بزرگوں کا مزاح اور نکات

بزرگوں کی سادگی
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی مجلس میں جعلی پیروں کا ذکر ہورہا تھا۔ اس پر حضرتؒ نے فرمایا کہ ہم نے تو اپنے بزرگوں کو دیکھا اور سنا کہ ان میں تصنع اور بناوٹ کا نام و نشان نہیں تھا۔ دیکھنے والا اگر ان کی نجی زندگی دیکھے تو وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکتا تھا کہ یہ کوئی بڑے عالم اور بزرگ ہیں۔
ایک مجلس میں فرمایا کہ مجھے مولانا محمد قاسم صاحب قدس سرہٗ کا ایک لطیفہ یاد آگیا، مولاناؒ کی عادت تھی جب غریب لوگ مہمان ہوتے تو ان کو عمدہ کھانے پلائو، زردہ، قورمہ وغیرہ کھلاتے تھے اور جب امیر لوگ مہمان ہوتے تو ان کو دال، ساگ، چٹنی وغیرہ کھلاتے۔ اس کی وجہ یہ بیان فرماتے تھے کہ ’’ہر نئی چیز لذیذ ہوتی ہے۔‘‘ غریبوں کے لیے پلائو، قورمہ لذیذ ہوتا ہے اور امیروں کے لیے ساگ، دال اور سبزیاں نئی ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کو ان میں لذت آتی ہے، مگر حضرتؒ فرماتے ہیں کہ یہ وجہ تو لوگوں کو سمجھانے کے لیے تھی۔ ورنہ اصل وجہ یہ تھی کہ حدیث میں ہے کہ ’’حق تعالیٰ فقرا مہاجرین کو اغنیاء (امیروں) سے پانچ سو برس پہلے جنت میں داخل کریں گے۔‘‘ غربا سے محبت تھی، اس لیے ان کی زیادہ خاطر مدارات کرتے تھے، کیونکہ یہ عمدہ کھانے ان کے کھانے میں کم آتے ہیں۔
فرمایا: ’’اس پر مولانا (نانوتویؒ) کا ایک اور واقعہ یاد آگیا۔ ایک مرتبہ مولاناؒ کی مجلس میں احباب جمع تھے اور سنا ہے کہ جب یہ حضرات کہیں جمع ہو جاتے تو اکثر مٹھائی کی فرمائش ہوا کرتی تھی۔ سنا ہے کہ جب حضرت حاجی صاحبؒ (حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ) تھانہ بھون میں تھے، تو صبح کا اشراق وغیرہ سے فارغ ہو کر اپنے حجرے میں سے مٹھائی کی ہنڈیا نکالتے اور حضرت حافظ ضامن شہیدؒ اور مولانا شیخ محمد صاحبؒ وغیرہ سب مل کر مٹھائی کھایا کرتے تھے، پھر اس میں باہم چھینا جھپٹی بھی ہوا کرتی تھی، کوئی ہنڈیا اٹھا کر بھاگ جاتے۔ دوسرے ان کے پیچھے بھاگتے۔ حالانکہ یہ حضرات اپنے زمانے کے مسلّم الثبوت مشائخ تھے، مگر ان کی معاشرت ایسی سادہ تھی، جس میں تصنع و تکلف کا نام نہ تھا اور نہ ان کو نام و نمود کی پروا تھی۔
فرماتے تھے حق تعالیٰ جس کو عزت دیتے ہیں، اسے نہ جبے، قبے اور عماموں کی ضرورت ہے اور نہ قیمتی لباس کی، یہ عزت وہبی ہوتی ہے۔ یعنی خدا کی عطا ہوتی ہے اور کسبی عزت (یعنی اپنی عزت بڑھانے کے لیے بزرگی جتانا) عارضی ہوتی ہے اور اس کا اثر نہیں ہوتا اور فرماتے کہ حق تعالیٰ سے دور ہے وہ عزت اور وقار جس کے لیے کوشش کرنی پڑے۔
راقم عرض کرتا ہے میرے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیعؒ کو جن لوگوں نے دیکھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ ان کا لباس معمولی کپڑے کی چہار گوشہ ٹوپی اور سفید کرتا اور جودھپوری جوتے یا چپل تھا۔ گھر کا سودا سلف خود لے آتے، گھر میں اور گھر سے باہر ایسے رہتے تھے کہ جیسے انہیں یہ معلوم ہی نہ ہو کہ وہ بڑے عالم اور مفتی ہیں۔ جبے اور قبے جو علماء و مشائخ کی علامت سمجھے جاتے ہیں، ان سے بہت گھبراتے تھے اور اپنے ان بزرگوں کا ذکر آجاتا تو والہانہ انداز میں ان کے واقعات سناتے تھے۔
الفاضل للقاسم
چنانچہ حضرت مولانا قاسم صاحبؒ سے ایک مرتبہ فرمائش ہوئی کہ مٹھائی کھلایئے۔ مولاناؒ نے اپنے ایک قریبی خادم مولوی فاضل سے ایک روپے کی مٹھائی منگوائی۔ مٹھائی آگئی تو ان سے فرمایا کہ تم تقسیم کر دو۔ انہوں نے سب احباب میں مٹھائی تقسیم کی۔ لوگوں نے مٹھائی کھالی تو کچھ مٹھائی بچ گئی (غور فرمایئے، ایک روپے کی مٹھائی اتنی آئی کہ سب حضرات کے کھانے کے بعد بھی کچھ مٹھائی بچ گئی، کیسا سستا زمانہ تھا۔ آج کل ایک روپے کا سکہ تو ہے، مگر اس سے آپ ٹافی بھی نہیں خرید سکتے، یہ اس مجلس کا ذکر ہے، جو آج سے 97 سال پہلے ہوئی تھی، زمانے کی یہ تبدیلی بھی کتنی عظیم ہے۔)
غرض جب مٹھائی تقسیم ہو چکی اور مٹھائی بچ گئی تو مولانا محمد قاسمؒ صاحب نے ایک جملہ لطیفہ کے طور پر فرمایا: ’’الفاضل للقاسم‘‘ (فاضل قاسم کے لیے ہے) یہ عجیب ذو معنی جملہ ہے۔ اس جملے کے ایک معنی تو یہ ہوئے کہ فاضل (بچا ہوا) قاسم (تقسیم کرنے والے کا ہے)۔ دوسرے معنی یہ ہوئے کہ مولوی فاضل مولانا قاسمؒ کے ہیں، یعنی تم میرے ہو۔ مولوی فاضل نے حضرت قاسمؒ کی خوش طبعی کو دیکھ کر فرمایا: ’’الفاضل للفاضل والقاسم محروم‘‘ بچا ہوا فاضل کے لیے ہے اور تقسیم کرنے والا محروم ہے۔ مطلب یہ کہ بچی ہوئی مٹھائی اس شخص کے لیے ہے جو فاضل یعنی فضیلت والا ہے، یعنی حضرت قاسمؒ جو فضیلت والے ہیں اور تقسیم کرنے والا محروم ہے۔ یعنی مولوی فاضل جو تقسیم کررہے تھے، وہ محروم ہیں اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ فاضل مٹھائی فاضل کی یعنی میری اور مولانا محمد قاسمؒ محروم ہیں۔ بظاہر یہ جملہ بے ادبی کا ہے، لیکن بزرگوں کے خادم بے ادب نہیں ہوتے۔ بے ادبی اس کو کہتے ہیں جس سے مخدوم کو تکلیف ہو۔ مولوی فاضل دیکھ رہے تھے کہ مولانا قاسمؒ اس وقت مزاح فرما رہے ہیں، کیونکہ انہوں نے ہی پہلا جملہ لطیفہ کا فرمایا تھا۔ اس لیے انہوں نے بھی ذو معنی جملہ استعمال کر دیا۔ اس میں بے ادبی کی کوئی بات نہیں ہے۔ سو دیکھئے اہل علم کا مزاح بھی علمی نکات کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ (ایک روپے کی مٹھائی میں وہ مزہ نہ آیا ہو گا، جو اہل مجلس کو اس لطیفے کے سننے میں مزہ آیا ہو گا۔ راقم)
حضرت مجدد الف ثانیؒ کی دعا
حضرت تھانویؒ نے حضرت مجدد الف ثانیؒ کا ایک عجیب واقعہ نقل فرمایا ہے۔ ان کے زمانے میں ایک بزرگ تھے جو صاحب سلسلہ تھے۔ (حضرت مجددؒ بڑے صاحب کشف بزرگ تھے، ان کے اکثر کشف صحیح ہوتے تھے۔ راقم) یہ بزرگ بڑے شیخ تھے اور ان سے بہت فیض جاری تھا۔ حضرتؒ کو ان بزرگ کے بارے میں یہ کشف ہوا کہ ان کا خاتمہ شقاوت پر ہوگا۔ (یعنی اسلام پر خاتمہ نہیں ہو گا)۔ حضرت مجدد صاحبؒ یہ دیکھ کر تڑپ ہی تو گئے کہ ایسا صاحب فیض شخص اور میرے رسولؐ کی امت کا ایک شخص شقی ہو کر مرے اور وہ شخص بھی کیسا جس سے ہزاروں کو دین کا فیض ہو رہا ہے۔
آپؒ نے اس کے لیے دعا کرنی چاہی، مگر ڈر لگا کہ اس میں حق تعالیٰ کی مزاحمت نہ ہو کہ تقدیر مکشوف ہونے
کے بعد بھی اس کے خلاف دعا کرتا ہے، پھر حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانیؒ کا ایک مقولہ یاد آیا کہ میں وہ شخص ہوں کہ حق تعالیٰ سے کہہ کر شقی کو سعید کرا سکتا ہوں۔ (اس سے تقدیر کو بدلنا مراد نہیں ہے، اس کی وضاحت آگے آرہی ہے۔ راقم) اس پر مجدد صاحبؒ کو بھی ہمت ہوئی کہ ایسی دعا کرنا خلاف ادب نہیں ہے۔ چنانچہ پھر تو آپ نے اس کے لیے بہت دعائیں کیں اور پوری کوشش کی کسی طرح حق تعالیٰ اس کی شقاوت کو سعادت سے بدل دے۔ یہاں تک کہ (کچھ عرصہ بعد) آپ کو کشف میں دکھایا گیا کہ حق تعالیٰ نے ان کو سعید کر دیا، تب آپ کو چین آیا۔ تو دیکھئے حضرت مجدد صاحبؒ نے اس شخص پر کتنا عظیم احسان فرمایا، مگر اس شخص کو خبر بھی نہ تھی کہ میرے واسطے کسی شخص کے دل پر کیا گزر رہی ہے، راتوں کی نیند اس کی اڑ گئی ہے اور وہ الحاح و زاری کے ساتھ ان کے لیے دعا کر رہا ہے۔
اشکال اور اس کا جواب
یہاں یہ شبہ ہوتا ہے کہ تقدیر کیسے بدل گئی، جبکہ قرآن کریم میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’میرے یہاں قول نہیں بدلتا۔‘‘ حضرت مجدد صاحبؒ نے اس شبہ کا جواب بھی خود ہی دیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے لوح محفوظ میں بعض امور ظاہر مطلق ہوتے ہیں، لیکن ان کا لوح محفوظ میں ذکر نہیں ہوتا، وہ صرف حق تعالیٰ کے علم میں ہوتے ہیں اور ان میں کوئی قید ہوتی ہے، تقدیر علم الٰہی کا نام ہے اور علم الٰہی لامحدود ہے۔ (پھر حدیث کا مفہوم ہے کہ کسی شخص کو بھی یہ علم نہیں ہوتا کہ وہ شقی سے یا سعید۔ جیسا کہ یہ بزرگ اس بات سے واقف نہیں تھے کہ ان کا انجام شقاوت ہے۔ وہ تو فیض رسانی میں یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ میں مسلمان ہوں اور حسن خاتمہ کا گمان رکھتے ہوں گے)
حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ بزرگ حضرت مجدد صاحبؒ کے معتقد تھے، کیونکہ اگر ان کو حضرت مجددؒ نہ بتاتے تو وہ ان کو اس احسان کی اطلاع کیسے ہوتی۔ ان بزرگ کا نام پورے قصے میں کہیں نہیں آیا ہے۔ (اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت مجدد صاحبؒ یا حضرت تھانویؒ نے غالباً قصداً نام نہیں ذکر کیا کہ اس میں ان کی رسوائی کا گمان تھا۔ راقم)
بزرگ کی سلامت فکر
ان بزرگ کی بزرگی بھی قابل تقلید ہے کہ انہوں نے حضرتؒ کے احسان کو تسلیم کیا اور کوئی اعتراض نہیں کیا۔ کوئی اور ہوتا تو مخالفت اور عناد پر اتر آتا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ کسی بڑے بزرگ اور شیخ سے کہیں کہ حضرت! آپ جہنمی اور شقی ہیں۔ ان کے معتقدین ایسا کہنے والے کی جان کے درپے ہو جاتے اور خود یہ بزرگ بھی غصہ سے آگ بگولا ہو جاتے۔
اس واقعے سے ایک دوسری اہم بات یہ معلوم ہوئی کہ خدا کے نیک بندے صرف اپنے لیے یا اپنے گھر والوں ہی کے لیے دعا نہیں کرتے، بلکہ تمام مؤمنین اور مؤمنات کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ پتہ نہیں کتنے شقی لوگ ان کی دعا سے سعید ہوتے ہوں گے۔ گناہ گاروں پر ان کی شفقت بہت زیادہ ہوتی ہے، ہمیں خبر تک نہیں ہوتی کہ ہمارے لیے کہاں کہاں اور کتنے بزرگ دعا کرتے رہتے ہیں۔
ہمارا عمل تو کھوٹا سکہ ہے۔ نہ نماز، روزہ درست ہے اور نہ معاش و معاملات اس قابل ہیں کہ نجات دلا سکیں۔ الحمد للہ! ایمان کی دولت ہے، وہ بھی کمزور ہے۔ بس اللہ تعالیٰ کسی بزرگ کی دعا اور اپنی رحمت سے بیڑا پار کر دے تو بڑی کامیابی ہے۔٭

Comments (0)
Add Comment