گاہے گاہے بازخواں

اس سال اہل وطن نے پاکستان کا یوم آزادی کچھ زیادہ جوش و خروش کے ساتھ منایا۔ بزرگوں اور خواتین کے علاوہ نوجوانوں اور بچوں کا جذبہ دیدنی تھا۔ ہر طرف سبز ہلالی پرچم اور چاند ستارے والی جھنڈیوں کی بہار تھی، ملی نغمے گونج رہے تھے۔ مسجدوں اور دیگر عبادت گاہوں میں ملک کی سلامتی کے لئے خصوصی دعائیں کی گئیں۔ مختلف سیاسی و سماجی اور مذہبی تنظیموں نے جلسے جلوسوں اور ریلیوں کے ذریعے وطن سے محبت کا اظہار کیا۔ سرکاری طور پر توپوں کی سلامی، پرچم کشائی اور فوجی و سیاسی تقریبات سمیت تمام روایتی معمولات نظر آئے۔ ریڈیو، ٹی وی پر ملی نغموں کے خصوصی پروگرام پیش کئے گئے۔ پاکستان کے یوم آزادی کی خوشی میں ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی شرکت لائق دید اور قابل داد تھی۔ انہوں نے چودہ اگست کو پاکستان کا یوم آزادی پورے جوش اور جذبے کے ساتھ منایا، جبکہ پندرہ اگست کو بھارت کے یوم آزادی کو حسب معمول سیاہ دن کے طور پر منایا گیا۔ بھارتی مقبوضہ وادی کشمیر کے طول و عرض میں پاکستانی پرچم لہرانے اور جلوس نکالے گئے۔ پاکستان کا قومی ترانہ بجا کر اور پاکستانی پرچم کو سلامی پیش کرکے کشمیریوں نے پاکستان کے ساتھ بھرپور اظہار یکجہتی کیا، جبکہ حریت رہنماؤں کی اپیل پر بھارت کے یوم آزادی پر پندرہ اگست کو مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال کی گئی اور سیاہ پرچم لہرائے گئے۔ سری نگر کے لال چوک پر تین غیر کشمیری لڑکوں نے تاریخی گھنٹا گھر پر بھارت کا پرچم لہرانے کی کوشش کی تو کشمیریوں نے اسے ناکام بنا دیا۔ پاکستان اور مقبوضہ کشمیر میں چودہ اگست کو جشن منانے کی یہ تفصیل درج کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قومی رہنماؤں، حکمرانوں، سیاست دانوں، بالخصوص پرانی نسل کو یاد دلایا جائے کہ پاکستان کا قیام جن نظریات کی بنیاد پر اور جن مقاصد کی تکمیل کے لئے عمل میں آیا تھا، اسے بھلا کر صرف ہلا گلا کرنے، جھنڈے لہرانے اور ناچ گانوں کو جشن آزادی سمجھ لیا گیا ہے۔ اہم قومی مواقع پر خوشی کا اظہار بلاشبہ فطری اور ضروری ہے، لیکن اسلام نے عید، بقرہ عید جیسے اہم ترین تہواروں کو منانے کے جو آداب سکھائے ہیں، کم از کم پاکستان میں قومی دنوں پر ان کا عکس نظر آنا چاہئے۔ اس موقع پر نوجوانوں کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ مسلمانان ہند کے لئے نئے وطن کا حصول اتنا آسان نہیں تھا۔ اس کی خاطر لاکھوں جانیں قربان کی گئیں، عزتیں پامال ہوئیں اور لاکھوں کی تعداد میں ان علاقوں کے لوگ گھر بار، جائیداد و املاک چھوڑ کر، آگ اور خون کے دریاؤں سے گزر کر پاکستان آئے تھے، جنہوں نے اس حقیقت کے باوجود تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا کہ ان کے علاقے نئے وطن میں شامل ہونے والے نہیں تھے۔ پاکستان بننے اور قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے فوری بعد ملکی سیاست اور حکومت پر اکثر وہ لوگ قابض و مسلط ہوگئے، جن کا قیام پاکستان میں شاید بال بھی بیکا نہیں ہوا تھا۔ گویا بقول شاعر، منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔
قیام پاکستان کے ساتھ ہی بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے لٹے پٹے قافلوں کی تصاویر اور فلمیں اگرچہ بہت کم ہیں۔ تاہم انہیں بھی مؤثر انداز میں پیش کیا جاتا رہے تو موجودہ نسل اور نوجوانوں کو ان بیش بہا قربانیوں کا اندازہ ہو سکتا ہے، جو مملکت خداداد پاکستان کے حصول کے لئے دی گئی تھیں۔ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کا یوم آزادی اسی جوش اور جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے، جو تحریک پاکستان کے دوران ہندوستان کے مسلمانوں میں بحیثیت مجموعی پایا جاتا تھا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں یوم آزادی مناتے ہوئے ہم ان اغراض و مقاصد کو یاد رکھنے کے بجائے ظاہری جوش و خروش اور میلوں ٹھیلوں کا سماں پیش کرکے سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے آزادی کا حق ادا کر دیا۔ اگر نوجوانوں میں تحریک پاکستان کا اصل تصور اجاگر کیا جاتا اور ان کو مناسب تہذیب و تربیت سے گزارا جاتا تو ان میں اپنے ملک کو مضبوط و مستحکم کرنے کی امنگ اور جذبہ اور بھی زیادہ پیدا ہوتا۔ ملک کے اکثر بڑے شہروں میں مختلف مقامات پر اس بار بھی جلوسوں، ریلیوں اور نوجوانوں کے بھنگڑوں کے باعث سڑکیں بند ہوگئیں اور ٹریفک کے بری طرح جام ہونے کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومتی کارکردگی یوں بھی ہمیشہ نہایت ناقص ہوتی ہے، جبکہ ایسے مواقع پر تو سرے سے نظر نہیں آتی۔ بزرگوں کی جانب سے کوئی رہنمائی نہ ملنے یا اسے نہ قبول کرنے کی وجہ سے نوجوان، شہریوں کو تکالیف میں مبتلا کرکے خوشی منانے ہی کو آزادی تصور کرتے ہیں۔ موسیقی کی تیز دھنوں اور رقص و سرور کے ساتھ سڑکوں کو روکنا اور شاہراہوں کو بلاک کرنا خلاف تہذیب ہی نہیں، بلکہ لوگوں کے قانونی حقوق سلب کرنے کے مترادف ہے۔ ایک انگریز دانشور کے بقول میری آزادی کی حد وہاں ختم ہو جاتی ہے، جہاں سے دوسرے کی آزادی شروع ہوتی ہے۔ یعنی ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ اپنی حد میں رہ کر خوشی منائے اور اپنے کسی عمل سے دوسرے کو نقصان نہ پہنچائے۔ شادی بیاہ کی رسوم کی طرح یوم آزادی یا دیگر قومی دنوں پر ہونے والی آتش بازی کو ایک حد تک تو گوارہ کیا جاسکتا ہے، لیکن اس پر اسراف دو لحاظ سے سخت ناپسندیدہ ہے، ایک یہ کہ آگ کا کھیل ابلیس اور اس کی ذریات میں تو مقبول ہو سکتا ہے کہ ان کا وجود آگ ہی پر قائم ہے۔ دوم یہ کہ آتش بازی کے ساتھ فائرنگ کا سلسلہ شروع ہونے سے ہمیشہ انسانی جانوں کے ضائع ہونے کا اندیشہ لاحق رہتا ہے۔ نوجوانوں کی وحشیانہ تیز رفتاری اس پر مستزاد ہے، جس کی وجہ سے خوشی کے مواقع غم کے مناظر میں بدل جاتے ہیں۔ عمران خان کی قیادت میں بر سر اقتدار آنے والی حکومت میں اکثریت نوجوانوں کی ہوگی۔ لہٰذا ان سے یہ اپیل کرنا بے جانہ ہوگا کہ وہ نئی نسل کی تربیت کا خصوصی اہتمام کریں تاکہ وہ اس تہذیب کے ماحول میں ڈھل سکیں، جو مسلمانوں کا شیوہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں تحریک پاکستان کے مقاصد اور قیام پاکستان کے لئے پیش کی جانے والی عظیم قربانیاں یاد دلانا ضروری ہے۔ فارسی کے اس شععر کے مصداق کہ
گاہے گاہے باز خواں ایں دفتر پارینہ را
تازہ خواہی داشتن گرداغ ہائے سینہ را
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment