ڈاکٹر صابر حسین خان
’’کیوں بھائی! چہرہ کیوں لٹکا ہوا ہے؟ طبیعت ٹھیک نہیں ہوئی کیا ابھی تک۔ پیلا رنگ ہورہا ہے۔‘‘ بابر کا چہرہ دیکھتے ہی میں سجھ گیا کہ آج پھر دال میں کچھ کالا ہے۔
’’نہیں سر! طبیعت ٹھیک ہے بالکل۔ اب درد بھی کبھی کبھی ہوتا ہے اور باقی چیزیں بھی سیٹ ہیں۔‘‘ بابر نے جواب دیا۔ مگر مجھے کچھ گڑبڑ لگ رہی تھی۔ تین چار ماہ پہلے بابر کو چکن گونیا ہوگیا تھا اور اُس نے اُس کی اچھی بھلی طبیعت میں دوبارہ گڑبڑ پیدا کردی تھی۔ گزشتہ سات برسوں سے بابر سے ملاقات ہے۔ جن تکالیف کی وجہ سے وہ میرے پاس آیا تھا۔ خدا کا شکرکہ وہ سب اب ٹھیک ہیں۔ دو چار اعصابی طاقت کی دوائیاں چل رہی ہیں۔ مہینے میں دوبار ہماری ملاقات ہوجاتی ہے۔ ہونہار اور کہنا ماننے والا نوجوان ہے۔ جب جب جو کتابیں، جوفلمیں، جو کام اُسے Suggest کیے۔ اُس نے اُنہیں پڑھنے، دیکھنے اور کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
طبیعت کے حوالے سے ہماری گفتگو کم اور زندگی گزارنے کے مثبت طور طریقوں کو زندگی میں Adopt کرنے اور کروانے کے حوالے سے ہماری باتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ مجھ سے ملنے سے پہلے وہ جگر، خون، چکروں اور نظام ہاضمہ کے مسائل کے سِلسلے میں آٹھ دس سال تک جسمانی امراض کے ماہر ڈاکٹرز، حکیم، طبیب، ہومیوپیتھک، روحانی علوم کے ماہرین سب کے چکر لگا چکا تھا۔ مگر کسی وجہ سے خدا نے اُسے شفا سے محروم رکھا تھا۔ پھر ایک مقامی اخبار کے ایڈیٹر پبلشر اونر نے اُسے میرے پاس ریفر کردیا۔ اُس زمانے میں، میرے کالمز اس اخبار میں شائع ہوا کرتے تھے۔
خدا نے بڑا کرم کیا اور دو چار ماہ میں ہی بابر کی جسمانی تکالیف، ذہنی و نفسیاتی و اعصابی امراض کی ادویات کی مدد سے کم ہوتی گئیں اور چھ ماہ میں خدا کے فضل سے بہت حد تک ختم ہوگئیں۔ عدم واقفیت اور مناسب آگہی نہ ہونے کی وجہ سے باہر بھی اُن لاکھوں مریضوں کی طرح جسمانی تکالیف میں مبتلا رہا۔ جن کی بظاہر جسمانی علامات وتکالیف و شکایات کا Root Cawe ذہن اور اعصاب میں پوشیدہ ہو تا ہے۔ لیکن چونکہ ہماری سوسائٹی میں جنرل ڈاکٹرز، حکیم، طبیب، ہومیوپیتھ، اور روحانی علاج کرنے والے عام طور پر ذہنی و نفسیاتی امراض اور اُن امراض کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جسمانی علامات کے درمیانی تعلق اور اُس کے علاج سے آگاہ نہیں ہوتے اور نہ ہی دوران تعلیم اُن کی نفسیاتی اور ذہنی امراض کے حوالے سے تربیت ہوئی ہوتی ہے۔ تو وہ وہ بہت سی ایسی جسمانی بیماریوں کا جسمانی بیماریوں کی ادویات سے علاج سالہاسال تک کرتے رہتے ہیں۔ جو درحقیقت دماغ میں موجود کیمیائی اجزاء کی کمی یا زیادتی اور یا اعصابی کمزوری کی وجہ سے پیدا ہوئی ہوتی ہیں۔
باہر کی جسمانی تکالیف کا منبع بھی اُس کے آٹو نومک نروس سسٹم Autonomic Nervous System کے تیزی سے بنتا ہوا کرنٹ تھا۔ جو جسمانی امراض کے ماہر ڈاکٹرز Identify نہیں کرسکے۔ جگر البتہ اُس کا ضرور کمزور تھا۔ بد پرہیزی کی صورت میں تکلیف بڑھ جاتی۔ مگر چونکہ کائونسلنگ کے بعد اُسے سمجھ میں آگیا کہ اُس کو کِس طرح کا لائف اسٹائل اور کیسی غذا Suit کرے گی تو اُس نے اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لانا شروع کر دی اور بہت جلد ہی علامتوں سے چھٹکارا پالیا۔ حالیہ چکن گونیا کے حملے نے البتہ اُس کا مدافعتی نظام کمزور کردیا تھا۔ آج پھر اُس کے چہرے پر پیلاہٹ دیکھی تو پہلا گمان یہی آیا کہ چکن گونیا کے Virus نے دوبارہ متاثر کیا ہے۔ مگر چند منٹ بعد ہی اصل وجہ سامنے آگئی۔
’’سر جی! اِس بار پولیس تھانے کا تجربہ ہوگیا اور وہ بھی یونہی بلاوجہ‘‘۔ بابر نے کچھ دیر بعد کہا۔
’’ارے یہ کیا! خیریت؟ کیا ہوگیا تھا۔‘‘ میں نے پوچھا ’’خیریت تھی سر! لیکن بلاوجہ پھنس گیا۔ لمبی کہانی ہے۔‘‘ ’’لمبی ہو یا چھوٹی، ہوا کیا؟‘‘ مجھے تجسس ہورہا تھا۔ بابر جیسا پڑھنے کا شوقین اور امن پسند نوجوان پولیس کے چکر میں کیسے آگیا۔
’’ہفتہ پہلے صبح دس بجے دکان کا شٹر اٹھایا۔ تو دیکھا سامنے پولیس موبائل کھڑی تھی۔ کئی پولیس والے نیچے اُترے ہوئے، اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے۔ ایک نوجوان کو پکڑا ہوا تھا۔ اُسے ہتھکڑی لگی ہوئی تھی۔ میں ابھی اُنہیں دیکھ ہی رہا تھا کہ ہتھکڑی لگے شخص نے ایک پولیس والے سے کچھ کہا۔ اُس نے مجھے دیکھا اور پھر دو تین اور پولیس والوں کو اشارہ کیا۔ اُن کے ساتھ لیڈی پولیس بھی تھی۔ تین چار پولیس والے میرے پاس آگئے۔ گرفتار مجرم بھی اُن کے ساتھ تھا۔
’’کہاں چھپایا ہے لڑکی کو۔ باہر نکالو اُسے۔‘‘ ایک پولیس والے نے مجھے مخاطب کیا۔ میں حیران پریشان اُس کی شکل دیکھتا رہا۔ اِس دوران وہ گھر میں گھُسنے کی کوشش کرنے لگے۔
’’کون سی لڑکی؟ کیسی لڑکی؟۔‘‘ میں نے گڑبڑا کر پوچھا۔ ’’اور گھر میں کیوںگُھس رہے ہیں آپ لوگ۔ تلاشی لینی ہے کوئی تو صرف لیڈی کانسٹیبل اندر جا سکتی ہے۔ کوئی مرد اندر نہیں جائے گا۔‘‘ مجھے غصہ بھی آرہا تھا اور پریشانی بھی ہورہی تھی۔
بابر کی باتوں پر مجھے بھی پریشانی سی ہو رہی تھی اور حیرت بھی ہو رہی تھی۔ بابر اور لڑکی ؟؟ فلمی سی کہانی لگ رہی تھی۔ میں سگریٹ سُلگا کے کُرسی کی پُشت سے ٹیک لگا کر بابرکی کہانی سُن رہا تھا۔
’’میرے کہنے پر پولیس والوں نے خاتون کانسٹیبل کو گھر کے اندر بھیجا اور ایک سپاہی نے کہا کہ یہ (گرفتار) بندہ کہہ رہا ہے کہ اُس نے دو دِن پہلے لڑکی کو اِس گھر کے دروازے کے باہر اپنے رکشے سے اتارا تھا۔ لڑکی دو دِن سے گھر سے غائب ہے۔ اُس کے شوہر نے رپورٹ لِکھوائی ہے۔ یہ رکشہ والا پکڑا گیا ہے۔ سپاہی نے رکشہ والے گرفتار ملزم سے میرے سامنے پوچھا ’’کیوں یہی گھر ہے؟۔ ’’ہاں‘‘ اُس نے جواب دیا ’’اور ہم نے اِن صاحب سے پانی پی پیا تھا۔‘‘ اُس نے میری طرف اشارہ کیا۔
’’جھوٹ بول رہے ہو تم۔ آج سے پہلے میں نے دیکھا نہیں تم کو۔ پانی کہا سے پی لیا تم نے میرے ہاتھ سے۔‘‘ میں نے غصے سے ملزم کو گھورا۔
اِس دوران لیڈی کانسٹیبل گھر کے اندر سے واپس آگئی تھی۔ پولیس والوں نے کئی گھروں کی اور تلاشی لی۔ مگر کِسی گھر سے کوئی لڑکی برآمد نہیں ہوئی۔ پھر اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ تھانے چلیں۔ باقی تفتیش وہیں ہوگی۔ میں کہتا رہا کہ میں اِس آدمی کو نہیں جانتا اور یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ مگر پولیس والوں کا کہنا تھا کہ ہم مجبور ہیں۔ اِس نے آپ کے گھر کا پتا بتایا اور آپ کو بولا کہ آپ نے پانی پلایا ہے تو ہمیں تو تحقیق کرنی ہے۔
اِس دوران پورا محلّہ جمع ہوگیا تھا۔ سب طرح طرح کی باتیں کررہے تھے۔ کرتا کیا نہ کرتا۔ موبائل میں بیٹھ گیا۔ البتہ پیچھے اشارہ کر دیا تھا۔ دو دوستوں کو۔ وہ بائیک پر موبائل کے پیچھے آنے لگے۔ میں نے سوچا علاقے کے تھانے میں تھوڑی جان پہچان ہے۔ مگر تھوڑی دور جانے کے بعد پتہ چلا کہ وہ موبائل دوسرے علاقے کے تھانے کی تھی۔ میرے ساتھ اُنہوں نے محلّے کے ایک اور آدمی کو بھی تفتیش کیلئے ساتھ لیا تھا۔ تھانے پہنچ کر ہم دونوں کو ایک کمرے میں بِٹھادیا اور رکشے والے کو اندر لے گئے۔ آٹھ گھنٹے گزر گئے۔ صبح سے شام ہوگئی۔ پھر دو پولیس والوں نے آکر کہا کہ آپ لوگوں پر کوئی الزام نہیں۔ رکشے والے نے اقرار جُرم کرلیا ہے۔ ہمیں پوری کہانی پتہ چل گئی ہے۔ آپ لوگ گھر جا سکتے ہیں۔ ایک دم مجھے سکون کی سانس ملی کہ جان چھوٹی، ورنہ جانے کیا کیا جُرم گلے پڑجاتے‘‘۔ بابر سانس لینے کیلئے رکا۔
’’کہانی کیا تھی؟۔ ‘‘ میں نے جھٹ پوچھا۔
’’کہانی یہ تھی سر جی کہ گمشدہ لڑکی اپنے شوہر سے طلاق لینا چاہتی تھی۔ یعنی خُلع۔ اُس کیلئے وہ کورٹ کے چکر لگا رہی تھی۔ وہاں اُس کی ملاقات ایک فراڈ جعلی وکیل عورت سے ہوئی۔ جِس نے اُس سے کہا وہ اُس کو خُلع دلوا دے گی۔ بس وہ اُس کے کہنے پر چلتی رہے۔ چار چھ چکروں کے بعد جعلی وکیل عورت نے لڑکی کو لارا دیا کہ خُلع میں دشواری آرہی ہے۔ وہ کچھ دِن کیلئے اپنے گھر سے نکل کے روپوش ہو جائے اور اُس کے رہنے کا انتظام بھی وہ کردے گی۔ اُس جعلی وکیل نے ہماری کالونی میں پہلے کسی سے بات کی لڑکی کے رکھنے کی۔ پھر رکشے والے کو پھانسا۔ کالونی کے رہائشی کو یہ کہا کہ اُس کو کوئی بے سہارا دور دراز کی عزیز ہے۔ جِسے وقتی پناہ چاہئے۔ لیکن رکشے والے کو اُس نے دو لاکھ کا لالچ دیا کہ وہ پہلے لڑکی کو ہماری کالونی میں چار چھ دِن کیلئے چھوڑ دے۔ پھر اُسے پنجاب چھوڑ آئے تو اُسے دولاکھ ملیں گے۔
وہ جعلی وکیل عورت اُس لڑکی کو بیچنا چاہ رہی تھی۔ پولیس والوں نے چار چھ گھنٹوں میں اُس رکشے والے سے سب کچھ اُگلوا لیا۔ یہ تھی کہانی۔ جِس نے تھانے کا چکر لگوا دیا۔ تھانے سے تو رات میں واپسی ہوگئی تھی۔ لیکن جب سے اب تک محلّے والوں نے عاجر کردی ہے زندگی۔ جنرل اسٹور کا کام ہے۔ محلّے کی دکان ہے۔ روزانہ ہر کوئی آآ کر پوچھتا ہے کیا چکر تھا۔ کیا بات تھی۔ یہاں تک کہ ایک دو لوگوں نے یہ بھی کیا ہم نے سُنا ہے آپ نے دوسری شادی کرلی ہے۔ اور لڑکی بھگا کر شادی کی ہے۔ کان پک گئے میں میرے۔ اوٹ پٹانگ باتیں سُن سُن کر۔ اتنی کوفت تو مجھے تھانے میں بھی آٹھ گھنٹے گزارنے پر نہیں ہوئی تھی۔ جتنی آٹھ دِنوں میں محلّے کے لوگوں کی باتوں اور تبصروں سے دماغ خراب ہوگیا ہے۔
آپ صحیح کہتے تھے سر! کہ آدمی کو کبھی بھی بہت زیادہ سوشل نہیں ہونا چاہئے۔ ہر شخص ہماری سوچ کے مطابق نہیں ہوتا۔ لوگوں کی سوچ بڑی عامیانہ اور گھٹیا ہوتی ہے۔ آدمی اپنے کام سے کام رکھے۔ لوگوں کے کام آتا رہے، لیکن وہی بات جو آپ نے کہی تھی ایک بار کہ آدمی اگر خود دنیا کے دریا میں ڈوبا ہوا ہو تو وہ دوسروں کو ڈوبنے سے کیسے بچائے گا۔‘‘
بابر تو یہ سب کچھ کہہ سن کر اور اپنی دوا کا پرچہ لِکھواکر چلا گیا۔ لیکن مجھے سوچ میں ڈال گیا اور سوچ بھی کیسی۔ جو کئی جہتوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ہماری پولیس کے اچھے پہلوئوں پر بہت کم باتیں سامنے آتی ہیں۔ اِس قصّے سے پولیس کی Efficiency اور لڑکی کے پنجاب پہنچنے سے پہلے ہی Recovery اور Investigation اور بے گناہ لوگوں کو تنگ نہ کرنا سامنے آیا۔ بہت کم ایسی مثبت مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
دوسری طرف جو سب جگہ ہورہا ہے۔ اُس کی بھی گھنائونی تصویر سامنے آئی۔ ایک عورت دوسری عورت کو چند پیسوں کیلئے بیچ رہی ہے اور وہ بھی عدالت اور وکالت کے پیشے کو بدنام کرتے ہوئے۔ اور لالچ۔ اِنسانی زندگی اور عزّت کی کوئی اہمیت نہیں۔ جو معصوم اور بے وقوف مِلا اُسے Exploit کرڈالاجائے۔
ہمارے الیکٹرونک میڈیا کی کرم فرمائیوں نے ہمارے معاشرے کی معصوم اور بے وقوف عورتوں کو نام نہاد آزادی کے نام پر ڈراموں کے ذریعے جوپرو پیگنڈا کیا ہے۔ اُ س کے تحت نا سمجھ اور کم فہم عورتیں خصوصاًََ نوجوان لڑکیاں طلاق اور خُلع کو فیشن کے زُمرے میں لے رہی ہیں اور روزانہ ان گنت گھر اِس نام نہاد آزادی کے نام پر تباہ و برباد ہورہے ہیں۔ روزانہ طلاق اور خُلع کے جانے کتنے Cases کورٹ میں File ہورہے ہیں۔ اُس کا صحیح حساب تو کورٹ کچہری والے دے سکتے ہیں لیکن ابھی چند ماہ پہلے ہی میرے عزیز دوست ایڈووکیٹ اسلم مفتی جب مجھ سے مِلنے آئے تھے اور ہم کئی گھنٹے ساتھ بیٹھے تھے۔ تو اُنہوں نے بتایا تھا کہ روزانہ اُن کے آفس میں ہی کم از کم چار پانچ درخواستیں طلاق اور خُلع کے حوالے سے ہی آرہی ہیں۔ یہ ایک وکیل کا بیان تھا اور ہمارے شہر میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
میاں بیوی کے مابین Understanding نہ ہونا کچھ انوکھا نہیں۔ انوکھی بات یہ ہے کہ ہم آہنگی نہ ہونے کے باوجود دونوں فریق ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے زندگی گزاریں اور مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اندر سے اور بہت سی باتوں کی طرح برداشت کا مادّہ بھی ختم ہوچکا ہے۔ ہم بھول چُکے ہیں کہ دنیا کے ہر معاملے میں کامیابی کا راز صِرف اور صِرف برداشت میں ہے۔ جِس نے مشکل وقت صبر و رضا کے ساتھ برداشت کرلیا، وہ کامیاب ہوگیا اور جو برداشت نہ کرسکا۔ وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔