ماہ رواں اور اس کا تاریخی دن چودہ اگست بس ایک ہی دن کی دوری پر ہے، یہ دن آزادی کی اس تاریخ کی یاد دلاتا ہے، جب اسلامیانِ ہند کی کثیر تعداد نے اپنے قائد محمد علی جناح کی کوششوں سے اسلام کے نام پر آزاد ہونے والی دنیا کی پہلی مسلم ریاست، پاکستان میں قدم رکھنے کا قصد کیا۔
مسلمانوں کی بیداری، غلامی سے آزادی، جبر سے خلاصی متعصب ہندو اور سکھوں کو ایک آنکھ نہ بھائی اور وہ ہند کی تقسیم کے قانونی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، سنگین، برچھی، ترشول اور توپ و تفنگ سے لیس پاکستان کی جانب ہجرت کرتے مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے کا مشن لے کر جتھوں کی صورت نکل پڑے، ان پر حملہ آور ہوئے اور گاجر مولی کی طرح نہتے مسلمانوں کو کاٹ ڈالا۔ خون مسلم ان کے لئے ارزاں ٹھہرا، پورے ہندوستان میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ جو ہجرت پر آمادہ تھے، ان پر ہی نہیں، بلکہ جو ہجرت کا ارادہ نہ رکھتے تھے، انہیں بھی محض مسلمان ہونے کی سزا دی گئی۔ تقسیم ہند کی خجالت میں چراغ پا ہندو سکھ اور دیگر قومیتوں کے لوگ مسلمانوں کے خون کے پیاسے بن کر ان پر ٹوٹ پڑے تھے۔ صدیوں ساتھ رہنے اور ایک دوسرے کے دکھ درد کا خیال رکھنے والے مذہب اور قومیت کے زعم میں اندھے اور مسلح ہوکر نہتے مسلمانوں کی جان کے درپے ہوگئے، باہمی ربط و مصالحت کو رقابتی جنون نے پھونک ڈالا، ایسے میں ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں کو بھی اپنی عزتوں اور جان کے خوف سے پاکستان کی طرف ہجرت کرنی پڑی۔
مسلمانوں کے قافلے نئے سفر اور ایک نئے وطن کی جستجو میں پاکستان کی جانب بڑھے تو راستے مقتل بنا دیئے گئے، چہار جانب خون کی ہولیاں کھیلی جانے لگیں۔ کیا بوڑھے کیا بچے کیا جوان۔ ہندو اور سکھوں کے ہاتھ جو بھی لگا، انہوں نے اس کے خون سے اپنے خنجر سیراب کئے۔ خواتین کی عصمتوں کو تار تار کرکے انہیں قتل کیا، معصوموں کو اچھال کر نیزوں کی زد پر لیا گیا اور تڑپتی ہوئی لاشوں کے انبار پر جشن منائے۔ صد افسوس کہ چودہ اگست پرا ٓزاد ملک پاکستان میں بھی آج نوجوانوں کی ٹولیاں اسی طرح جشن مناتی نظر آتی ہیں، بس فرق اتنا ہے کہ ہندو اور سکھ مسلمانوں کی لاشوں کے گرد رقص کیا کرتے تھے، جب کہ ہمارے نوجوان مسلم روایات کا جنازہ نکال کر اس پر محو رقص ہوتے ہیں، سڑکیں بند کرکے ٹریفک معطل کر دی جاتی ہے، مسافروں کو گھنٹوں انتظار کی اذیت سے دوچار رکھا جاتا ہے، حتیٰ کہ رش میں پھنسی مریضوں کی ایمبولینسز کو بھی سفر کی اجازت نہیں دی جاتی! نئی نسل کی تربیت کے ذمہ داران بتائیں گے کیا یہی تھی آزادی کی غرض و غایت؟ کیا اسی لئے لاکھوں جانوں کے نذرانے دیئے گئے تھے؟
تحریک آزادیٔ پاکستان ہفتہ دو ہفتے کی کہانی نہیں، کہ اسے پڑھ کر آنکھیں موند لی جائیں اور جو پڑھا اور سنا اسے بھیانک خواب سمجھ کر فراموش کر دیا جائے۔ پاکستان کی تعمیر اور اسے آباد کرنے میں مسلمان مہاجرین نے اپنا سب کچھ لٹا دیا تھا، یہاں تک کہ آخری اور سب سے قیمتی متاع اپنی جانوں کو بھی اہمیت نہ دی اور انہیں بھی داؤ پر لگا دیا تھا، صرف اس لئے کہ آئندہ نسلوں کے لئے ایک آزاد اور خود مختار مملکت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے۔ لاکھوں مسلمان ظلم و ستم کا شکار ہوکر اپنی منزل مقصود تک پہنچے، جب کہ لاکھوں نے راستوں میں ہی جام شہادت نوش کیا۔
پاکستان کی لہو رنگ تاریخ اقوام عالم میں اسلامی جوش و جذبے کے تحت دی گئی لاکھوں قربانیوں کے ساتھ مرقوم ہے۔ یہ وطن، یہ زمین، یہ آزادی ہمیں یونہی نہیں مل گئی، کسی نے آزادی ہمارے اجداد کو پلیٹ میں سجا کر نہیں تھما دی۔ یہ آزادی جس کی آج ہم ذرہ برابر قدر نہیں کر رہے، اس کی اہمیت برما اور اس جیسے دوسرے ممالک کے مسلمانوں سے پوچھئے، جن پر طرح طرح کی پابندیاں لگا کر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ آزادی کی قدر وہی جانتے ہیں، جنہوں نے غلامی کا دور دیکھا ہو یا تاریخ سے انہیں مکمل آگہی ہو اور انہوں نے اس کی سنگینی کو سمجھا ہو۔ یہ بات درست کہ جس نسل نے قیام پاکستان کی تحریک دیکھی، ہندوستان میں قیام کے دوران ہندوؤں اور سکھوں کے مظالم سہے اور ان کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہوئے، ان میں سے بیشتر اب اس دنیا میں نہیں رہے اور جو ہیں وہ بھی قابل رحم حالت میں ہیں۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں نے اپنا ورثہ جس نسل کو سونپا، اس نے نہایت غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور اپنی نئی نسل کو اپنی تابندہ روایات سے روشناس کرانے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ بس یہی وہ کوتاہی ہے، جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جو قومیں اپنی تاریخ اور اپنے اسلاف کے کارناموں سے کٹ جائیں، ان کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے اور من حیث القوم آج ہم بھی ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہیں۔ ہمارے گھرانوں میں اب بچوں کو نہ تو اسلاف کے کارناموں سے متعارف کرانے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ وطن کتنی قربانیوں کا ثمراور کیسے وجود میں آیا ہے۔ اب یوم آزادی پر ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی طلبا کے لئے وہ تقریبات نہیں ہوتیں، جن میں پہلے بچوں کو اپنی تاریخ اور قومی ہیروز سے روشناس کرایا جاتا تھا۔ تقریب خواہ یوم آزادی کی ہو، چھ ستمبر یا تیئس مارچ کی، سب میں ٹیبلوز کی آڑ میں ناچ گانے کا اہتمام کیا جاتا ہے، قومی اور ملی نغمے بھی ناچ ناچ کر پیش کئے جاتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ چودہ اگست کی تقریب میں اسکول انتظامیہ بیٹی کو ٹیبلو پر ڈانس کراتی ہے اور مہمانوں کی صف میں بیٹھے اس کے والدین بھی اس تماشے کا حصہ ہوتے ہیں۔ کیا شہدائے آزادی کو خراج عقیدت اسی طرح پیش کیا جاتا ہے؟ قومی میڈیا جس میں ٹی وی چینلز سرفہرست ہیں، انہوں نے بھی بے حیائی پھیلانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ کیا یہ سب کچھ ہماری تابندہ روایات کو مسخ کرنے کی سوچی سمجھی سازش نہیں؟ یہ سب کچھ مسلم روایات سے بغاوت نہیں تو اور کیا ہے؟
تحریک آزادی مسلسل جہدو جہد کا نام ہے، آزادی کے چراغ روشن رکھنے کے لئے آج ہمیں ماضی سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ سازشوں کی ہوائیں اب گھر کے اندر سے بھی ان چراغوں کو بجھانے کے درپے ہیں۔ بعض اہل سیاست جو اپنے کرتوت کے سبب انتخابات میں ناکامی سے دوچار ہوئے، ان کی جانب سے یوم آزادی سے منحرف ہونے کا اعلان تو حد درجہ افسوسناک بلکہ قابل گرفت ہے۔ خدا جانے کیوں طبقہ اشرافیہ جسے طبقہ بے فکراں بھی کہا جاسکتا ہے، اپنی تاریخ دھندلانے پر کمربستہ نظر آتا ہے۔ آج کے اساتذہ بھی نسل نوکو بے راہ روی سے بچانے پر قادر نظر نہیں آتے۔ یوم آزادی اور تجدیدِ عہد آزادی کی تحریک کو تابندہ بنانے کے بجائے نئی نسل کو رقص و سرور پر مبنی جشن کے طور پر منانے والوںکی مثال کیا انہی دیوانوں کی سی نہیں، جو اسی شاخ کو کاٹ رہے ہوتے ہیں، جس پر ان کا اپنا آشیانہ ہوتا ہے۔
گستاخی معاف! منظر نامہ یہ ہے کہ تحریک پاکستان کی خونچکاں تحریک سے نابلد جشن منانے والے رقصاں ہیں، سڑکوں پر اسٹالز لگا کر ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے جا رہے ہیں، لیکن کہیں کسی کونے سے شہدائے آزادی کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کا نعرہ سنائی نہیں دیتا، کوئی تو ہو جو اس بارے میں بھی سوچے۔ (وما توفیقی الا باللہ)
٭٭٭٭٭