مسعود ابدالی
masood_abdali@hotmail.com
امریکہ کے 16 سینیٹروں نے وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر خزانہ اسٹیو منوچن کے نام ایک مشترکہ خط میں آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کیلئے قرض المعروف Bail out Package کے ممکنہ اجرا پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس خط پر سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے ضابطہ رولز کمیٹی (Rules Committee) کے سربراہ سینیٹر رائے بلنٹ، ریپبلکن پارٹی کے وہپ سینیٹر جان کورنن، سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے انصاف کے سربراہ سینیٹر چک گراسلی سمیت 12 ریپبلکن سینیٹرر کے دستخط ہیں، جبکہ انتہائی لبرل ڈیموکریٹ سینیٹر پیٹرک لیہی کے علاوہ انہی کی پارٹی کے سینیٹر جان ڈانلی نے بھی اس پر دستخط کئے ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ چین Belt and Road initiative یا BRI کے نام سے ایشیائی ملکوں میں اپنے لئے نقل و حمل کی سہولت پیدا کر رہا ہے اور اس نے ترقی و خوشحالی کے نام پر ان ملکوں کے گرد قرض کا جال بن دیا ہے۔ اب قرض میں جکڑے یہ ملک آئی ایم ایف سے خصوصی پیکیج لے کر چین کا قرض ادا کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی سینیٹرز نے ٹرمپ انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو پاکستان کیلئے بیل آؤٹ پیکیج کے اجرا سے روکے، جس کے پاس چین کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے زرمبادلہ موجود نہیں۔
پاکستان کے متوقع وزیر خزانہ اسد عمر نے چند روز پہلے عندیہ دیا تھا کہ پاکستان میں زرمبادلہ کی گرتی ہوئی سطح کو سہارا دینے اور ادائیگیوں میں توازن قائم رکھنے کے لیے فوری طور پر 12 ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی اور اس رقم کے حصول کیلئے آئی ایم ایف سے درخواست خارج از امکان نہیں۔ تین دن پہلے امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے آئی ایم ایف سے کہا تھا کہ وہ پاکستان کو نیا قرض دینے سے گریز کرے، کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ رقم چین کا قرضہ ادا کرنے کے لیے استعمال کی جائے گی۔
پاکستان کی نگراں حکومت کا کہنا ہے کہ چین کا قرضہ مستقبل قریب میں واجب الادا نہیں اور اس کے لئے ہمیں IMF سے قرض نہیں چاہئے۔ تاہم واشنگٹن میں IMF کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ نگراں حکومت کے آئی ایم ایف سے غیر رسمی مذاکرات ہوئے ہیں، بلکہ ان کی ممکنہ شرائط پر عمل بھی درآمد شروع ہو چکا ہے۔
آئی ایم ایف بورڈ کی ہیئت کچھ ایسی ہے کہ اس پر کوئی ملک قرض دینے یا نہ دینے کے معاملے میں دبائو نہیں ڈال سکتا اور فیصلہ کرنے میں آئی ایم ایف کا بورڈ بالکل خود مختار ہے، لیکن یہ بات سب کو معلوم ہے کہ چچا سام کے ہاتھ کتنے لمبے ہیں۔ چنانچہ آئی آیم ایف کیلئے امریکہ کے دبائو کو نظر انداز کردینا ممکن نہیں۔ سیانوں کا کہنا ہے کہ اگر چین کا قرض فوری طور پر واجب الادا ہوا تب بھی پریشانی کی کوئی بات نہیں کہ پاکستان کے پاس دس ارب ڈالر سے زیادہ کا زر مبادلہ موجود ہے، جس سے چینی قرض کی قسط ادا کی جاسکتی ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی سینیٹرز کا خط دراصل پاکستان کو افغانستان کے معاملے میں ڈو مور کے لئے دبائو ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔ صدر ٹرمپ کی نئی جارحانہ افغان پالیسی کو ایک سال ہونے کو ہے، لیکن وحشیانہ بمباری کے باوجود طالبان نے افغانستان کے مزید علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے اور افغان فوج عملاً مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ کابل انتظامیہ کی علمداری نیٹو کی بمباری کی مرہون منت ہے۔ صدر ٹرمپ اب یہاں سے اپنا بوریا بستر لپیٹ لینا چاہتے ہیں، لیکن اس سے پہلے طالبان سے ایک رسمی معاہدہ ضروری ہے، جس پر طالبان تیار نہیں اور غیر ملکی فوج کی مکمل اور غیر مشروط واپسی سے کم کوئی چیز ان کے لئے قابل قبول نہیں۔ میدان جنگ میں طالبان کو واضح برتری حاصل ہے، اس لئے ان کے مؤقف میں کسی قسم کی لچک کا کوئی امکان نہیں۔
بم اور بلٹ کی ناکامی کے بعد امریکہ پاکستان پر دبائو کے لئے اب سونے کی گولیاں استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس موقع پر ایک معصوم سا سوال محترم اقبال احسن صاحب سے ضرور پوچھنا چاہئے، جو ببانگ دہل کہتے پھر رہے تھے کہ سی پیک کے لئے پاکستان نے چین سے کوئی قرضہ نہیں لیا، بلکہ یہ ساری کی ساری رقم سرمایہ کاری کی ایک شکل ہے، جس کی واپسی تنصیبات سے ہونے والی آمدنی کی شکل میں ہوگی۔ اب یہ کس قرض کی بات ہو رہی ہے؟ ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو صرف خالی خزانہ ہی نہیں، بلکہ قرض کا ایک پہاڑ بھی ورثے میں ملے گا۔
٭٭٭٭٭