امیر تیمور کہتا ہے: ’’بہرحال اصفہان کی لڑائی ایسے موڑ پر پہنچ چکی تھی کہ مجھے احساس ہوا جب تک اس شہر میں ایک بھی گھر باقی ہے تو یہ شہر فتح نہیں ہو سکتا۔ غولر بیگ اور جہانگیر اپنے اپنے علاقوں میں عمارتیں ڈھانے اور رکاوٹیں ہٹانے میں مصروف تھے اور میں بھی اپنے علاقے میں یہی کام انجام دے رہا تھا۔ دوپہر کے وقت سورج کی گرمی سے زمین کا کچھ حصہ خشک ہو گیا اور ہمیں اپنا کام سرانجام دینے میں قدرے آسانی ہو گئی۔ رفتہ رفتہ غولر بیگ اور جہانگیر ایک دوسرے سے آ ملے، جس کے بعد انہوں نے مشرق اور مغرب کی جانب پیش قدمی شروع کر دی اور راستے میں آنے والی ہر عمارت مٹاتے چلے گئے۔ میں بھی آگے بڑھتا ہوا ایسے محلے میں جا پہنچا، جہاں سارے گھر لکڑی کے بنے ہوئے تھے۔ ایسے گھروں کو آگ لگا کر آسانی سے مسمار کیا جا سکتا تھا۔ لہٰذا میرے سپاہیوں نے تیل میں بھیگے چیتھڑوں کو آگ لگا کر گھروں میں پھینکنا شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے خوفناک آگ بھڑک اٹھی اور گھروں میں چھپے ہوئے لوگ اپنی جانیں بچاتے بچاتے ہماری تلواروں کی زد میں آگئے۔
اچانک میری نظر لوگوں کے ہجوم پر پڑی، جو ایک عمر رسیدہ باریش شخص کو آگے لیے میری جانب بڑھ رہے تھے۔ اس بوڑھے شخص نے ایک کتاب بھی تھام رکھی تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ قرآن ہے۔ معمر شخص میرے سامنے پہنچ کر بولا: ’’اے امیر، تم ایک سچے مسلمان ہو اس لیے میں تمہیں قرآن مجید کی قسم دیتا ہوں کہ اصفہان کے بقیہ شہریوں کو قتل عام سے معاف کر دو‘‘۔
میں نے سخت لہجے میں جواب دیا: ’’اصفہان کے باشندوں نے میرے سامنے مزاحمت کی ہے، لہٰذا وہ قتل عام ہی کے مستحق ہیں۔ انہوں نے محاصرہ شروع ہونے سے اب تک میرے ہزاروں سپاہیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ میں اپنے سپاہیوں کے خون سے چشم پوشی نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ وعدہ کر سکتا ہوں کہ اگر شہر کے باشندے تسلیم ہو جائیں تو میں ایسے لوگوں کو قتل عام سے معاف کر دوں گا، جو میرے کام آ سکیں‘‘۔
میرا جواب سن کر وہ شخص رو پڑا۔ پھر بولا: ’’اے امیر، بھوک نے اس شہر کے لوگوں کو بے موت مار دیا ہے تو ان بھوکے لوگوں پر رحم کر‘‘۔
میں نے دو ٹوک جواب دیا: ’’یہ لوگ میرے آنے کے بعد شہر کے دروازے کھول کر میری اطاعت کر سکتے تھے۔ ایسی صورت میں ان کی جانیں محفوظ رہتیں۔ لیکن اب جبکہ انہوں نے میرے ہزاروں سپاہیوں کو مار ڈالا ہے تو ان پر رحم کرنا بالکل بے کار ہوگا۔ میں جنگ کے دوران اپنے دشمن پر رحم نہیں کرتا۔ لیکن فی الحال تیرا خون بہائوں گا نہ تیرے ساتھ آنے والوں کو تہ تیغ کروں گا، کیونکہ تم لوگ ایلچی کی حیثیت سے میرے پاس آئے ہو‘‘۔
کچھ دیر بعد مجھے بتایا گیا کہ اگر عمارتوں کو مسمار کرنے کا کام یونہی جاری رہا تو ان میں موجود سارا مال ملبے تلے دب جائے گا اور سپاہیوں کے ہاتھ کچھ نہیں لگے گا۔ لیکن اگر بچے کھچے باشندوں کو امان دے دی جائے تو مال غنیمت آسانی سے حاصل ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے اس شرط پر عام معافی کا اعلان کر دیا کہ گھروں میں چھپے ہوئے لوگ باہر نکل آئیں۔ پھر میرے حکم پر اصفہان کے زندہ بچنے والے باشندوں کو میتیں دفنانے کا کام سونپ دیا۔ دراصل ہلاک ہونے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ شہر کے باشندوں کی مدد کے بغیر انہیں دفنانے کا کام ممکن نہ تھا۔ میں نے یہ اجازت دے دی کہ شہر کی عورتیں افسروں اور سپاہیوں میں بانٹ دی جائیں اور ساری دولت ایک جگہ جمع کر دی جائے، تاکہ بعد ازاں تقسیم کی جائے۔ اصفہان کی لڑائی کے دوسرے دن بھی میرے سات ہزار سپاہی مارے گئے اور میں نے اصفہانیوں کو اپنے سپاہیوں کے جنازے دفنانے کی بھی ذمہ داری سونپ دی۔ پھر جنازوں کی تدفین کے بعد شہر کے باشندوں اور آس پاس کے قصبوں کے لوگوں کو اصفہان کی مضبوط فصیل ڈھانے پر لگا دیا۔ میرا یہ اصول ہے کہ کسی مضبوط شہر پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں کی حفاظتی دیوار کا نام و نشان مٹا دیتا ہوں، تاکہ پھر کسی کو میرے سامنے مزاحمت کی جرأت نہ ہو سکے۔
مجھے اصفہان میں صدرالدین نظر نہیں آیا۔ معلوم ہوا کہ وہ شخص میرے کہنے کے مطابق لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی اصفہان سے نکل چکا تھا۔ جب میں نے اصفہان پر غلبہ پایا تو اس شہر کا دو تہائی حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا اور تین چوتھائی آبادی موت کے گھاٹ اتر چکی تھی۔ میرے افسروں اور سپاہیوں کو اجازت مل گئی کہ وہ وہاں عورتوں سے فائدہ اٹھائیں اور چلتے وقت چاہیں تو انہیں بیچ دیں یا آزاد کر دیں۔ چونکہ ہم عورتوں کو اپنے ہمراہ نہیں لے جا سکتے تھے‘‘۔ (اقتباس از ’’میں ہوں تیمور‘‘ صفحہ 173 تا 181)۔
امیر تیمور کی خود نوشت سوانح عمری کا ترکی زبان سے فرانسیسی زبان میں ترجمہ ازمارسیل بریون (Marcel Breven)، فرانسیسی زبان سے اردو زبان میں ترجمہ خلیل الرحمن اور ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی نے کیا۔ کتابی شکل میں یہ اردو ترجمہ سیارہ ڈائجسٹ لاہور نے شائع کیا۔ یہ اقتباس اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن سے ماخوذ ہے، جو جنوری 2000ء میں شائع ہوا۔ (مصنف)
یہ روداد بڑی اندوہناک اور ناقابل یقین حد تک ظالمانہ ہے، مگر اس زمانے کے جید دینی عالم اور حافظ قرآن مگر وحشی تیمور کے ہاتھوں اصفہانیوں پر کیا قیامت ٹوٹی اور طویل عرصے سے محصور اور فاقوں کے مارے ہوئے شہریوں نے کس بہادری اور استقامت سے اس کی فوج کا مقابلہ کیا، اس کا ایک سادہ، سچا اور حقیقت پر مبنی بیان بھی ہے اور اس زمانے کے جنگی حالات کی بڑی حقیقی تصویرکشی بھی۔ اس روداد کو پڑھ کر قاری یہ تسلیم کرنے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے کہ ظالم امیر تیمور جہاں تلوار کا دھنی تھا وہاں قلم کا بھی دھنی تھا اور اللہ تعالیٰ نے اسے جو گوناگوں جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں بخشی تھیں، ان کو اس نے اپنی زندگی میں بدرجہ اتم استعمال کیا اور ان سے اپنی تسخیر جہاں کی مہم میں پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ بلاشبہ وہ ایک انتہائی غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل انسان تھا اور اس کے ہم عصر تمام ممالک کے سربراہان بشمول سربراہ سلطنت عظیم ترکی اور بچی کھچی رومن ایمپائر کا شہنشاہ، فن سپہ گری، انسان شناسی، میدان جنگ کی حکمت عملی اور امور جہانداری میں اس کے سامنے طفل مکتب تھے۔ وہ اپنے زمانے کے علما کے درمیان سب سے بڑا عالم تھا۔ سپہ سالاروں کے درمیان سب بڑا سپہ سالار اور بادشاہوں کے درمیان سب سے بڑا بادشاہ تھا۔ مگر ساتھ ہی اپنے زمانے کے ظالموں اور سفاکوں کے درمیان سب سے بڑا ظالم اور سفاک انسان بھی وہی تھا۔ جب وہ علما دین کی مجالس میں بیٹھ کر دینی مسائل اور رموز ہائے قرآن پر بحث کرتا تو کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ وہ ایک سفاک بھیڑیا بھی بن سکتا تھا۔ اسی طرح جب وہ کسی شہر کے محصور اور بے گناہ مردوں، عورتوں یا بچوں اور بوڑھوں کا قتل عام کر رہا ہوتا تو بھی کوئی نہ سوچ سکتا تھا کہ وہ ایک پابند شرع مسلمان، حافظ قرآن اور ایک جید عالم دین بھی ہو سکتا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭