نیا پاکستان

ڈاکٹر ضیاألدین خان
dr.ziauddinkhanpk@gmail.com

تقدیر سے کھیلنے والے سیاروں کی آسمانی کونسل کا اجلاس ہو اور صدارت مریخ کو سونپ دی جائے تو ایسے ہی انسانی المیے جنم لیتے ہیں۔ بے موسم کی جنگیں۔ موسمی محبتیں۔ بلم کے زور پر پھینکے گئے پانسے۔ الائو کے گرد ناچتے ریڈ انڈین وحشیوں کے چمکتے پر۔ مونچھوں کو تائو دیتے بے نوا تاجور۔ ٹھنڈے کمرے میں نقشے پھیلائے خاموش بادشاہ گر۔ تہمت یافتہ محب وطن۔ تخت و تاج کی ہوس میں دوڑتے خراسانی خچروں کی ہانپیں۔ زنگ آلود تلواروں سے دھمکاتے پیتل کے زرہ پوش خود۔ میدان جنگ سے بھاگنے والے سربازوں کی بڑھکیں۔ بھگوڑے ڈیماستھینز کی شعلہ فشاں تقریریں۔ اور جانے کیا کیا؟ ایک جھلک میں آپ صدیوں کی تاریخ دیکھ لیتے ہیں۔ کہیں جھلکتی۔ کہیں چھلکتی۔ کہیں جھلکاریاں مارتی۔ کہیں دمکتی کوندتی چمکتی کڑکتی اور کدکتی۔ شپا شپ چلتی بے نیام شمشیریں۔ خچا خچ چلتے بے آواز خنجر۔ جو صرف دوستوں کی بغل میں گھونپنے کے لیے ڈھالے جاتے ہیں۔ لہو سے چکوروں کے آلودہ چنگ۔ پھر محمد شاہ رنگیلے کے بھگوڑے سازندوں کی دھن پر رقص کرتے مدہوش چانڈو باز۔ جنہیں سہارا دے کر تخت پر بٹھایا جاتا ہے۔ اور زنجیروں سے لٹکتا آہنی تاج سر پر ٹھونسا جاتا ہے۔ ہرن کے سینگ پر چنیا بیگم کے عاشقوں کی برأت۔ برأت عاشقاں بر شاخ آہو۔ سیاہی مائل خاکی کولہو میں جتا عمر رسیدہ بیل۔ جس کی آنکھوں پر کھوپے باندھ کر یقین دلایا جاتا ہے کہ ساری دنیا وہی کھینچ رہا ہے۔ حالانکہ اس کی دیوتائی کا خاتمہ قصائی کی چھری پر ہوتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے۔ ایک کھیل صدیوں سے کھیلا جا رہا ہے۔ کھلاڑیوں کا پیٹ بھرتا ہے نہ تماشائیوں کا۔ صید جان چھڑاتا ہے نہ صیاد۔ کوفت ہوتی ہے نہ کلفت۔ بیزاری ہوتی ہے نہ اکتاہٹ۔ بنانے والے صدیوں سے بنا رہے ہیں اور بننے والے صدیوں سے بن رہے ہیں۔ نہ وہ تھکتے ہیں نہ یہ تھکتے ہیں۔ نہ وہ سیکھتے ہیں نہ یہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ایک جیسے منصوبے۔ ایک جیسی غلطیاں۔ ایک جیسے بھگتان۔ ایک جیسے دعوے۔ ایک جیسے وعدے۔ ایک جیسے نعرے۔ ایک جیسے چہرے۔ ایک جیسے ساتھی۔ ایک جیسی سواری۔ ایک جیسی عادتیں۔ ایک جیسی دھمکیاں اور ایک جیسی حرکتیں۔ وہی کرپشن۔ وہی بازار۔ وہی گھوڑے۔ وہی تجارت۔ وہی راجہ وہی پرجا۔ وہی افسر وہی لشکر۔ وہی حاکم وہی محکوم۔ وہی روح وہی فرشتے۔ اقتدار کسی کا اختیار کسی کا۔ دستخط ایک کے۔ مہر دوسرے کی۔ حکم کوئی دے۔ منظوری کوئی دے۔ زمین کسی کی۔ مکان کسی کا۔ اور رہنے والا کوئی اور۔ غلاموں کو حاکم چننے کا اختیار دے کر حاتم کے گھوڑے کو لات ماری جاتی ہے۔ اور چابی سے چلنے والا خچر شیر کی جگہ بٹھایا جاتا ہے۔ شیر چیر پھاڑ کرتا ہے۔ خچر غلامی کرتا ہے۔ بوجھ ڈھوتا ہے۔ اور خود کو شاہی اصطبل کی آبرو سمجھتا ہے۔ جنگل کے جانوروں کی قسمت کی صراحی بیچ بازار پھوٹ جاتی ہے۔ پھر بھی سارا جنگل جشن مناتا ہے۔ حالانکہ ساتوں آسمان ان کے نصیب پر روتے ہیں۔ آنسوئوں سے اگر پل تعمیر ہوتے تو یہ ملک پلوں کا آسمان بن جاتا۔ کیونکہ جب کوئی کسی کو یاد کرتا ہے۔ تو اس کی جگہ ایک درخت اُگ آتا ہے۔ شکر ہے یہ قوم قائد اعظم کو یاد نہیں کرتی۔ ورنہ سارا ملک جنگل بن جاتا اور الزام قائد اعظم پر آتا۔ ملک بنانے والے چلے گئے۔ چلانے والے چلے گئے۔ اب توڑنے والے ہیں یا ٹوٹے دلوں کے ڈھیر سے نیا ملک بنانے والے۔ پرانا پاکستان اداس ویران تاریک گوشے میں کھڑا ہے۔ بند کوٹھڑی کا قیدی۔ آنسوئوں سے تر دامن بوڑھا۔ مایوس۔ اکیلا۔ تنہا۔ پرانا اور ازکار رفتہ۔ جیسے گھر میں پرانے بابے کو اسٹور روم میں دھکیل کر کمرہ نئے آنے والے کو الاٹ کر دیا جاتا ہے۔ پرانا پاکستان اب نہ چلنے والا کرنسی نوٹ ہے۔ متروک۔ بوسیدہ۔ ناقابل قبول اور قابل رحم۔ قائد کا پاکستان۔ جسے فارغ کر کے بے کار اشیا کے اولڈ ہوم میں جمع کرا دیا گیا ہے۔ اور نئے پاکستان کو اس کا کمرہ الاٹ کر دیا گیا ہے۔ فرق یہ ہے کہ پرانے پاکستان کا معمار سگار پیتا تھا۔ نئے پاکستان کا معمار کوکین پیتا ہے۔ پرانے پاکستان کا بانی قوم کا غم کھاتا تھا۔ نئے پاکستان کا خالق دوسروں کا پیسہ کھاتا ہے۔ کیا کریں؟ زمانے کے انداز بدلے گئے۔ نیا راگ ہے ساز بدلے گئے۔ تمدن تصوف شریعت کلام۔ بتان عجم کے پجاری تمام۔ حقیقت خرافات میں کھو گئی۔ یہ امت روایات میں کھو گئی۔ لبھاتا ہے دل کو کلام خطیب۔ مگر لذت شوق سے بے نصیب۔ عجم کے خیالات میں کھو گیا۔ یہ سالک مقامات میں کھو گیا۔ اور کھوئے ہوئوں کی جستجو میں یہ قوم پندرہ برس سے سرگرداں ہے۔ پھر بھی لاپتہ افراد کی فہرست میں ایک نئے نام کا اضافہ ہو گیا ہے۔ پرانے پاکستان کا۔ قائد کے پاکستان کا۔ اب اسے ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر۔ اور نئے پاکستان کی لگامیں ایک ایسے شخص کو سونپ دی گئی ہیں۔ جس نے ساری عمر کوئی کام نہیں کیا۔ لیکن اب وہ مرکزی حکومت کے پانچ لاکھ ملازمین کو بتائے گا کہ کام کیسے کیا جاتا ہے۔ جو ساری عمر اپنے ماضی کا دفاع نہ کر سکا۔ وہ اب پانچ لاکھ ساٹھ ہزار فوج کے سربراہ کو حکم دے گا کہ ملک کا دفاع کیسے کرنا ہے؟ جس نے ستّر برس تک دوسروں کی کمائی پر خود کو پالا۔ وہ 34 وزارتوں کو بتائے گا کہ دوسروں کی دست نگری ختم کر کے اپنے پیروں پر کیسے کھڑا ہونا ہے۔ جس نے شوکت خانم کو ملنے والا زکوٰۃ کا روپیہ اسٹاک کے جوئے میں لگا دیا۔ وہ اب بارہ ارب ڈالر کے قومی خزانے کا محافظ ہو گا۔ جو تین سو کنال سے بھی بڑے گھر میں رہتا ہے۔ وہ ملک کے ساڑھے پانچ کروڑ غریبوں کا غم کھانے کی تنخواہ لے گا۔ اور بلٹ پروف گاڑیوں کے قافلے میں چلے گا۔ جس نے کبھی زندگی میں کوئی کاروبار نہیں کیا۔ وہ ملک کے 87 چیمبر آف کامرس کو بتائے گا کہ منافع بخش کاروبار کیسے کیا جاتا ہے۔ جس نے ساری عمر بے کاری اور لا ابالی میں گزاری۔ وہ پانچ کروڑ طلبا اور طالبات کو سمجھائے گا کہ ذمہ دار انسان کیسے بنا جاتا ہے۔ جس کے گرد کرپٹ ترین لوگوں کا گھیرا ہے۔ وہ ملک کے چار لاکھ پچیس ہزار پولیس والوں کو دیانت داری اور ایمانداری کا سبق دے گا۔ جو دو بجے سو کر اٹھتا ہے۔ وہ تیرہ خفیہ اداروں کا سربراہ بنے گا۔ جس نے کبھی کوئی ذمہ داری نہیں لی۔ اسے دو سو ایٹم بموں کا کنٹرول دیا جائے گا۔ اور جسے امریکی عدالت نے غیر ذمہ دار باپ قرار دے کر اپنی بچی کی ذمہ داری سے بھاگنے والا بھگوڑا سمجھا ہو۔ وہ اس ملک کے بیالیس لاکھ یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھے گا۔ خدا اس ملک پر کیسے رحم کرے۔ جس کے رہنے والے اپنے آپ پر رحم نہیں کرتے؟ خلق خدا کی گھات میں رند و فقیہ و میر و پیر۔ تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی۔٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment