نئی عالمی جنگ (دوسرا و آخری حصہ)

کینیڈا اور وینزویلا کی کہانی تو آپ نے گزشتہ قسط میں پڑھ ہی لی۔ اس وقت امریکی اقتصادی ہتھیاروں کا رخ ترکی کی طرف ہے اور ایران بھی اس کے نشانے پر ہے، ساتھ میں تھوڑی بہت پھکی وہ روس کو بھی وقتاً فوقتاً دیدیتا ہے، تاکہ وہ دوسروں کی مدد کے لئے نہ سوچے اور نہ دوسرے اس کی طرف مدد کے لئے دیکھیں۔ اسی لئے اب روس پر کچھ نئی پابندیوں کا عندیہ دے دیا گیا ہے، یہ پابندیاں لگانے کے لئے برطانیہ میں سابقہ روسی جاسوس پر حملے کا معاملہ جواز بنایا گیا ہے، ابھی امریکہ نے صرف عندیہ دیا ہے تو روسی اسٹاک مارکیٹ گرگئی ہے، روبل کو ڈالر نے ایک دن میں 4 فیصد رول دیا اور اس کی قدر گھٹ کر اس سطح پر آگئی کہ اب ایک ڈالر 66 روبل کے برابر ہوگیا ہے اور یاد رہے کہ ابھی صرف امریکہ نے پابندی کا عندیہ دیا ہے، پابندیاں لگائیں نہیں، ابھی گزشتہ پابندیوں کی وجہ سے ہی روسی معیشت مسائل کا شکار ہے، اگر وہ کہیں سے سنبھلنے کی کوشش کرے بھی تو امریکہ اِدھر اُدھر سے ٹھوکر مار دیتا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں اتنی گرا دیتا ہے کہ روس پھر جیسے تھے والی پوزیشن پر چلا جاتا ہے۔
اب آتے ہیں ترکی کی طرف، جیسا کہ ہم نے لکھا تھا کہ دنیا کو اپنا غلام رکھنے کے لئے دوسری جنگ عظیم کے بعد دو ہتھیار تیار کئے گئے، ایک مغربی جمہوریت اور دوسرا اقتصاد ی نظام۔ ہر ملک میں امریکہ کے پسندیدہ سیاستدان موجود ہیں، جو اس کی منشا کے مطابق کام کرتے ہیں، اس کی خواہش کا احترام کرتے ہیں، لیکن کہیں کہیں اس نظام سے بھی طیب اردگان جیسے سرپھرے نکل آتے ہیں، انہیں شکست دینے کی کوشش کی جاتی ہے، ان کے خلاف میڈیا کا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے، الزامات لگا کر انہیں اپنے عوام میں مشکوک بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، طیب اردگان کو بھی ترکی میں اقتدار سے باہر رکھنے کے لئے یہ سب کچھ کیا گیا، مگر سارے ہتھیار کند ثابت ہوئے اور چند ہفتے قبل ہونے والے الیکشن میں بھی اردگان نے کامیابی حاصل کرلی، ویسے بھی ترک کوئی وکھرے ہی لوگ ہیں، ہمیشہ سے آزاد۔ بہادری میں بے مثل۔ ترکی میں امریکہ کے چہیتے اپوزیشن رہنما الیکشن ہار گئے، لیکن امریکہ نے لگتا ہے ہار نہیں مانی، سو اردگان کے بااختیار صدر بنتے ہی اقتصادی ہتھیاروں سے انہیں زیر کرنے کا کام شروع کر دیا گیا۔ یہ کام الیکشن سے پہلے ہی شروع کر دیا گیا تھا، اس وقت اس کا مقصد معیشت کو کمزور کرکے لوگوں کو اردگان سے بدگمان کرنا تھا، وہ کارڈ ناکام ہوا تو اب کھلی اقتصادی جنگ چھیڑ دی گئی ہے۔ جس کا ایک ہی ہدف ہے کہ اردگان کو کسی طرح اپنے سامنے سرخم کرنے پر مجبور کیا جائے، یا پھر ایسے حالات پیدا کردئیے جائیں کہ ان کے عوام سڑکوں پر نکل آئیں اور اردگان کا اقتدار ختم کیا جا سکے۔
اکبر الہ آبادی نے کہا تھا:
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
ہمارے محترم سابق آئی جی ذوالفقار چیمہ نے اپنی کتاب میں طیب اردگان کے بارے میں لکھتے ہوئے اکبر کی جگہ اردگان لکھا ہے، کہ اردگان اس زمانے میں خدا کا نام لیتے ہیں، سو خدا کا نام لینے کی وجہ سے ان کی رپٹ تو کیا کئی رپٹیں امریکہ کے پاس لکھی ہوئی ہیں، اس میں شام میں مظلوم مسلمانوں کی حمایت سے لے کر فلسطینیوں کے لئے جدوجہد تک، اسرائیل کو عالمی فورمز پر للکارنے سے لے کر خود امریکہ سے مختلف معاملات پر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے تک۔ اب تازہ رپٹ جس پر ترکی کو سبق سکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ امریکی پادری اینڈریو برنسن کی رہائی سے اردگان کا انکار ہے، پادری کو ترکی نے جاسوسی اور سازش کے الزام میں پکڑا ہے اور اردگان جیسے رہنما سے یہی توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ امریکہ کو ناں کردیں گے، لیکن یہ ناں ہوتے ہی امریکہ نے اپنے اقتصاد ی ہتھیاروں کو متحرک کردیا، کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے ترکی کی رینٹنگ کم کرنی شروع کردی، ترکی کے قرضوں پر سوالات اٹھانے شروع کردئیے، یورپی بینک جو ترکی میں سرمایہ کاری کر رہے تھے، انہیں پیغام دے دیا گیا کہ ان کا پیسہ ڈوب سکتا ہے، اس لئے وہ مزید قرضے روک دیں، دوسری طرف ترکی کی کرنسی مارکیٹ کو افواہ سازی کے ذریعے خراب کرنا شروع کردیا گیا، دو ترک وزرا پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ ان سب چیزوں سے ماحول بنایا گیا اور پھر جمعہ کی صبح ٹرمپ خود میدان میں آئے، انہوں نے ٹوئٹ کے ذریعے ترکی کی اسٹیل اور المونیم مصنوعات پر ڈیوٹی دو گنا کرنے کا اعلان کردیا، ان کے صرف اس اعلان سے ایک دن میں ترکش لیرا کی قیمت 20 فیصد کم ہوگئی، ایک ڈالر ساڑھے6 لیرا سے تجاوز کرگیا، جبکہ گزشتہ چند ماہ کے دوران پہلے ہی لیرا اپنی 20 فیصد قدر کھو چکا ہے۔ یعنی صرف 9 ماہ میں امریکہ اپنے اقتصادی ہتھیاروں سے لیرا کی قدر 40 فیصدکم کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے، اس کے نتیجے میں ترکی پر قرضے بھی اسی شرح سے بڑھ گئے ہیں، نئے قرضے مہنگے ہوگئے ہیں، ریٹنگ ایجنسی فچ نے تو ترکی کی مالی ضروریات 230 ارب ڈالر بتا کر ترک معیشت کو مزید بڑا جھٹکا دینے کی کوشش کی، ساتھ ہی آئی ایم ایف کے پاس ترکی کو دھکیلنے کے لئے بھی ماحول بنایا جا رہا ہے۔ طیب اردگان سود کے مخالف ہیں اور ان کی کوشش رہی ہے کہ شرح سود کم سے کم رہے تاکہ عوامی فلاحی منصوبوں کے لئے سستا سرمایہ میسر آتا رہے، لیکن ایسی فضا بنا دی گئی ہے کہ ترکی کو شرح سود بھی بڑھانا پڑ رہی ہے اور ٹرمپ اپنے ٹوئٹ کے ذریعے ترکی کا مذاق اڑانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں، کسی شوخ بچے کی طرح کہہ رہے ہیں کہ دیکھا ترکش لیرا کس طرح ہم نے گرا دیا۔
اس پر ترک صدر نے بالکل ٹھیک جواب دیا ہے کہ امریکہ نے ان کے ملک کے خلاف اقتصادی جنگ چھیڑ دی ہے، انہوں نے اپنے عوام سے کہا ہے کہ وہ اس جنگ کو جیتنے کے لئے ان کا ساتھ دیں، سونا اور ڈالر بیچ کر لیرا حاصل کریں، تاکہ ملکی کرنسی کو استحکام حاصل ہو، انہوں نے کہا ہے کہ ڈالر ہمارا راستہ نہیں روک سکتا، کیوں کہ ہمارا رب ہمارے ساتھ ہے۔ اردگان حقیقی عوامی لیڈر ہیں اور ترک ان کی سنتے ہیں، رب العالمین بھی ان کی مدد کریں گے۔ اس لئے امید ہے کہ پوری طرح نہ بھی سہی تو کسی حد تک وہ امریکی اقتصادی جنگ کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، انہوں نے یورپ کے ساتھ اپنے تعلقات بھی ٹھیک کرنے کے لئے فوری اقدامات شروع کردئیے ہیں، اس کے لئے ترکی کے عثمانی دور کے اتحادی ملک جرمنی کا دورہ بھی رکھ لیا ہے، جس کے ساتھ ان کے تعلقات گزشتہ کچھ برسوں سے کشیدہ چلے آرہے تھے، یورپی ممالک کا بھی ترکی کے ساتھ مفاد جڑا ہوا ہے، کیوں کہ جو سلوک امریکہ ترکی کے ساتھ کر رہا ہے، انہیں ڈر ہے کہ کل کو کینیڈا کی طرح ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ترکی میں یورپی بینکوں نے بڑی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ ترکی کی دو مصنوعات پر اضافی ٹیرف کے امریکی فیصلے سے یورپی اقتصادی مارکیٹ بھی ہل گئی ہے اور وہاں بھی اسٹاک مارکیٹوں میں مندی کی بڑی لہر آئی ہے۔ اس لئے ترکی کو وہاں سے کچھ مدد ملنے کی امید ہے، لیکن اس سب کے باوجود یہ صورت حال ثابت کرتی ہے کہ امریکہ کس قدر طاقتور ہے، اس کے اقتصادی ہتھیار کتنے مہلک ہیں کہ ایک پادری کے معاملے پر اس نے ترکی جیسے مستحکم معیشت والے ملک میں بحران جیسے فضا پیدا کر دی۔
ترکی کے برعکس ایران زیادہ مضبوط ملک نہیں، اس لئے وہاں بحران زیادہ نظر آتا ہے، امریکہ نے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کیا تو یورپی ممالک، روس اور چین نے اس کی مخالفت کی، یہ اعلانات سامنے آئے کہ وہ امریکی پابندیوں پر عمل نہیں کریں گے، لیکن جب عمل کا وقت آیا تو یورپ سے لے کر چین اور روس تک، سب نے اپنے الفاظ نگل لئے اور ایک ایک کرکے ایران سے کاروبار سمیٹ لیا، اب نومبر میں ایرانی تیل کی برآمد پر پابندی کے معاملے کا انجام بھی اس سے مختلف نظر نہیں آتا، ایران ایک بڑے معاشی بحران میں دھنستا جا رہا ہے، ایک ڈالر کی قیمت ایرانی ریال میں ایک لاکھ چالیس ہزار تک پہنچ چکی ہے، نومبر جوں جوں قریب آئے گا، ایک ڈالر دو لاکھ ریال کی حد بھی چھو سکتا ہے، ترکی کے برعکس ایران میں قیادت بھی مضبوط نہیں، اس لئے وہاں عوامی سطح پر بھی مسائل سامنے آنے لگے ہیں، آئے روز مظاہرے ہو رہے ہیں، لوگوں کے لئے گھر چلانا ناممکن ہوتا جا رہا ہے اور اس کا اظہار وہ سڑکوں پر نکل کر کر رہے ہیں، اگر صورت حال ایسے ہی چلتی رہی تو ایران میں آگے چل کر معاملات بڑی خرابی کی طرف جا سکتے ہیں۔ ایرانی حکومت کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی طرف سے تضحیک کے باوجود ایرانی حکومت اس سے مذاکرات کے لئے کوششیں کر رہی ہے، یہ تو تھی امریکہ کے اقتصادی ہتھیاروں کی صورت حال۔ دوسری طرف اس کی فوجی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ گزشتہ روز جنوبی بحیرئہ چین پر اس کے طیاروں نے پروازیں کیں، چین کی طرف سے بار بار امریکی طیاروں کو انتباہ کئے گئے، لیکن انہوں نے ایک نہ سنی اور مٹر گشت کے بعد خود اپنے اوقات کے تحت واپس چلے گئے۔ چین جیسی ابھرتی ہوئی سپر طاقت بھی برداشت کرنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکی۔ لیکن اس ساری طاقت کے باوجود امید کی کرن بھی نظر آرہی ہے اور وہ یہ کہ امریکہ اب طاقت کا ننگا اظہار کرنے لگا ہے، اسے اتحادیوں کی بھی پروا نہیں رہی، وہ ہر ایک کو اپنی طاقت کے ذریعے دبانے اور اپنے طریقے سے چلانے کی کوشش کر رہا ہے، یہی بات ایک نئی عالمی اقتصادی جنگ چھیڑنے کا سبب بن سکتی ہے، بہت سے کمزور تنگ آکر اس نظام کو چیلنج کرنے کی طرف جا سکتے ہیں۔ ڈالر، ریٹنگ ایجنسیوں کے کھیل اور جمہوریت کے طوق اپنے گلے سے اتارنے کی کوشش کرسکتے ہیں، اگر ایسا ہو گیا تو پھر اس سے قطع نظر کہ وہ جنگ کون جیتے گا، دوسری جنگ عظیم کی طرح جیتنے والا بھی اس میں ہار جائے گا اور دنیا کا ایک نئی آزادی کی طرف سفر شروع ہو سکتا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment