زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم غزہ کی پٹی ایک بار پھر اسرائیلی درندگی کی زد میں ہے۔ بدھ سے اسرائیلی طیاروں نے غزہ پر بمباری کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا اور 140 مختلف علاقوں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں ایک درجن سے زائد افراد شہید اور سینکڑوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ اسرائیل نے حسب سابق دعویٰ کیا ہے کہ غزہ کی پٹی سے اسرائیلی آبادی پر راکٹ داغے گئے، جس کے جواب میں اسرائیلی فضائیہ نے عسکریت پسندوں کے اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کے ترجمان اشرف القدرہ کا کہنا ہے کہ شہدا میں ایک حاملہ خاتون اور ایک کمسن بچہ بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ کے مندوب برائے مشرق وسطیٰ نکولائی میلادینوف نے ان حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جنگی طیاروں کی بمباری کے خطرناک نتائج سامنے آئیں گے اور پہلے سے ابتر صورت حال مزید گھمبیر ہو جائے گی اور بمباری کے بعد فلسطینی مزاحمت کاروں کی طرف سے جوابی راکٹ حملوں کا بھی خطرہ موجود ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ غزہ کی پٹی پہلے ہی سنگین نوعیت کے انسانی بحران سے گزر رہی ہے۔ اس لئے ’’فریقین‘‘ کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے، ورنہ صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔ تاہم جمعہ کے روز مصر کی کوششوں سے حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ ہو گیا، جس کے بعد اسرائیل نے بمباری کا سلسلہ بند کردیا۔ مگر ’’خوئے بد را بہانہ بسیار‘‘ کے مصداق بدمست صہیونی ریاست کے سامنے معاہدوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، وہ عالمی قوانین کی بھی دھجیاں اڑاتے ہوئے جب چاہتی ہے، مظلوم و محصور فلسطینیوں کا لہو بہاتی ہے۔ اس لئے حالیہ معاہدے کو اگرچہ طویل المیعاد قرار دیا جا رہا ہے، مگر اسرائیل حسب عادت اسے بھی خاطر میں نہیں لائے گا۔ اس لئے غزہ کے باسی مذکورہ معاہدے کے مستقبل سے ذرہ بھی پرامید نہیں ہیں۔ اسرائیل اس معاہدے سے کتنا مخلص ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس وقت مصر اور اقوام متحدہ حماس کے ساتھ امن مذاکرات میں مصروف تھے اور فریقین میں بات چیت جاری تھی، عین اسی وقت اسرائیلی طیارے غزہ میں تباہ کن میزائل اور ہلاکت خیز بم برسا رہے تھے۔ یہ حقیقت اب دنیا کے سامنے کھل چکی ہے کہ اسرائیل اپنے نئے اور مہلک ترین ہتھیاروں کو آزمانے کیلئے مختلف بہانے بنا کر غزہ پر حملے کرتا ہے، مگر اقوام متحدہ سمیت کسی عالمی فورم پر اس کے خلاف کوئی کارروائی تو دور کی بات، آواز تک نہیں اٹھائی جاتی۔ اسرائیل نہتےمظاہرین کے خلاف بھی طاقت کاوحشیانہ استعمال کررہا ہے،حالانکہ مظاہرین پر تشدد عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ غزہ کے باسی گزشتہ چار ماہ سے ہر جمعہ کو ’’یوم واپسی‘‘ کے عنوان سے مظاہرے کرتے ہیں۔ یہودیوں نے 1948ء میں مسلح ڈکیتی کے ذریعے فلسطینیوں کی دو سو ایکڑ اراضی ہتھیائی تھی، اس کی یاد میں غزہ کے باسی شہر کے گرد لگی آہنی باڑھ کے سامنے ہر جمعہ کو مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا کر اس عزم کے ساتھ واپس آجاتے ہیں کہ ’’اگلے جمعہ کو ہم پھر آئیں گے۔‘‘ گزشتہ روز بھی مظاہرین پر اسرائیلی فوج نے حملہ کرکے کئی نوجوان کو زخمی کر دیا۔ الجزیرہ کے مطابق صہیونی فوجی خاص طور پر نوجوانوں کو نشانہ بناتے ہیں اور انہیں گولیاں بھی اس طرح سے ماری جاتی ہیں کہ زخمی زندگی بھر کیلئے معذور ہو جاتے ہیں۔ 30 مارچ سے شروع ہونے والے ان مظاہروں میں اب تک ڈیڑھ سو سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 60 ہزار شدید زخمی ہو چکے ہیں، جن میں سے چالیس ہزار نوجوان ایسے ہیں، جن کی ٹانگوں اور نچلے حصے کو نشانہ بنایا گیا۔ اطبا کی عالمی تنظیم (Doctors Without Borders) سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر باسکال مارٹی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج مظاہرین کو ایسی گولیاں سے نشانہ بناتی ہے، جس کے زخموں کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ہوتا، اس لئے مجبوراً زخمی اعضا کو کاٹنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ اعضا کاٹنے کا عمل غزہ میں جاری ہے۔ دوسری جانب برسوں سے جاری اسرائیلی محاصرے کے باعث غزہ دنیا کا سب سے غریب اور پسماندہ خطہ بن گیا ہے۔ یہ کھلی جیل زندگی کی تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ اب اہل غزہ کیلئے پابندیوں کو سخت سے سخت تر کیا جا رہا ہے۔ دو سال پہلے بجلی کی فراہمی چھ گھنٹہ روزانہ کر دی گئی۔ اس سال سے صرف ایک گھنٹہ بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ادویات، آلات جراحی، نصابی کتب، کھلونے، حتیٰ کہ بچوں کیلئے دودھ تک غزہ لانے پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔اسرائیل بیرون ملک سے امداد پہنچانے کی ہر کوشش کو بھی ناکام بنا دیتا ہے۔ گزشتہ چند روز کے دوران ایسی کئی کشتیوں کو قبضے میں لے لیا گیا، جو بنیادی ضرورت کا سامان لے کر غزہ جا رہی تھیں۔ اقوام متحدہ کے مندوبین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ غزہ انسانی بحران کا شکار ہے۔ مگر یہ بے مصرف ادارہ سوائے بیان بازی کے، مظلومین کی داد رسی کیلئے کوئی بھی عملی قدم اٹھانے سے قاصر ہے۔ اقوام متحدہ کے عہدیدار اور عالمی قوتوں کے نمائندے اسرائیل کے خلاف لب کشائی کی بھی جسارت نہیں کرتے۔ اس کے مظالم کی مذمت کے بجائے وہ ’’فریقین‘‘ کو مشورہ دیتے نظر آتے ہیں کہ وہ پرامن رہیں۔ گویا یہ باور کرایا جاتا ہے کہ فلسطینی بھی متحارب فریق اور جنگ کا حصہ ہیں۔ حالانکہ وہ اسرائیل جیسی ایٹمی قوت کے سامنے غلیل لے کر کھڑے ہیں۔ اغیار سے کیا گلہ، غزہ کے حوالے سے خود مسلم ممالک بھی سوتیلی ماں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ غزہ میں تعمیر نو اور بحالی کے کاموں میں مصروف قطری کمیٹی کے سربراہ محمد العمادی کا کہنا ہے کہ چار عرب ممالک ہم پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ ہم غزہ کے محصور عوام کی مدد نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ تباہی کے دہانے پہنچ چکا ہے، یہاں ایک بھی طبی ادارہ ایسا نہیں ہے، جو یہاں کے مریضوں اور زخمیوں کا مکمل علاج کر سکے۔ اس سے پہلے بھی خلیجی ممالک فلسطینی مزاحمت کاروں کے خلاف اسرائیل کی مدد کرتے رہے ہیں۔ اخوان المسلمون کی دشمنی میں وہ اس حد سے آگے جا چکے ہیں کہ اخوانی نظریئے سے وابستہ فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کے مقابلے میں ان خلیجی ممالک کو اسرائیل بھی اپنا دوست نظر آتا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭