عنوان کے اثرات

دو بزرگوں کی حکایت
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کا مزاج یہ تھا کہ فرماتے تھے کہ دوستوں سے ملنا اور ان سے باتیں کرنا بھی عبادت ہے۔ اس پر حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے دو بزرگوں کی ایک حکایت بیان فرمائی۔ فرمایا کہ دو بزرگ تھے اور دونوں ہی صاحب کشف و کرامت تھے۔ دونوں الگ مقام پر رہتے تھے۔ بیچ میں ایک دریا حائل تھا۔ ایک بزرگ جو دریا کے پار رہتے تھے۔ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ فاقوں سے تھے۔ دوسرے بزرگ کو کشف سے معلوم ہوا کہ وہ بزرگ بھوکے ہیں۔
انہوں نے اپنی بیوی سے کھانا بنوایا اور اس سے کہا کہ یہ کھانا تم ان بزرگ تک پہنچا دو۔ بیوی نے کہا بیچ میں دریا ہے، کیسے جائوں گی؟ انہوں نے کہا: دریا کے پاس جانا اور میرا نام لے کر کہنا کہ ان کی برکت کے ساتھ جو چالیس سال سے اپنی بیوی کے قریب نہیں گیا، مجھے راستہ مل جائے۔ بیوی کو بڑا تعجب ہوا کہ میرا شوہر میرے سامنے کس ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بول رہا ہے۔ مگر دریا کے کنارے جا کر بیوی نے یہی کہہ دیا۔ دریا پایاب ہو گیا اور اس خاتون نے کھانے لے کر دریا پار کر کے ان بزرگ کو کھانا دے دیا۔
ان بزرگ نے اسی کے سامنے کھانا کھالیا۔ واپسی کے وقت اس نے ان بزرگ سے کہا کہ بیچ میں دریا حائل ہے، میں کیسے جائوں؟ انہوں نے کہا کہ دریا کے پاس جا کر میرا نام لینا اور کہنا کہ ان کی برکت سے، جنہوں نے چالیس سال سے کھانا نہیں کھایا، مجھے راستہ مل جائے۔ اس کو بڑا تعجب ہوا کہ ابھی میرے سامنے کھانا کھایا ہے اور میرے ہی منہ پر جھوٹ بول رہا ہے۔ لیکن اس نے دریا کے پاس جا کر یہی کہہ دیا۔ اسے پھر راستہ مل گیا۔ وہ سخت حیران تھی کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ دونوں نے جھوٹ بولا اور پھر راستہ مل گیا۔ اس نے اپنے شوہر سے اپنا یہ اشکال پیش کیا۔ ان بزرگ نے کہا کہ چالیس سال سے قریب نہ جانے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے نفس کے مزے کے لیے یہ عمل نہیں کیا، بلکہ حکم الٰہی کے تحت کیا۔ یہی حال ان بزرگ کا ہے کہ انہوں نے نفس کے ذائقے کے لیے چالیس سال سے کھانا نہیں کھایا، بلکہ حکم الٰہی کی تعمیل میں کھایا۔ (ملفوظات حکیم الامت ج۔4۔ ص۔34۔ معمولی توضیح کے ساتھ)
حکایات میں عام طور پر سچے واقعات نہیں ہوتے۔ وہ کسی مسئلے کی وضاحت کے لیے ہوتی ہیں۔ چنانچہ مثنوی میں مولانا رومؒ نے بڑے بڑے اور دقیق مسئلوں کو حکایات ہی کے ذریعے بالکل پانی کر کے حل فرما دیا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
کار پاکاں را قیاس ازخود مگیر
گرچہ باشد درنوشتن شیر و شیر
یعنی اللہ والوں کو اپنے اوپر قیاس مت کرو۔ اگرچہ وہ دیکھنے میں عام ہی آدمی لگتے ہوں۔ جس طرح لکھنے میں شیر اور شیر ایک جیسے لگتے ہیں۔
راقم عرض کرتا ہے کہ اوپر والے واقعے کو پڑھ کر لوگ سمجھیں گے کہ دونوں بزرگ بڑے پائے کے ولی تھے کہ ان کو ایک دوسرے کا کشف بھی معلوم ہوا اور ان کے نام سے دریا میں راستے مل گئے۔ دونوں باتیں سچ بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن کشف و کرامت محققین کے نزدیک بزرگی کی حتمی علامت نہیں ہیں۔ ہندو جوگیوں کو بھی کشف ہوتا ہے۔ حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ کشف و کرامت سے زیادہ وہ عبادت ہے، جو خلوص دل سے کی گئی ہو۔
ایک نجدی کا واقعہ
بعض اوقات کسی غلط عقیدے یا غلط عمل کے جواب میں لوگ ایسا عمل اختیار کرتے ہیں، جو حق تعالیٰ شانہٗ یا اسلاف کی بے ادبی بن جاتا ہے۔ ایک صاحب اپنے معمولات کے بارے میں رسول اقدسؐ کا وسیلہ دے کر دعا مانگتے تھے۔ ایک نجدی وسیلے کا قائل نہیں تھا۔ اس نے ان وسیلے والے صاحب سے کہا کہ وسیلے کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس نے کہا دیکھو! یہ اونٹ بیٹھا ہوا ہے، میں اس سے کہتا ہوں کہ اے اونٹ! میں تجھے رسول اکرمؐ کا واسطہ دیتا ہوں تو کھڑا ہو جا۔ اونٹ پر کوئی اثر نہیں ہوا، وہ بیٹھا رہا۔ پھر اس نے ایک ڈنڈا اٹھایا اور اونٹ کو مارا تو وہ کھڑا ہو گیا۔ اس شخص نے کہا کہ یہ ڈنڈا تمہارے وسیلے سے زیادہ مؤثر ہے۔ (نعوذ باللہ)
اس کے جواب میں وسیلے والے شخص نے بھی ایک ڈنڈا اٹھایا اور دوسرے اونٹ کی طرف گیا، جو بیٹھا ہوا تھا۔ اس سے کہا: میں تجھے حق تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں، کھڑا ہو جا۔ مگر وہ بیٹھا رہا۔ اس شخص نے بھی اونٹ کو ڈنڈا مارا۔ وہ فوراً کھڑا ہو گیا۔ اس نے کہا کہ کیا یہ ڈنڈا حق تعالیٰ سے بھی (معاذ اللہ) زیادہ مؤثر ہے؟ (حوالہ بالا۔ ص 34)
دونوں نے ہی نے غلط عنوان اختیار کر کے اپنی جہالت اور افراط و تفریط کا ثبوت دیا۔ دونوں ہی نے بے ادبی کی۔ ایک نے رسول اقدسؐ کی۔ دوسرے نے حق تعالیٰ شانہٗ کی۔ فائدہ نہ اس کو کچھ ہوا نہ اس کو۔ مناظرے کی شکل بن گئی۔
اور تجربہ یہ ہے کہ مناظروں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ آج کل امام ابو حنیفہؒ جیسے لوگ کہاں ہیں، جنہوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا تھا کہ ہم جب مناظرہ کرتے تھے تو نیت یہ ہوتی تھی کہ خدا کرے مخالف کی زبان سے حق بات نکلے اور ہم اس کو قبول کر لیں، تاکہ مخالف کی رسوائی نہ ہو۔
عنوان کے کرشمے
عنوان کے فرق پر حضرت حکیم الامت تھانویؒ نے فرمایا کہ میں جب کانپور میں تھا تو میرے پاس دو شخص آئے۔ ان میں ایک تو مولوی تھے اور ایک عام آدمی تھا۔ دونوں آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ مولوی صاحب کہہ رہے تھے کہ حضرت شاہ عبد القادر جیلانیؒ کو قطعی طور پر جنتی نہیں کہنا چاہئے اور وہ بے پڑھا لکھا کہہ رہا تھا کہ جب وہ جنتی نہیں تو اور کون جنتی ہو گا؟ اس پر آپس میں گفتگو ہو رہی تھی۔
میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ عام لوگوں سے ایسے مسائل میں گفتگو کرنا ہی مناسب نہیں ہے۔ یہ لوگ خالی الذہن ہوتے ہیں۔ ان کو سمجھانا مشکل ہے۔ اہل علم کو سمجھانا آسان ہے۔ اس لیے کہ ان کے ذہن میں علم کے ابتدائی اصول ہوتے ہیں۔ پھر میں نے اس عام آدمی کو بلایا اور اس سے کہا کہ ہاں! اگر غوث اعظم بھی جنتی نہ ہوں گے تو اور کون ہو گا۔ میرے اس کہنے پر مولوی صاحب پریشان ہوئے اور سوچنے لگے کہ کیا دلیل بیان ہو گی ان کے جنتی ہونے کی؟
پھر میں نے اس شخص سے پوچھا کہ پہلے یہ بتائو کہ سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ کا جنتی ہونا کیسے ثابت ہوا؟ اس نے کہا کہ حضور اکرمؐ کے فرمانے سے ہوا۔ پھر میں نے پوچھا کہ حضرت غوث پاکؒ کا جنتی ہونا کیسے ثابت ہوا؟ کہنے لگا کہ اللہ کے اولیاء کے کہنے سے ثابت ہے۔ پھر میں نے پوچھا کہ حضور اکرمؐ کے ارشاد میں اور اولیاء اللہ کے قول میں کچھ فرق سمجھتے ہو یا نہیں؟ کہنے لگا جی زمین آسمان کا فرق ہے۔ میں نے کہا جب حضور اکرمؐ کے اور اولیائے کرام کے ارشاد میں بڑا فرق سمجھتے ہو تو پھر حضرت صدیقؓ اور غوث پاکؒ کے جنتی ہونے میں بھی اتنا ہی فرق سمجھتے ہو گے۔ اس نے اقرار کیا کہ ہاں یہ فرق تو ہو گا۔
میں نے مولوی صاحب سے کہا حضرت! لیجئے جو عقیدہ آپ کا ہے وہی عقیدہ اس شخص کا بھی ہے۔ دونوں میں صرف عنوان کا فرق ہے۔ یہ جس کو یقین کہتا ہے، آپ اس کو غلبۂ ظن کہتے ہیں۔ مگر بات ایک ہی ہے۔ اس پر مولوی صاحب بڑے خوش ہوئے۔ سبحان اللہ! کتنی آسانی سے عنوان بدل کر اس اعرابی کو مطمئن کر دیا۔ (حوالۂ بالا)
ایک اعرابی کی بے ادبی
ایک شخص پر روایات کے مطابق خوں بہا واجب تھا۔ اس نے آپؐ سے مدد مانگی۔ آپؐ نے اس کی کچھ مدد کی، پھر آپؐ نے اس سے پوچھا کیا میں نے تیرے ساتھ بھلائی کی؟ اس نے کہا نہیں۔ آپؐ نے کوئی سلوک نہیں کیا۔ اس پر صحابہ کرامؓ کو غصہ آیا اور اس کی طرف بڑھے۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ کی طرف اشارہ کیا کہ اسے کچھ نہ کہیں۔ پھر آپؐ اپنے گھر تشریف لے گئے اور اس اعرابی کو بلایا اور فرمایا کہ تو ہمارے پاس سوال لے کر آیا تھا۔ ہم نے تجھے دیا اور تو نے کہا جو کچھ کہا۔ اس کے بعد حضور اکرمؐ نے اسے کچھ اور دیا اور فرمایا: کیا میں نے تیرے ساتھ سلوک کیا؟ تو اس نے کہا: ہاں! اللہ تعالیٰ آپ کو میرے اور میرے تمام اہل خاندان کی طرف سے جزائے خیر دے۔
پھر آپؐ نے فرمایا: تو میرے پاس آیا تھا، تو نے مجھ سے سوال کیا، میں نے تجھ کو دیا اور تو نے جو بات کہی، اس سے میرے اصحابؓ کے جی میں تیری طرف سے غصہ آیا۔ اب تو جب ان کے پاس پہنچے تو ان کے سامنے وہ بات کہنا جو تو نے اب میرے سامنے کہی ہے، تاکہ ان کے سینوں سے وہ کدورت جاتی رہے۔ اعرابی نے کہا بہت بہتر ہے۔ جب وہ اعرابی صحابہ کرامؓ کے مجمع میں پہنچا تو آپؐ نے فرمایا: تمہارا یہ ساتھی ہمارے پاس آیا تھا۔ اس نے سوال کیا اور ہم نے اسے دیا۔ پھر میں نے اسے بلایا اور دوبارہ دیا۔ اب اس کا کہنا ہے کہ وہ راضی ہو گیا۔ اے اعرابی! کیا اسی طرح بات ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ اللہ آپؐ کو میرے اہل خاندان کی طرف سے جزائے خیر دے۔
پھر فرمایا: میری اور اس اعرابی کی مثال اس شخص کی سی ہے، جس کی اونٹنی بدک کر بھاگ گئی۔ لوگوں نے اس کا پیچھا کیا۔ پیچھا کرنے سے وہ اور بھاگی۔ اونٹنی والے نے لوگوں سے کہا: تم میری اونٹنی اور میرے درمیان حائل مت ہو۔ چنانچہ اونٹنی والے نے زمین سے کچھ کھجوریں اٹھائیں اور اونٹنی کو بلایا۔ یہاں تک کہ وہ اونٹنی اس کے پاس آگئی۔ سبحان اللہ۔ اس طرح آپؐ نے صحابہ کرامؓ کی کدورت مٹانے کی کوشش فرمائی۔ دوسری طرف انہیں غصے کے بجائے نرمی اختیار کرنے کی عملی ترغیب دی۔ (حیاۃ الصحابۃ۔ ج 2۔ ص۔651) ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment