہ کا پڑوسی کینیڈا بھی یورپ کا ہمنوا ہے اور اسی لئے اب لگتا ہے امریکہ نے کینیڈا کے کس بل نکالنے کا فیصلہ کیا ہے، اسے دوسروں کے لئے مثال بنانے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے لئے بظاہر اس نے اپنے اتحادی سعودی عرب کو آگے کیا ہے۔ خود امریکہ مسکراتے ہوئے اپنے پڑوسی کی حالت دیکھ رہا ہے، مدد کے لئے اس کی اپیل کو مسترد کرکے اسے پیغام دے رہا ہے۔ اگرچہ کینیڈا سمیت کسی بھی ملک کو یہ حق نہیں کہ وہ دوسروں خصوصاً اسلامی ممالک میں انسانی حقوق کے نام پر مداخلت کرے، لیکن سعودیہ نے جس طرح کینیڈا کے ایک بیان پر اس قدر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے، اپنا سفیر واپس بلا کر کینیڈین سفیر کو نکال دیا ہے، فضائی رابطے منقطع کر دئیے ہیں، طلبا کو کینیڈا سے نکلنے کی ہدایت کر دی ہے، وہاں اپنے شہریوں کے علاج پر پابندی لگا دی ہے، یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ معاملہ صرف کینیڈا کے ایک بیان کا نہیں، ورنہ ایسے بیان تو پہلے بھی آتے رہے ہیں، پھر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ امریکہ کو بھی سعودیہ پر جب دبائو ڈالنا ہوتا ہے، اس طرح کے بیان جاری کر دیتا ہے، کسی عالمی فورم پر خود یا کسی اور سے قرارداد پیش کرا دیتا ہے۔ اس کے اتحادی برطانیہ نے تو باقاعدہ سعودی اپوزیشن رہنمائوں کو پناہ دے رکھی ہے، وہ وہاں بیٹھ کر سعودی حکومت کے خلاف سرگرمیاں کرتے رہتے ہیں، اسی طرح امریکہ میں بھی سعودی حکومت کے مخالفین موجود ہیں، لیکن برطانیہ اور امریکہ کے خلاف کبھی سعودیہ نے ایسے ردعمل کا اظہار نہیں کیا، بلکہ کینیڈا بھی جب کچھ عرصے پہلے تک امریکی چھتری تلے تھا تو اس کے خلاف بھی ایسا ردعمل نہیں دیکھا گیا۔ اب چوں کہ مغربی اتحاد ٹوٹا ہے، امریکہ اور برطانیہ ایک طرف جبکہ یورپی یونین اور کینیڈا دوسری طرف کھڑے ہیں، تو کینیڈا کو روٹی دال کا بھائو بتانے کا بندوبست کر دیا گیا ہے۔ آپ اقتصادی ہتھیاروں کی طاقت دیکھیں، کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ملک کے کس طرح ایک ہفتے میں ہاتھ پائوں پھول گئے ہیں، حالاں کہ صرف ایک ملک سعودی عرب نے ابھی اس کے خلاف اقتصادی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے، کینیڈین وزیر اعظم اپنے دوستوں سے مدد کی اپیل پر مجبور ہوگئے ہیں، بیان کی وضاحتیں کر رہے ہیں، امریکہ اگر کینیڈا میں اپنی فوجیں بھی داخل کر دیتا تو شاید اتنی آسانی سے اور اتنی جلدی وہ ہتھیار نہ ڈالتا، جتنی جلدی اس نے ہزاروں میل دور موجود اپنے سے بظاہر کمزور ملک سعودیہ کے آگے ڈال دئیے ہیں۔ کینیڈا سے قبل براعظم امریکہ کے ہی ایک اور ملک وینزویلا کو بھی واشنگٹن نے ڈھیر کردیا، وینزویلا تیل برآمد کرنے والا بڑا ملک ہے، لیکن وہاں ایسی اقتصادی تباہی آئی ہے کہ خوشحال ملک میں لوگ روٹی کے لئے لائنیں لگانے پر مجبور ہوگئے۔ افراط زر کا یہ عالم کہ معمولی چیز خریدنے کے لئے بھی آپ کو بیگ بھر کر نوٹ لے جانے پڑتے ہیں، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں ہنگامے اور لوٹ مار بھی عام ہوگئی۔ امن و امان بھی تباہ ہوگیا۔ اب تو صدر پر دوران پریڈ ڈرون سے حملہ بھی ہوگیا۔ وینزویلا کے رہنما اس ساری صورت حال کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیتے ہیں، حالاں کہ قریب موجود ہونے کے باوجود امریکہ نے نہ تو وینزویلا میں کوئی فوج اتاری ہے اور نہ اس کا کوئی محاصرہ کیا ہے، اس پر تو کوئی ظاہری پابندیاں بھی نہیں لگائیں۔ بس اقتصادی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔ اسی لئے ہم نے آغاز میں لکھا تھا کہ اس نئی جنگ کے سب سے مؤثر ہتھیار اقتصادی ہوں گے، اگرچہ بوقت ضرورت درمیان میں سامان حرب کا بھی استعمال کیا جاتا رہے گا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭