نفرت کا سوداگر

مسعود ابدالی
ہالینڈ کے متنازعہ اور اسلام دشمن سیاستدان گیرٹ وائلڈرز (Geert Wilders) نے دنیا کے سوا ارب سے زیادہ مسلمانوں کے دل چھلنی کر رکھے ہیں۔ اس نے رواں سال کے آخر میں ملکی پارلیمنٹ کے اندر پیغمبر اسلامؐ کے خاکے بنانے کا مقابلہ منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ذرا اس شخص کی نجی زندگی پر ایک نظر ڈالئے، جس سے بخوبی اندازہ ہوگا کہ ایسی نفرت انگیز مہم یہ کیوں چلا رہا ہے۔ 54 سالہ گیرٹ وائلڈرز کی تعلیم واجبی سی ہے۔ مزاج بچپن ہی سے آوارگی کی طرف مائل تھا۔ چنانچہ وہ ہائی اسکول مکمل کرتے ہی گھر سے بھاگ کھڑا ہوا اور ادھار ٹکٹ لے کر اسرائیل چلا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب عراق اور ایران کے درمیاں گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی اور سارے اسرائیل میں مسرت و اطمینان کی لہر دوڑی ہوئی تھی۔ عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا داخلی امن اسرائیل کو اس کے بعد کبھی نصیب نہیں ہوا۔ اس عرصے میں گیرٹ نے عرب ملکوں کا دورہ بھی کیا۔ اس کے احباب کا خیال ہے کہ گیرٹ اس دوران اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد سے وابستہ تھا اور یہ دوڑ بھاگ اس کی جاسوسی مہم کا حصہ تھی۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ موصوف اب بھی موساد کا تنخواہ دار ہے۔ وہ سال میں کم از کم دو بار اسرائیل جاتا ہے۔ 2011ء میں جائز آمدنی سے کہیں اعلیٰ معیار زندگی کے شبہے پر اس کے خلاف حکومت نے تحقیقات کا حکم دیا، جس پر گیرٹ نے ایک خفیہ کمپنی چلانے کا اعتراف کر لیا۔ ڈچ قانون کے مطابق یہ قابل سزا جرم ہے، لیکن جس طرح معاملے کو دبا دیا گیا، اس سے اسرائیل کے لئے جاسوسی کے الزام میں کسی حد تک صداقت نظر آتی ہے۔ اسرائیل سے واپسی پر گیرٹ ہیلتھ انشورنس فروخت کرنے لگا اور اسی دوران اس کی ملاقات پیپلز پارٹی برائے آزادی و جمہوریت کے سربراہ فرٹز بولکسٹین سے ہوگئی۔ فرٹز نے اس کی چرب زبانی سے متاثر ہو کر بھاری مشاہرے پر گیرٹ کو پارٹی کا اسپیچ رائٹر یا خطبہ نویس بھرتی کرلیا۔ فرٹز خود بھی ایک متعصب انسان ہے اور اس ہالینڈ میں اسلام کی اشاعت اور مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافے پر شدید تشویش تھی۔ پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے فرٹز نے کہا کہ ہالینڈ کے شہر اور قصبات مراکش کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ سارے ملک میں ہر طرف پگڑی، داڑھی اور برقعوں کی بہار ہے۔ ہر بڑے بازار میں حلال گوشت کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ یہ سلسلہ اگر اسی طرح جاری رہا تو ہمارا ملک بھی غرناطہ بن جائے گا۔ فرٹز نے اپنے خطاب میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خوب زہر اگلا اور جوش خطابت میں یہ بھی کہہ گیا کہ ہالینڈ ڈچ قوم کا ملک ہے اور جن لوگوں کو عرب ثقافت عزیز ہے، وہ مشرق وسطیٰ چلے جائیں۔ فرٹز کی اس تقریر سے مسلمانوں میں شدید اشتعال پھیلا اور دوسرے ہی روز پچاس ہزار مسلم نوجوان ایمسٹرڈیم کی سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں قرآن اور ڈچ پاسپورٹ اٹھا رکھے تھے۔ یہ نوجوان فرٹز کے احمقانہ خطاب کے جوا ب میں جو نعرے لگا رہے تھے، اس کا ترجمہ حضرت کلیم عاجز کی زبان میں کچھ اس طرح کیا جا سکتا ہے:
ہم اسی گلی کی ہیں خاک سے یہیں خاک اپنی ملائیں گے
نہ بلائے آپ کے آئے ہیں نہ نکالے آپ کے جائیں گے
فرٹز کی یہ تقریر اس کے خطبہ نویس گیرٹ وائلڈرز نے لکھی تھی۔ اس کے بعد سے گیرٹ نے اپنی پوری زندگی اسلام کے خلاف وقف کر دی۔ اس نے قرآن پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ جو اس کے خیال میں عورتوں کی غلامی کی دستاویز اور دہشت گردی کا تفصیلی ہدایت نامہ ہے۔ اس نے قرآن کریم کو ’’میین خیمپف‘‘ (میری جدوجہد) قرار دیا، جو ہٹلر کی خود نوشت سوانح عمری اور نازی منشور ہے۔ جس کی اشاعت، تقسیم اور فروخت پر امریکہ اور یورپ میں مکمل پابندی ہے۔ اپنے وضاحتی بیان میں وائلڈرز نے کہا کہ اسے مسلمانوں سے نہیں قرآن، اسلام اور پیغمبر اسلامؐ سے نفرت ہے۔ گیرٹ وائلڈرز نے فتنہ کے عنوان سے ایک انتہائی نفرت انگیر دستاویزی فلم بھی بنائی۔ گیرٹ کی فتنہ انگیزی پر خود مسیحی دنیا بھی لعنت و ملامت کر رہی ہے اور برطانیہ میں اس کی آمد پر کئی بار پابندی لگ چکی ہے، جبکہ سابق امریکی صدر اوباما نے اس سے ملاقات سے انکار کر دیا تھا۔ ہالینڈ کی سپریم کورٹ اس پر ’’فروغ نفرت‘‘ کے الزام میں مقدمہ چلا چکی ہے۔ گو کہ آزادیٔ اظہار کے پردے میں اسے بری کر دیا گیا، تاہم عدالت نے اس کے خیالات کو نفرت کی حد تک انتہا پسند قرار دیا۔ اس شر مجسم کی ذاتی زندگی بھی نشان عبرت ہے۔ خوفزدہ گیرٹ نے گزشتہ بارہ سال سے خود ساختہ نظر بندی اختیار کر رکھی ہے۔ دنیا کے اس بزدل ترین فرد کو مردآہن کہا جاتا ہے۔ یہ اس لئے کہ گیرٹ نے خود کو فولاد کے خول میں بند کر رکھا ہے۔ یہ سر سے پیر تک فولادی زیر جامہ پہنے رہتا ہے اور سوتے وقت بھی اسے نہیں اتارتا۔ اسی بنا پر کئی جلدی امراض میں مبتلا ہے۔ اس کے دفتر اور گھر کی بیرونی دیواریں کنکریٹ میں فولاد کی چادریں چن کر بنائی گئی ہیں، اس کی خواب گاہ ڈیڑھ فٹ چوڑی فولادی چادروں سے بنائی گئی ہے۔ اس کی اہلیہ کو بھی ملاقات سے پہلے جامہ تلاشی کی ذلت سے گزرنا پڑتا ہے اور اسی بنا پر میاں بیوی کے درمیان بالمشافہ گفتگو ہفتے میں صرف ایک بار ہوتی ہے۔ اپنی ذلت آمیز زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے خود گیرٹ نے کہا کہ وہ اپنے بدترین دشمن کیلئے بھی ایسے عذاب کی خواہش نہیں رکھتا۔٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment