’’ارے تم لوگوں کو کیا پتہ کہ پاکستان کیا ہے اور یہ پرچم کیا ہے… یہ ہم سے پوچھو، جنہوں نے آگ اور خون کے دریا پار کئے ہیں، ہمیں دیکھو جب ہم پاکستا ن کے لئے چلے تھے تو پورے پینتیس افراد تھے اور جب والٹن پہنچے تو کھئوں کھئوں کھئوں صرف تین تھے تین…‘‘ چچا وحید کھانسنے لگے اور اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں سیلانی کے چہرے پر مرتکز کرتے ہوئے پوچھا: کتنے بچے تھے؟ سیلانی نے تھوک نگل کر آہستگی سے جواب دیا:
’’جی جی، صرف تین‘‘
چچا وحید ان پاکستانیوں میں سے ہیں، جو پاکستان بننے سے پہلے بھی پاکستانی تھے۔ سیلانی کو ان بزرگوں سے ملنے کی بڑی خواہش رہتی ہے، اس کی کوشش ہوتی ہے کہ قومی تہواروں پر کسی نہ کسی مہاجر بزرگ سے ملاقات ہو اور وہ ان کی داستان پاکستانیوں کو بتا سکے کہ جس ملک میں وہ برے بھلے جیسے بھی رہ رہے ہیں، وہ کتنی قربانیوں کا ثمر ہے۔ چچا وحید سے سیلانی کی ملاقات اتفاقاً ہوئی تھی، وہ ٹریفک جام سے بچنے کے لئے مزار قائد کے سامنے لائینز ایریا کی بھول بھلیاں گلیوں میں جا گھسا تھا، وہ لکی اسٹار صدر کی طرف نکلنا چاہتا تھا، لیکن گلیوں میں راستہ بھول کر ایک بند گلی میں جا گھسا، جہاں ایک اسٹال پر کرتا پاجامہ میں ملبوس ایک سفید ریش بزرگ لڑکوں پر بگڑ رہے تھے، اسٹال پر جشن آزادی کے حوالے سے قومی پرچم، جھنڈیاں، جھلملاتی لڑیاں، بیجز اور اسی طرح کی اشیاء فروخت ہو رہی تھیں۔ جانے کیا بات ہوئی تھی کہ وہ بگڑ گئے، شاید ان کے گھر کے سامنے بچے خوفناک باجے بجا کر شور کررہے ہوں گے، چائنا کے خوفناک باجے شور بھی تو بھیانک کرتے ہیں، سر میں درد ہونے لگتا ہے۔
سیلانی نے موٹر سائیکل روک کر گھر کے سامنے شلوار بنیان میں ملبوس اکڑوں بیٹھے نوجوان سے راستہ پوچھنے کی مدد چاہی، لیکن وہ آسمان کی طرف منہ کرکے غڑ غڑغوں غوں کرکے رہ گیا۔ سیلانی کو کیا کسی کو بھی خاک سمجھ نہ آتا بس، سیلانی اتنا ہی سمجھ سکا کہ جناب نے منہ میں گٹکا بھر رکھا ہے، قریب ہی ایک ادھیڑ عمر خاتون بھی ہاتھ میں دھنیا لئے کھڑی تھیں۔
’’اماں! یہ صدر کا راستہ ذرا بتائیں گی؟‘‘
’’اے ہے یہ اماں کسے کہا؟ میں اماں کہاں سے آگئی، تم سے دو چار سال ہی تو بڑی ہوں گی، منہ اٹھا کر آگئے اماں صدر کا راستہ بتائیں۔‘‘ انہوں نے ہاتھ نچا نچا کر سیلانی کو ٹھیک ٹھاک سنا دیا، سیلانی خاموشی سے آگے بڑھا اور جشن آزادی کی آرائشی اشیاء بیچنے والوں کے پاس چلا آیا، جہاں وہ بزرگ بگڑ رہے تھے، وہ ان لڑکوں سے کہہ رہے تھے:
’’اب اگر یہ پرچم میز کے نیچے زمین پر رکھے نظر آئے ناں تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا، یہ کوئی میلی صافی یا ٹشو پیپر ہے، جو اٹھا کر نیچے رکھ دیا، یہ ہمارا پرچم ہے، پاکستان کا پرچم ہے، اسے عزت کے ساتھ رکھو، خبردار جو زمین پر رکھا، گھر سے میز نکالو‘‘۔
بزرگوار کی یہ بات سن کر سیلانی چونک اٹھا، اس نے موٹر سائیکل کا انجن بند کر دیا اور اسے ایک طرف کھڑا کرکے اس بزرگ کی طرف بڑھا، سیلانی کو یوم آزادی کا کالم مل گیا تھا۔
’’السلام علیکم‘‘
’’بھائی وعلیکم السلام‘‘
’’آپ سے کچھ وقت مل سکتا ہے؟‘‘
’’انشورنس پالیسی بیچنی ہوگی، ارے بھائی ہمارا تو چل چلاؤ کا وقت ہے، اب کیا انشورنش کرائیں؟‘‘
’’نہیں نہیں، میں انشورنس والا نہیں، ایک صحافی ہوں۔‘‘
’’ہائیں! تو بھئی صحافی کو ہم سے کیا کام پڑ گیا۔‘‘ انہوں نے عینک درست کی اور حیرت سے سیلانی کی طرف دیکھنے لگے۔
’’مجھے بس تھوڑا سا وقت چاہئے، میرا خیال ہے کہ آپ ہجرت کرنے والوں میں سے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ہجرت کے دوران آپ نے جو کچھ دیکھا، وہ جان سکوں، میں اسے نئی نسل تک پہنچانا چاہتا ہوں۔‘‘ سیلانی کی بات پر وہ چونک پڑے، ان کی بوڑھی آنکھوں میں
چمک سی آگئی، انہوں نے سیلانی کا بغور جائزہ لیا اور گویا ہوئے: ’’آ ؤ‘‘
لائینز ایریا کراچی میں مزار قائد کے سامنے کی غریب آبادی ہے، یہاں چھوٹے چھوٹے 80 گز کے مکانات ہیں، یہ مہاجرین پاکستان کی آبادی ہے، جس میں ہجرت کرنے والے بزرگ اب کم ہی رہ گئے ہیں، وہ بزرگ سیلانی کو ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گئے، جس کا بڑا حصہ وہاں پڑے تخت نے گھیر رکھا تھا، بچ رہنے والی جگہ بس اتنی تھی کہ دو کرسیاں رکھی جا سکتی تھیں۔
’’بیٹھو اور یہ بتاؤ چائے پیو گے یا کوئی شربت بنواؤں؟‘‘
’’نہیں نہیں، کسی تکلف کی ضرورت نہیں، بس کچھ دیر آپ کے پاس بیٹھوں گا۔‘‘
’’تکلف کیسا، تم اپنی خواہش بتاؤ۔‘‘
’’پھر چائے منگوا لیں۔‘‘
وہ اس چھوٹے سے کمرے کے دروازے کا پردہ ہٹا کر اندر چلے گئے، ان کی صحت قابل رشک تھی، بنا کسی لاٹھی اور سہارے کے چل رہے تھے، وہ تھوڑی دیر بعد ہی آگئے اور تخت پر بیٹھتے ہوئے کہنے لگے ’’بھائی ہم وحید الدین ہیں، ذات کے پٹھان اور خاندانی سپاہی ہیں، دادا پردادا کسی زمانے میں کابل سے ہجرت کرکے حیدر آباد آئے تھے اور ریاست کی سپاہ میں شامل ہوئے تھے، پھر ان کے بعد ان کے بیٹے اور ان کے بیٹوں کے بیٹے یہی کچھ کرتے رہے، ہم نے بھی یہی کرنا تھا، حیدر آباد کی فوج میں بھرتی ہونا تھا، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا‘‘۔ وہ یہ کہتے ہوئے خاموش ہوگئے، وہ ماضی کو آواز دے رہے تھے، جملوں کو ترتیب میں رکھ رہے تھے، قدرے خاموشی کے بعد وحید الدین صاحب کی آواز نے کمرے میں پھیلا سکوت توڑ دیا۔
’’میرے والد سعید الدین حیدر آباد کی سپاہ میں تھے، وہ کوئی بڑے افسر نہیں تھے، لیکن بڑے انسان تھے، حیدر آباد میں عثمانیہ جنرل اسپتال کے پیچھے ہمارا گھر تھا، جسے سب بڑا گھر کہتے تھے، کیوں کہ میرے والد بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، اس لئے ہمارا گھر بھی سب کے لئے بڑا گھر ہو گیا، مجھے ابھی تک یاد ہے اس میں ایک طرف کنواں اور بیچوں بیچ برگد کا بہت بڑا درخت تھا، جس پر جھولا پڑا رہتا تھا، کیا بڑے اور کیا بچے سب ہی جھولا جھولتے رہتے تھے اور ہاں اس کنویں سے پورا محلہ پانی بھرتا تھا، کیا ہندو اور کیا جین، سب کے لئے گھر کے دروازے کھلے رہتے تھے، سب آکر پانی لے جاتے تھے، اس کنویں کا پانی بہت ٹھنڈا اور میٹھا تھا، سب کہتے تھے خان صاحب کے کنویں کی مثال نہیں اور پھر جو ہمارے ساتھ ہوا، اس کی بھی مثال نہیں۔‘‘ وحید الدین صاحب ٹھنڈی سانس بھر کر ایک بار پھر چپ ہوگئے، اتنے میں ایک نو دس برس کا لڑکا چائے کا کپ اور دو باقر خانیاں لئے آگیا۔
’’لو بھائی! چائے پیو۔‘‘
سیلانی نے شکریہ ادا کرتے ہوئے چائے کا کپ اٹھا لیا اور چھوٹی سی چسکی لیتے ہوئے منتظر نظروں سے وحید الدین صاحب کو دیکھنے لگا ’’ہاں تو بھائی! میرا بچپن اسی گھر میں گزرا، وہیں میں پاؤں پاؤں چلا اور میں نے دوڑنا سیکھا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب تحریک پاکستان زوروں پر تھی، اچھا میں اپنی عمر بتادوں، میری 1936ء کی پیدائش ہے، بیاسی برس کا ہو رہا ہوں، جب بٹوارہ ہوا تب میں دس برس کا تھا، مجھے سب کچھ تو یاد نہیں، لیکن بہت کچھ یاد ہے، ہمارے محلے میں ہندو اور مسلمان برابر تھے، تقریباً سارے مسلمان مسلم لیگ کے حامی تھے اور سارے ہندو کانگریس میں تھے، چالیس کے بعد پاکستان کے خدو خال واضح ہونا شروع ہوگئے تھے، ہندو مسلم کشمکش نے رنگ دکھانا شروع کر دیا تھا، اب چٹیا والے براہمن زادے ہمارے ساتھ نہیں کھیلتے تھے، برگد کے درخت پر جھولا جھولنے کے لئے بھی ہندو بچے نہیں آتے تھے، میرا ایک دوست تھا نٹو لعل۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ تو کھیلنے کیوں نہیں آتا؟ تو اس نے منہ بنا کر کہا: پتا جی نے سختی سے منع کردیا ہے۔ پتا جی کہتے ہیں: خان صاحب مسلمان اور مسلم لیگ والے ہیں۔ میں نے اس سے کہا مسلمان تو ہم پہلے بھی تھے، جس پر اس نے کہا لیگ والے تو نہیں تھے ناں…‘‘ اتنا کہہ کر وحید الدین صاحب نے سیلانی کی توجہ باقر خانیوں کی جانب دلائی ’’بھائی! یہ لو ناں، بڑی خستہ باقرخانیاں ہیں۔‘‘
’’ضرور شکریہ!‘‘ سیلانی نے باقر خانی لی اور ایک بار پھر ان کی طرف بے چینی سے دیکھنے لگا۔ وہ جاننا چاہ رہا تھا کہ پھر ہوا کیا، اسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ وحید الدین صاحب کہنے لگے ’’حیدر آباد میں ہندوؤں کی آبادی مسلمانوں کی نسبت زیادہ تھی، لیکن ریاست مسلمانوں کی تھی، ریاست کے شاہی خاندان کا بھی قائد اعظم کی طرف واضح جھکاؤ تھا، اگرچہ وہ جانتے تھے کہ حیدر آباد کا محل وقوع ایسا ہے کہ اس کا پاکستان میں شامل ہونا کرشمہ ہوگا، اس کے باجود وہ کھل کر مسلم لیگ کی حمایت کرتے تھے، وہاں کے مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود بھی لیگ کے بڑے زبردست حامی تھی۔ 1940ء کے بعد تحریک پاکستان میں بڑی تیزی آ گئی تھی، ہم بچوںکا معمول تھا شام ہوتے ہی مسلم لیگ کے سبز پرچم لئے نعرے لگاتے ہوئے محلے میں مارچ کرتے تھے، اس وقت لیگ کے بڑے جلسے ہوتے تھے۔ حیدر آباد کے مسلمان خوب جوش و خروش سے جلسوں میں شریک ہوتے، سب کے لئے پاکستان ایک جنون بن چکا تھا۔ خیر سینتالیس میں بٹوارہ ہو ہی گیا، پاکستان بن گیا، اب دنگے فساد کی اطلاعات آنا شروع ہو گئی تھیں، مہاجرین کے قافلوں پر حملے ہو رہے تھے، بستیوں کی بستیاں جلائی جا رہی تھیں، ان بلووں میں سکھ کسی سے پیچھے نہ تھے، وہ ہم سے ماضی کا حساب صاف کر رہے تھے۔ حیدرآباد میں بھی بڑی کشیدگی تھی، میرے والد صاحب سے خاندان والوں نے پوچھا کہ کیا کریں؟ انہوں نے کہا کہ کرنا کیا ہے، پاکستان جانا ہے، لیکن اس طرح منہ اٹھا کر نہیں جائیں گے، نیا ملک ہے، نئی جگہ ہے، بچے عورتیں ساتھ ہیں، انتظام کرکے چلیں گے، اس انتظام میں سال بھر بیت گیا اور پھر انیس سو اڑتالیس کا وہ منحوس دن بھی آگیا، جب حیدر آباد میں مسلم کش فسادات ہوئے، چالیس سے پچاس ہزار مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیا گیا تھا، بلوے شروع ہوئے تو والد صاحب نے اپنے تینوں بھائیوں، دونوں بہنوں کے خاندانوں کے ساتھ نکلنا چاہا، لیکن وہی لوگ جو ہمارے گھر سے پانی بھر بھر کر لے جاتے تھے، تلواریں، بھالے چھرے لئے سامنے آگئے، والد صاحب نے بندوق نکال لی کہ جس کو موت پیاری ہو، سامنے آجائے، کوئی بھی سامنے نہ آیا، انہوں نے پتھر بازی شروع کر دی، پھر ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا گیا، بلوائی اڑوس پڑوس سے ہمارے گھر میں کودنے لگے، آگ کے گولے پھینکے۔ والد صاحب اور چچاؤں نے بے جگری سے مقابلہ کیا، لیکن سینکڑوں سے کیا مقابلہ ہوتا۔ وہ ایک ایک کو کاٹ کاٹ کر پھینکتے رہے، میری پھپھو کی بیٹی سردار باجی کے دوپٹے پر ایک بلوائی کے ہاتھ پڑے تو انہوں نے کنویں میں چھلانگ لگا کر جان دے دی۔ بلوائیوں نے گھر کو آگ لگادی تھی، کسی کا کچھ پتہ نہ تھا، میر ے چھوٹے چچا نے میرا اور اپنے بیٹے سلیم الدین کا ہاتھ پکڑا اور بھاگ اٹھے۔ بس ان پینتیس افراد میں سے ہم تین ہی باقی بچے تھے، باقی سب کو کاٹ کر پھینک دیا اور آگ لگا دی… ہم پینتیس تھے، تین بچے، صرف تین…‘‘ چچا وحید الدین کی بوڑھی آنکھیں بھر آئیں، ان کی عینک کے پیچھے سے بہتے اشک رخساروں سے ہوتے ہوئے سفید داڑھی میںکہیں جذب ہونے لگے۔ وحید الدین صاحب جنہیں سب چچا وحید کہتے ہیں، بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگے۔ ان کے حلق سے ناقابل فہم آوازیں نکل رہی تھیں۔ سیلانی کی آنکھیں بھی بھر آئیں، ان کے سامنے وہ شخص تھا، جو پاکستان کے لئے سب کچھ لٹا کر اس حال میں یہاں پہنچا تھا کہ تن پر صرف کپڑے تھے، تھوڑی دیر بعد چچا وحید نے عینک اتار کر ایک طرف رکھی اور کہنے لگے: ’’پاکستان ایسے ہی نہیں بنا تھا بھائی اور وحید الدین اکیلا نہیں، ہندوستان سے آنے والا ہر شخص ہی وحید الدین ہے، جن میں سے کوئی لٹ پٹ کر والٹن پہنچا تو کوئی کوکھراپار سے کراچی حیدر آباد… بھائی اس وقت جذبہ تھا، قیادت تھی، مشن تھا جو پورا ہوا، لیکن کام پورا نہیںہوا، قائد اعظم نے زمین لے کر دی، لیکن ویسی عمارت نہیں بن سکی، جیسی وہ چاہتے تھے۔ خیر یہ تو بڑوں کی بڑی باتیں ہیں۔ آپ مجھ جیسے بوڑھے کی یہ چھوٹی بات بھی آگے پہنچاؤ کہ یوم آزادی مناؤ، مگر پرچم کی بے حرمتی نہ ہو، پرچم نیچے نہ گرے، اس کا احترام کرو، سچی بات ہے دل دکھتا ہے، اب ان لڑکوںکو ہی دیکھو، جھنڈٖے میز کے نیچے رکھے ہوئے ہیں، بھائی ایک اور میز لے کر اس پر رکھو، یہ کپڑے کا ٹکڑا تھوڑی ہے، پاکستان کی پہچان ہے پہچان…‘‘
چچا وحید جانے کیا کیا کہہ رہے تھے، سیلانی تو حیرت سے ان کا چہرہ تک رہا تھا کہ اس شخص کو اپنے خاندان کے اکتیس افراد کے کاٹ پھینکنے کے دکھ سے زیادہ قومی پرچم کی بے حرمتی کا دکھ ہے، اس نے کسی محرومی کا شکوا نہیں کیا، مہنگائی، غربت، حکومت کی بے اعتنائی کا گلہ نہیں کیا، اپنی المناک کہانی سنائی اور کہا تو یہ کہا کہ اس سبز ہلالی پرچم کی بے حرمتی نہ ہونے دو، نیچے نہ گرنے دو… سیلانی آنکھوں میں احترام لئے بڑبڑاتے ہوئے چچا وحید کو کرتے کے دامن سے عینک صاف کرتے دیکھنے لگا اور دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
٭٭٭٭٭