امریکا کی ذہنی اور مالی غلامی سے نجات کا موقع

انٹرنیٹ کے شعبے کی ایک معروف لیکن بعض حلقوں میں متنازع کاروباری شخصیت کم ڈاٹ کام نے دنیا بھر کے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ امریکی ڈالر پر انحصار ختم کر دیں، کیونکہ یہ جلد ہی زوال کا شکار ہونے والا ہے۔ انہوں نے سرمایہ کاروں کو مشورہ دیا کہ وہ زر یا سونے کی صورت یا کریٹو کرنسیوں میں اپنا سرمایہ لگائیں۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہانگ کانگ میں قائم آن لائن کمپنی میگا اپ لوڈ کے بانی نے ٹوئٹر پر اپنا بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ دنیا کے مختلف ملکوں پر پابندیاں عائد کرنے، جوابی پابندیوں کا شکار ہونے اور خود اپنے بڑھتے ہوئے قرضوں کی وجہ سے امریکا کی بلند و بالا نظر آنے والی معیشت دھڑام سے زمین بوس ہونے والی ہے۔ امریکا کے دیوالیہ ہونے کی وجہ سے دیگر ملکوں کی معیشت بھی شدید منفی اثرات سے دوچار ہو گی۔ یہ سب کچھ مستقبل بعید کی بات نہیں، بلکہ مستقبل قریب میں ہونے والا ہے۔ کم ڈاٹ کام کا کہنا ہے کہ امریکا پر قرضوں کا بوجھ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اس کیلئے انہیں ادا کرنا دشوار سے دشوار تر ہوتا جا رہا ہے۔ امریکی حکومت اپنے ملک کی قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی معیشت پر قابو پانے کے بجائے ہر سال مزید کھربوں ڈالر کے قرضے لے کر اسے مزید تباہی کی جانب دھکیل رہی ہے۔ کم ڈاٹ کام کے مطابق ہر امریکی شہری اوسطاً نو لاکھ اڑتیس ہزار ڈالر کا مقروض ہو چکا ہے۔ کوئی اگر یہ سمجھتا ہے کہ شرح نمو میں اضافہ کر کے قرضوں کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے، یا مزید ڈالر چھاپ کر اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ وہ اس دنیا کے معروضی حقائق سے بے خبر ہے۔ عالمی ماہرین معاشیات ایک مدت سے دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کو خبردار کرتے چلے آ رہے ہیں کہ امریکا کے عروج کا دور لد چکا ہے۔ اس کی معیشت بتدریج اور بڑی تیزی سے زوال آشنا ہے۔ اپنے بھرم کو قائم رکھنے کیلئے امریکی حکومتیں آئے دن دوسرے ملکوں پر پابندیاں عائد کر کے اور انہیں دھمکیاں دیتی رہتی ہیں۔ موجودہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ خود ایک بڑی کاروباری شخصیت ہیں، اس لئے اپنے ملک کی گرتی ہوئی اقتصادی صورت حال سے وہ بے خبر نہیں ہو سکتے۔ انہیں یہ بھی اندازہ ہوگا کہ آئندہ دور اسلحے کی بالادستی کا نہیں، بلکہ معیشت کی ترقی کا دور ہوگا اور عالمی لڑائیاں جنگ کے میدانوں میں نہیں، بلکہ معیشت کے میدانوں میں ہوں گی۔ اپنے ملک کی کمزوریوں پر قابو پانے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے صدر ڈونالڈ ٹرمپ اس بلی کا روپ دھارتے جا رہے ہیں، جو خود سے طاقتور جانور (مثلاً کتے) کو دیکھ کر اپنے بال پھلاتی اور غراتی ہوئی نظر آتی ہے کہ شاید مدمقابل اس کے پھولے ہوئے جسم کو دیکھ کر ڈر جائے۔ حال ہی میں صدر ٹرمپ نے مسلم دنیا کے تیزی سے ابھرتے ہوئے ملک ترکی کے لیرا کو گرانے کی جو پالیسی اپنائی ہے، وہ ان اقدامات کا تسلسل ہے، جو صدر ڈونالڈ ٹرمپ چین اور دوسرے ممالک کی درآمدات پر محصول بڑھا کر اختیار کئے ہوئے ہیں۔
مقام عبرت ہے کہ دنیا بھر میں قرضے دینے اور غریب ممالک کی مدد کا دعویٰ کرنے والا ملک امریکا خود اقتصادی طور پر اس قدر زبوں حالی کا شکار ہے کہ اس کا بچہ بچہ اوسطاً نو لاکھ اڑتیس ہزار ڈالر کا مقروض ہے۔ امریکا پر قرضوں کا حجم اکیس ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس کے قرض خواہوں میں چین سرفہرست ہے۔ اس کے بعد مسلم دنیا کے خلیجی ممالک ہیں، جن کا کثیر سرمایہ امریکی بینکوں میں پڑا ہوا ہے۔ وہ اپنا یہ سرمایہ نکال لیں تو امریکی معیشت برسوں اور مہینوں میں نہیں، ہفتوں اور دنوں میں دھڑام سے نیچے آ سکتی ہے۔ پاکستانی عوام کو امریکا کے اس اقتصادی زوال میں اطمینان کا کم از کم یہ پہلو ضرور نظر آئے گا کہ ان میں سے ہر ایک پر اگر ڈیڑھ لاکھ روپے کا قرضہ ہے، جو ساڑھے بارہ سو ڈالر کے قریب بنتا ہے تو امریکا بہادر کا تو ہر شہری نو لاکھ اڑتیس ہزار ڈالر کا مقروض ہے۔ جن ملکوں کی کرنسی اور لین دین کا انحصار امریکی ڈالر پر ہے، ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اس لئے ہماری اپنی معیشت بھی مسلسل زوال پذیر ہے۔ ان کالموں میں ہم اپنی حکومتوں کو مسلسل متنبہ کرتے چلے آ رہے ہیں کہ امریکا پر سے معیشت اور ڈالر سمیت ہر چیز کا انحصار ختم کر دیا جائے تاکہ ہم سیاسی آزادی اور اقتصادی ترقی کی جانب گامزن ہو سکیں۔ کئی ممالک ڈالر سے جان چھڑا کر کسی دوسری یا خود اپنی کرنسی میں تجارت کرنے لگے ہیں۔ اس لئے ڈالر ایک غیر مستحکم کرنسی بنتا جا رہا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے بھی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا دبائو قبول کرنے یا بلیک میلنگ میں آنے کے بجائے انہیں ٹکا سا جواب دے دیا ہے کہ ان کا ملک دوسرے ممالک کی جانب رجوع کرنے میں آزاد ہو جائے گا۔ ڈالر کے غیر مستحکم ہونے کی وجہ سے روس نے امریکی اثاثہ جات میں سرمایہ کاری کم کر دی ہے۔ امریکا کو معیشت کا آئینہ دکھانے والے کم ڈاٹ کام یوں تو جرمن اور فن لینڈ نژاد ہیں، لیکن فی الوقت وہ نیوزی لینڈ کے شہری ہیں۔ امریکا کی ہر ممکن کوشش ہے کہ کم ڈاٹ کام کو اس کے حوالے کر دیا جائے تاکہ ان پر میگا اپ لوڈ سے متعلق فراڈ کا الزام لگا کر مقدمہ چلایا جا سکے۔ ڈالر کا زوال 2017ء میں تیزی سے شروع ہوا تھا، جبکہ امریکا کے سابق صدر نکسن نے اسے 1973ء میں سونے کی جگہ عالمی کرنسی بنانے کا آغاز کیا تھا۔ 2002ء سے 2012ء کے دوران یورو نے اسے شدید نقصان پہنچایا اور اس کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت چون فیصد سے زیادہ گر گئی تھی۔ مسلم ممالک قدرتی وسائل اور دولت سے مالا مال ہیں، وہ اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے لئے جرأت کا مظاہرہ کریں تو امریکا کی ذہنی اور مالی غلامی سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ ٭

Comments (0)
Add Comment