ڈاکٹر صابر حسین خان
اس سوال نے آپ کو بھی اکثر تنگ کیا ہوگا، اگر ایسا نہیں تو آپ بہت خوش قسمت ہیں کہ آپ آزاد ہیں اور اپنی زندگی میں مطمئن اور خوش و خرم ہیں اور اپنی بھرپور آزادی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، اگر آپ آزاد ہیں تو آپ کو یہ تحریر پڑھنے کی چنداں ضرورت نہیں اور نہ ہی کچھ سوچنے کی اور نہ ہی کچھ کرنے کی کہ قدرت نے آپ کو دنیا کی وہ نعمت عطا کر دی ہے، جو دنیا کے انسانوں میں شاید ہی کسی انسان کو ملتی ہے۔
دنیا کا کوئی بھی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ مکمل آزادی کا مالک ہے، ہم سب بہت سے حوالوں میں خود کو آزاد محسوس کرتے ہیں، لیکن ہزار چاہتوں کے باوجود ہزار حوالے ایسے ہوتے ہیں، جن میں ہم ہزار حوالوں سے پابند ہوتے ہیں، ہزار طرح کی نامرئی زنجیروں سے بندھے ہوتے ہیں، ایسی ایسی فصیلوں کے بیچ قید ہوتے ہیں، جہاں سے رہائی پانا نا ممکن ہوتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ان تمام تر پابندیوں اور زنجیروں میں جکڑے ہونے کے باوجود خود کو آزاد محسوس کرتے ہیں اور خالص اپنی مرضی اور اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہر طرح کی قید سے آزاد ہیں اور ان پر کسی طرح کی پابندی کی کوئی بھی شق لاگو نہیں ہوتی۔ یہ لوگ بظاہر بہت خوش قسمت ہوتے ہیں، مگر ظاہری آزادی کی چکا چوند روشنی میں وہ یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ اول تو کبھی بھی کوئی فرد کلی طور آزاد نہیں ہو سکتا اور دوئم کسی بھی طرح کی آزادی بنا کسی قربانی کے ممکن نہیں۔
آزادی بیرونی ہو یا باطنی، ظاہری ہو یا مخفی، انفرادی ہو یا اجتماعی، معاشی ہو یا معاشرتی، ہر آزادی، قربانی مانگتی ہے، کبھی جان اور مال کی شکل میں، کبھی وقت اور توانائی کی صورت میں، کبھی کبھی اپنی ذات کی نفی کر کے تو کبھی اپنی خواہشات اور اپنے نظریات کو بالائے طاق رکھ کر، کبھی محنت اور جدوجہد کا علم بلند کر کے تو کبھی اپنے نفس پر قابو پا کر۔ ہمیں کسی نہ کسی شکل میں آزادی کی قیمت چکانا پڑتی ہے اور یہی نہیں بلکہ آزادی کے حصول کے بعد اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کیلئے دن رات مستقل مصروف بھی رہنا پڑتا ہے، بصورت دیگر ہماری آزادی بھی مستقل نہیں رہ پاتی اور جلد یا بدیر ہمیں خود کو دوبارہ پابند سلاسل دیکھنا پڑ جاتا ہے، نہ چاہنے کے باوجود زنجیروں میں بندھ جانا پڑتا ہے اور دوسری بار کی قید عام طور پر جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔
تمام عمر قید میں رہنے والوں کو آزادی کے رنگ دیکھنے اور آزادی کا ذائقہ چکھنے کا موقع نہیں ملتا۔ ان کو تمام عمر پتہ نہیں چلتا کہ آزادی کس شے کا نام ہے۔ وہ قید کے کنویں میں تمام عمر گزار دیتے ہیں، سمندر کی لہروں سے کبھی ان کو واسطہ نہیں پڑتا، لیکن ایک بار جو آزادی کا ذائقہ چکھ لیتا ہے، اس کیلئے دوبارہ پابندی، پھانسی کی سزا سے کم نہیں ہوتی، آزادی چھن جانے کے بعد انسان جیتے جی مر جاتا ہے۔ لیکن اس حقیقت کا ادراک شاید ہی کسی انسان کو ہو پاتا ہے، حالت آزادی میں ہم عام طور پر ان قربانیوں کو بھول جاتے ہیں، جو ہم نے یا ہمارے آباؤ اجداد نے آزادی کے حصول کی جدوجہد میں دی ہوتی ہیں اور جوں جوں دن گزرتے ہیں، ہماری یادداشت خراب سے خراب تر ہوتی چلی جاتی ہے، ہم آزادی کے مزوں میں اتنے محو ہو جاتے ہیں کہ ہم اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے بنیادی اصول اور طور طریقے تک بھول جاتے ہیں۔
آزادی گھنے پھل دار چھائوں دینے والے درخت کی طرح ہوتی ہے، ہر شجر کی طرح اسے بھی باقاعدگی سے پانی دیتے رہنا ہوتا ہے، جڑوں میں کھاد ڈالتے رہنا پڑتی ہے، وقفے وقفے سے گدائی کرتے رہنا پڑتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو گھنے سے گھنا درخت کمزور پڑنے لگتا ہے اور ایک وقت آتا ہے، جب پہلے وہ پھل دینا بند کرتا ہے، پھر بھی ہم اپنی غفلت سے نہ جاگیں تو اس کے پتے مرجھانے لگتے ہیں اور پھر آخر میں اس کی شاخیں ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگتی ہیں، بڑے بڑے تناور اور گھنے درخت جب اندر سے جڑوں تک کھوکھلے ہو جاتے ہیں تو ہلکی سی آندھی انہیں زمین بوس کر دیتی ہے۔ آزادی کے گھنے شجر بھی اسی طرح بڑی خاموشی سے اندر ہی اندر کھوکھلے ہوتے رہتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یکدم گر جاتے ہیں۔
درخت ہوں یا انسان، ملک ہوں یا اقوام، سب کو اپنی آزادی برقرار رکھنے کے لیئے ہمہ وقت کسی نہ کسی شکل میں تگ و دو کرتے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس لمحے ہم جدوجہد ترک کرکے خود کو عیش و عشرت کے سپرد کرکے آنکھیں بند کر لیتے ہیں، اسی لمحے سے ہمارے گرد قید کا نادیدہ دائرہ کھنچنا شروع ہو جاتا ہے اور آزادی ہم سے منہ موڑنے لگتی ہے۔ آج تنہائی کے چند لمحات خود کو دیجئے اور سوچئے کہ کیا آج ہم انفرادی اور قومی سطح پر آزاد ہیں؟ کیا آزادی نے ہم سے منہ نہیں موڑ لیا؟ کیا ہمارے گرد قید کا گھیراؤ تنگ سے تنگ تر نہیں ہوتا جا رہا۔ آج کی رات کے چند لمحات اپنی ذات کے احتساب میں خرچ کیجئے اور دیکھئے کہ ہم نے آزادی کی قدر نہ کر کے اپنا کتنا نقصان کیا ہے، اپنی آنے والی نسلوں کو گروی رکھ دیا ہے اور پتہ بھی نہیں کہ ہم نے ایسا کر دیا ہے۔ کبوتر کی طرح ہماری آنکھیں بند ہیں اور ہمارے چونچلے اور کھیل تماشے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔ باتوں، مباحثوں، ڈراموں اور کھانوں سے ہمیں فرصت نہیں۔ ایک دوسرے کا گریبان پھاڑنے کے لیئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ اپنے علاوہ ہر آدمی غلط ہے اور اپنی بڑی سے بڑی غلطی ہمیں تسلیم نہیں۔ اپنا مذہب، اپنی ثقافت، اپنی زبان ہمیں پسند نہیں، ہر شے ہم کو باہر کی بنی چاہئے، بے راہ روی اور بے حیائی کا ہر راستہ ہمیں قبول ہے اور پھر بھی ہم اگر یہ سمجھیں کہ ہم آزاد ہیں تو شاید ہمارے اس نفسیاتی عارضے کا علاج دنیا کے کسی ماہر نفسیات کے پاس نہیں۔
کتنا ہی اچھا ہوتا کہ آج کے دن ہم سب نہیں تو ہم میں سے کچھ ہی اس بات کا عہد کر لیتے کہ ہم آج سے اپنی کھوئی ہوئی پہچان اور آزادی کو ازسرنو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور اپنے گرد اٹھتی دیواروں کو ڈھا کر خود کو اپنی نفسانی خواہشات اور اغیار کے فلسفہ حیات اور نظریات کی قید سے آزاد کریں گے۔ اگر ہم میں سے کچھ لوگ بھی ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو شاید کچھ آگے چل کر کچھ اور لوگ بھی دیکھا دیکھی میں سہی، آزادی کے سفر میں ہمارے ساتھ ہو جائیں گے۔ میں نے تو بنا کسی ذاتی غرض کے چار پانچ نشستوں اور تین چار گھنٹوں میں یہ مضمون انگوٹھے کی مدد سے فون پر ٹائپ کر کے اس سفر کا ایک قدم اور بڑھایا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مضمون کو پڑھ کر آپ میں سے کتنے لوگ بنا کسی غرض کے اپنے قیمتی وقت کا کتنا حصہ آزادی کے حصول کیلئے صرف کر سکیں گے۔ یاد رکھئے گا آزادی قربانی مانگتی ہے اور وقت کی قربانی جان کے بعد سب سے بڑی قربانی ہوتی ہے۔