یہ بھی قانونِ قدرت کی گرفت میں!

بعض حلقے ایک مدت سے یہ تاثر دے رہے تھے کہ ملک کی اعلیٰ عدالتیں اور تحقیقاتی ادارے اوپر کے کسی اشارے پر صرف شریف خاندان اور ان کے حواریوں کے خلاف کرپشن کیسز چلا رہے ہیں، جبکہ کرپشن اور جوڑ توڑ کے شہنشاہ، آصف علی زرداری اور ان کے تمام غلط کاموں میں شریک بہن فریال تالپور اب تک مقدمات سے بچے ہوئے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ ’’مقتدر حلقے‘‘ پیپلز پارٹی اور اس کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، حالانکہ اس خاندان سے وابستہ افراد پیپلز پارٹی کی حکومت اور بیورو کریسی کے اعلیٰ کارکنان قومی وسائل کی تباہی اور لوٹ مار کی عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ یہ تاثر بھی تسلسل کے ساتھ پھیلایا گیا کہ اعلیٰ عدلیہ زرداری خاندان بشمول ان کی بہن فریال تالپور کے ساتھ رعایت کر رہی ہے۔ فوج اور عدالت کو بار بار ملکی سیاست میں گھسیٹنے اور ان پر حکومتی کاموں میں مداخلت کا الزام لگانے والے چونکہ مخصوص مفادات رکھتے ہیں اور بعض ذرائع ابلاغ بھی لٹیروں کے جرم میں شریک ہیں۔ اس بنا پر وہ اس بدیہی حقیقت سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں کہ احتساب کا عمل و دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف احتساب اور کارروائیوں کا آغاز سندھ سے ہوا تھا۔ اس وقت صوبے کے مخصوص لوگوں نے جانبداری کا الزام لگا کر شور مچایا تھا کہ پنجاب میں کوئی آپریشن کیوں نہیں کیا جاتا؟ پھر جب پنجاب میں لٹیروں کی گرفت شروع ہوئی، یہاں تک کہ صوبے سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم اور اس وقت کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ میاں نواز شریف نہ صرف وزارت عظمیٰ بلکہ سیاست میں بھی عمر بھر حصہ لینے کے لئے نااہل قرار پائے تو مسلم لیگ کے رہنماؤں اور کارکنوں نے پلٹ کر وہی الزام دوہرایا کہ پیپلز پارٹی کیوں مستثنیٰ ہے؟ مسلم لیگ اور اس کی قیادت لوٹی ہوئی رقم کا اعتراف کرکے اور اسے وطن واپس لاکر قومی خزانے میں جمع کرانے پر تیار ہو جاتی تو شاید اس پر اتنا برا وقت نہ آتا کہ وہ وفاق کے علاوہ خود اپنے صوبے پنجاب میں بھی حکومت سے باہر نہ ہوتی۔ شریف خاندان کے سب سے بڑے سہولت کار فواد حسن فواد کی گرفتاری کے بعد آصف علی زرداری کے قریبی دوست اور قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ میں ان کے سب سے بڑے آلہ کار انور مجید اور ان کے بیٹے عبد الغنی کی گزشتہ روز سپریم کورٹ کے باہر سے گرفتاری پیپلز پارٹی کے لئے بہت بڑا دھچکا ہے۔ منی لانڈرنگ کیس میں اومنی گروپ کے مالک انور مجید کی گرفتاری نے پیپلز پارٹی کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ ان کے بعد سیاسی حلقے پارٹی کی دو بڑی شخصیات آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کی گرفتاری کا قوی امکان ظاہر کر رہے ہیں۔ اس معاملے کے اثرات آئندہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت پر پڑنے کی پیشگوئی بھی کی جا رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ایک زمانے میں یہ ملک کی سب سے بڑی جماعت تھی اور ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بھی تین مرتبہ وفاق میں اور متعدد بار سندھ میں اس کی حکمرانی رہی، لیکن اب یہ سمٹ کر سندھ کے چند دیہی علاقوں تک محدود ہوگئی ہے۔ تاہم وہ حالیہ انتخابات کے بعد سندھ میں کس طرح تیسری بار مسلسل حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے، جبکہ اپنے گڑھ لیاری سے پیپلز پارٹی کے نوخیز چیئرمین بلاول بھٹو زرداری عبرتناک شکست سے دوچار ہو چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور سندھ حکومت کے اعوان و انصار پر مقدمات کا آغاز ہو گیا اور ان کے خلاف ثبوت و شواہد کی روشنی میں فیصلے آگئے تو ان کی ذلت و رسوائی کا عالم و حشر شریف خاندان اور ان کے شریک جرم ساتھیوں سے بھی برا ہوگا۔ کچھ عجب نہیں کہ پارٹی سندھ کی حکمرانی سے بھی محروم ہو جائے اور اس کا وجود باقی رکھنے کے بھی لالے پڑ جائیں۔ انور مجید کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ فواد حسن فواد کی طرح تمام حقائق سے پردہ اٹھانے اور وعدہ معاف گواہ بننے کے لئے آمادہ نہیں ہیں، لیکن ایک بار احتساب کے شکنجے میں کسے جانے کے بعد غلط بیانی سے حقائق کو چھپانا ان کے لئے ممکن نہ ہوگا۔ ایف آئی اے نے ان کے علاوہ پیپلز پارٹی کے کئی رہنماؤں اور بیورو کریسی کے اعلیٰ افسران کے خلاف ٹھوس ثبوت و شواہد جمع کرکے سپریم کورٹ میں پیش کردیئے ہیں، جس کے بعد ان کا یا کسی اور غلط کار کا بچ نکلنا آسان نہیں۔ پیپلز پارٹی اپنے سربراہ اور سرپرستوں کو بچانے کے لئے بری طرح ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ آصف علی زرداری کی سودے بازی کی صلاحیتوں پر اعتماد کیا جا رہا ہے کہ وہ نئی حکومت، مسلم لیگ، مقتدر اداروں اور انصاف کے ایوانوں میں نقب لگا کر اپنی اور پارٹی کی بریت و برأت کا اہتمام کرلیں گے۔ پچھلی مرتبہ انہوں نے ایوان صدر کا مکین بن کر استثنا حاصل کرلیا تھا، جس کے بعد مسلم لیگ کی حکومت نے بھی مک مکا کے تحت ان سے کوئی باز پرس نہ کی۔ اس مرتبہ بھی آصف علی زرداری کے حامی حلقے یہی کہتے نظر آرہے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح ملک کے صدر بننے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اس کی خاطر وہ کسی بھی حد تک آگے جاسکتے ہیں۔ لیکن مقتدر اداروں، اعلیٰ عدلیہ اور تحقیقاتی ایجنسیوں میں ہوا کا بالکل ہی بدلا ہوا رخ انہیں تحفظ فراہم کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ مالی معاملات کے علاوہ پیپلز پارٹی کے حکمران ٹولے کے خلاف قتل و غارت اور دہشت گردی کے مقدمات بھی کھلنے لگے تو عزیر بلوچ، عبد الرحمن ڈکیٹ اور بابا لاڈلا جیسے کئی نام اور گروہ سامنے آئیں گے، جن کی وحشت و درندگی ایم کیو ایم سے کسی طرح کم نہ تھی۔ جس کے رہنما اور کارکنان زندہ انسانوں کے جسموں میں ڈرل مشینوں سے سوراخ کرکے لطف اندوز ہوتے تھے تو عزیر بلوچ جیسے پیپلز پارٹی کے دہشت گرد مخالفین کے سر کاٹ کر وحشیوں کی طرح ان سے فٹ بال کھیلتے تھے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے یہ ریمارکس قابل غور ہیں کہ ہم نے منی لانڈرنگ کا ازخود نوٹس لیا ہے اور اس کیس کی نگرانی کرتے رہیں گے۔ یہاں ہم اپنے قارئین کو بار بار دوہرایا جانے والا وہ فقرہ یاد دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ شریف خاندان ہو، زرداری ٹولا ہو یا کوئی اور، یہ سب صرف ملکی قانون کی گرفت میں نہیں بلکہ ذات باری تعالیٰ کی پکڑ میں آئے ہیں، جہاں سے بچ نکلنے کا کوئی امکان نہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment