عالم اسلام کی ابھرتی قوت ترکی کے خلاف امریکہ نے معاشی جنگ کا اعلان کر رکھا ہے۔ جولائی 2016ء میں ترکی کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے بعد طاغوتی قوت نے ترکی کو اقتصادی میدان میں زیر کرنے کی ٹھان لی ہے۔ اس ناکام بغاوت میں معاونت کے الزام میں ایک امریکی پادری اینڈریو کریگ برنسن کو ترک اداروں نے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا۔ ایک ما تحت عدالت میں اس کا جرم ثابت بھی ہوا اور اسے قید کی سزا سنائی گئی۔ عالمی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اس پادری کے سینے میں بہت سے راز ہیں۔ جن سے سی آئی اے کے مذکورہ بغاوت میں ملوث ہونے کی قلعی کھل جاتی ہے۔ اس لئے امریکہ نے اسے رہا کرانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ یہاں تک کہ خود امریکی صدر نے ترک ہم منصب سے مطالبہ کیا۔ مگر صدر رجب طیب اردگان نے ٹرمپ کو ٹکا سا جواب دیا کہ ترک عدالتیں آزاد ہیں اور حکومت ان کے فیصلے پر عمل درآمد کی پابند ہے۔ اس کے بعد ترکی پر اقتصادی جنگ مسلط کر دی گئی۔ جس کے نتیجے میں ترک کرنسی لیرا کی قیمت گرنا شروع ہوئی۔ جمعہ کے روز ترک صوبہ ازمیر کی ہائیکورٹ نے ذیلی عدالت کے اس فیصلے کو برقرار رکھا۔ اب امریکہ کھلی دھمکیوں پر اتر آیا ہے۔ امریکی نائب صدر مائیک پینس نے ترک صدر اردگان کو ہوش کے ناخن لینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کے پیمانہ صبر لبریز ہونے سے پہلے پادری کو رہا کر دیں۔ پھر امریکی وزیر خزانہ اسٹیو منوچن نے کہا کہ آنے والے دنوں میں ترکی پر مزید پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ جس کے جواب میں ترک وزیر خارجہ مولود چاووش اوغلو نے کہا کہ ہم دھمکی اور ڈکٹیشن قبول نہیں کرتے۔ ترک عدالتیں آزاد ہیں۔ ان کا ہر فیصلہ صدر اردگان سمیت سب کو تسلیم کرنا ہوگا۔ ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نہ لڑتے ہیں اور نہ ڈرتے ہیں۔ لہٰذا واشنگٹن کی دھمکیوں کے باوجود تمام امور پر بات چیت کیلئے ہمارے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ لیکن دھمکی سے زیر نہیں ہوں گے۔ ترکی اور امریکہ کے تعلقات ماضی میں کافی خوشگوار رہے ہیں۔ ترکی نیٹو کا رکن ہے اور افغان جنگ اور اس سے قبل کورین جنگ میں ترک فوجی امریکیوں کے شانہ بشانہ لڑتے رہے ہیں۔ جبکہ ترکی نے اپنا ایک وسیع و عریض ایئر بیس (انسرلک) بھی امریکہ کے حوالے کر رکھا ہے۔ جس سے امریکی طیارے اڑان بھرتے ہیں۔ مگر رجب طیب اردگان کے برسر اقتدار آنے کے بعد ترکی آہستہ آہستہ امریکی حلقۂ اثر سے نکلتا جا رہا ہے اور روس سے تعلقات بڑھا رہا ہے۔ امریکہ کو خدشہ ہے کہ اگر ترکی مکمل طور پر روس سے جا ملا تو اس سے امریکہ کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ جبکہ فلسطینیوں اور مصری اخوانیوں کی جرأت مندانہ حمایت اور اپنی اسلام پسندی کی بنا پر ترک صدر امریکہ اور اسرائیل کی آنکھوں میں ایک عرصے سے چبھ رہے ہیں۔ اس لئے امریکہ نے پہلے ترکی کے ایک نام نہاد مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کے ذریعے اردگان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ گولن پہلے اردگان کے حامی تھے اور ان کے ہمراہ پاکستان بھی آئے تھے۔ مگر چونکہ ان کے امریکی سی آئی اے سے قریبی تعلقات ہیں۔ اس لئے بعد ازاں دونوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور گولن امریکہ شفٹ ہوگئے۔ جہاں وہ ریاست پنسلوانیا میں ایک لگژری اور وسیع و عریض گھر میں مقیم ہیں۔ گولن کے ہزاروں پیروکار ترک فوج سمیت ہر شعبے میں موجود ہیں۔ جو سی آئی اے کے پروردہ ہیں۔ انہی کے ذریعے گولن نے اردگان حکومت کے خلاف بغاوت کا منصوبہ بنایا۔ جسے عوام نے ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر اور جانوں کے نذرانے پیش کر کے ناکام بنایا۔ ترکی نے متعدد بار امریکہ سے گولن کی حوالگی کا مطالبہ کیا، مگر چچا سام اپنے مہروں کی خصوصی حفاظت کا انتظام کرتا ہے۔ اسی وقت سے ترکی اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی کا آغاز ہوا۔ اسی دوران اردگان نے روس سے ایئر ڈیفنس سسٹم خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ جس پر امریکہ اور نیٹو کے دوسرے ممالک سیخ پا ہوگئے۔ اب پادری کا معاملہ سامنے آنے کے بعد امریکی صدر نے بعض ترک برآمدات پر اضافی ٹیکس لگا کر اقتصادی جنگ کا طبل بجایا۔ اس کے نتیجے میں ترک کرنسی (لیرا) کی قیمت پاتال میں گرنے لگی۔گزشتہ 6 ماہ کے دوران لیرا کی قدرمیں 40 فیصد سے زیادہ کی کمی ہوچکی ہے۔ جبکہ امریکہ نے وہ ایف 35 طیارے بھی روک لئے ہیں۔ جو ترکی کو چند روز میں ملنے والے تھے۔ ایف 35 دنیا کے جدید ترین جنگی طیارے گردانے جاتے ہیں۔ تاہم اردگان نے بھی امریکہ کو ’’’ترکی بہ ترکی‘‘ جواب دیتے ہوئے امریکی درآمدات پر ٹیکس کی شرح دگنی کر دی اور عوام سے اپیل کی کہ وہ امریکی مصنوعات کے بجائے ملکی مصنوعات ہی خریدیں۔ واضح رہے کہ ترکی و امریکہ کے درمیان تجارت کا حجم 18 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ جبکہ اردگان نے نیٹو اتحاد سے علیحدگی کی بھی دھمکی دی ہے۔ عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ترکی نیٹو سے علیحدہ ہوگیا تو اس اتحاد کا شیرازہ بھی بکھر جائے گا۔ عالمی اقتصادی غارت گروں کی ریشہ دوانیوں کے ہاتھوں ترکی کو درپیش اس بحران میں دوست ممالک نے حوصلہ افزا اقدام اٹھایا ہے۔ قطر نے ترکی میں پندرہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ ترکی سے اظہار یکجہتی کیلئے قطر کے سربراہ شیخ تمیم بن حمد الثانی خود انقرہ گئے اور کہا کہ ہم اپنے ترک بھائیوں کے ساتھ بالکل اسی طرح کھڑے ہیں جیسے ترکی آزمائش کی ہر گھڑی میں عالم اسلام کے ساتھ آکھڑا ہوتا ہے۔ جبکہ کویتی علما نے ترکی کا ساتھ دینے کو واجب قرار دیا ہے۔ جمعہ کے روز سعودی مفتی اعظم شیخ عبد العزیز آل شیخ نے بھی امریکہ کے مقابلے میں ترکی کی حمایت کو ضروری قرار دیا ہے۔ پاکستان کی اپنی معاشی حالت خستہ ہے، اس لئے ہم دوست ملک کی مدد سے قاصر ہیں۔ تاہم نومنتخب وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں ترکی کیلئے نیک تمنائوں کا اظہار کیا ہے۔ ان اقدامات سے ترک لیرہ کی قیمت بہتری کی جانب گامزن ہو چکی ہے۔ بادی النظر میں اگرچہ یہ ترک امریکہ کشیدگی ہے، مگر اصل میں یہ ڈالر کی عالمی اجارہ داری ختم کرنے کی جنگ ہے۔ اگر ترکی اس میں کامیاب ہو گیا تو دنیا کی معیشت پر سپر پاور کی یکطرفہ گرفت ختم ہو جائے گی اور دنیا میں معاشی توازن طاقت وجود میں آئے گا، جو عالمی امن و استحکام کیلئے نہایت اہم ہے۔ اس لئے سوشل میڈیا میں دنیا بھر کے مسلم نوجوان ترک لیرا اور ترک مصنوعات خریدنے کی مہم چلا رہے ہیں۔ ہم کچھ اور نہیں کرسکتے تو زیادہ سے زیادہ لیرا اور ترک مصنوعات خرید کر دوست ملک کو بحران سے نکالنے میںاپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ترکی ہر میدان میں ہمارا ساتھ دینے والا برادر اسلامی ملک ہے اور مشکل کی اس گھڑی میں ہمیں بھی حتی الوسع اس کا ساتھ دینا چاہئے۔ شیخ سعدیؒ کے بقول: دوست آن باشد کہ گیرد دستِ دوست!