ڈاکٹر صابر حسین
کہتے ہیں جو صدا دلوں سے نکلتی ہے، وہ دلوں پر اثر کرتی ہے اور جو بات عقل و فہم کی گہرائی سے لبریز ہوتی ہے، وہ سوچ کے تاروں کو جھنجوڑتی ہے اور جو حقیقت، فطرت سے ہم آہنگ ہوتی ہے، وہ روح کے ہیولے میں روشنی پیدا کرتی ہے۔ معاملہ دل کا ہو یا سوچ اور روح کا، یہ بات وہی سمجھ سکتے ہیں، جو زندہ دلوں، پائندہ سوچوں اور پاکیزہ روحوں کے حامل ہوتے ہیں اور اُن کی مستقل نشوونما میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہماری شخصیت اور ہمارے وجود کے ان تینوں Components کو زندہ، پائندہ اور پاکیزہ رکھنے کے لئے روزانہ اُس طرح غذا اور توانائی کی ضرورت رہتی ہے، جیسے ہمارے بدن کو اپنے تمام نظام متوازن رکھنے کیلئے ہوا، پانی، کھانے اور نیند کی باقاعدہ ضرورت ہوتی ہے۔ آکسیجن، پانی، غذا اور آرام کے بنا ہمارا بدن تھکنے لگتا ہے اور آہستہ آہستہ ہماری جسمانی توانائی کم ہونے لگتی ہے۔ اِن چاروںمیں سے کِسی بھی ایک شے کی کمی ہمارے جسم کے مختلف نظاموں کو متاثر کرنے لگتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ یا تو ہم بیمار پڑنے لگتے ہیں یا ہمارے کام اور افعال کی Efficiency اور Productivity جواب دینے لگتی ہے۔
جِسمانی طاقت و توانائی کی کمی کا ہمیں بہت جلد پتہ چل جاتا ہے اور ہم اپنی کمی اور کمزوری پر قابو پانے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔ ہمارے خون میں شوگر یا کولیسٹرول کی مقدار بڑھتی ہے تو چند ہی دِنوں میں علامات پیدا ہونے لگتی ہیں اور ہم علاج شروع کردیتے ہیں۔ ہمارے بدن میں پروٹینز اور وٹامنز کی کمی ہوتی ہے تو کچھ ہی ہفتوں میں جسمانی علامات ہمیں ہماری غذا اور Nourishment پر خصوصی توجہ دینے پر مجبور کردیتی ہیں۔ محض 24 گھنٹے کی پیاس ہمیں پانی پکارنے پر مجبور کردیتی ہے۔ 48 گھنٹے مستقل جاگتے رہنے کے بعد ہم سولی کے تختے پر سوجاتے ہیں۔ ہمارے بدن کا کوئی بھی بیرونی یا اندرونی عضو ذرا سی تکلیف میں آتا ہے، ہم پورے کے پورے تکلیف میں آجاتے ہیں۔
لیکن روز کے روز ہمارے دِل پر جو بیتتی ہے۔ یا ہماری سوچوں میں جو کثافت آتی ہے۔ یا ہماری روح کے آئینے پر جو میل جمتا ہے۔ اِن سب کا ہمیں پتہ نہیں چل پاتا۔ ذرّہ برابر بھی عِلم نہیں ہوپاتا۔ نہ ہم اپنی شخصیت کے اِن تینوں عناصر کی باقاعدہ اور باضابطہ صفائی ستھرائی کا انتظام کرپاتے ہیں۔ نہ اِن کو ہمہ وقت صحت مند اور چاق و چوبند رکھنے کیلئے کوئی اہتمام کرتے ہیں۔ اِن کے اندر جو ٹوٹ پھوٹ، شکست و ریخت ہورہی ہوتی ہے، اُس سے قطعاً لا عِلم رہتے ہیں۔کبھی تو دِل کے کِرچی کِرچی ٹکڑے شور پہ شور مچارہے ہوتے ہیں۔ لیکن ہم اپنے کاموں میں اتنا مصروف ہوتے ہیں کہ ہمیں آواز تک نہیں آتی۔ کبھی دماغ، ذہن اور اعصاب بستر مرگ پر پڑے آخری سانسیں لے رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ہم پیسہ کمانے اور اپنے جسم کو خوبصورت بنانے میں محو ہوتے ہیں اور ہمیں دیوانگی کی دستک بھی نہیں سُنائی دے پاتی۔ کبھی روح آبلہ پا وحشتوں اور تنہائیوں کے صحرا میں بھٹکتی پھرتی ہے۔ لیکن ہم دنیا کی چکا چوند میں اتنے اُلجھے ہوتے ہیں کہ ہمیں اپنے اندر، اپنے آپ کے مرجانے کا بھی احساس نہیں ہوپاتا۔
ظاہری رنگ و بو اور آنکھوں کو چندھیا دینی والی روشنی کی طلب نے ہم سے ہمارے وجود کے تینوں بنیادی عناصر کو چھین لیا ہے اور ہم اندھا دھند اپنے سائے کے تعاقب میں بھاگے چلے جا رہے ہیں اور جسمانی موت سے بہت پہلے بار بار خود کو لہو لہان کررہے ہیں اور مار رہے ہیں۔ آپ نے کبھی سوچا ہے، ایسا کیوں ہورہا ہے؟ نہیں سوچا ہوگا۔ سوچنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ بظاہر سب کچھ صحیح تو ہے۔ صحیح تو ہورہا ہے۔ لیکن یہی سوچ تو اِس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اپنے نفس، اپنے آپ، اپنی شخصیت کے دیگر پہلوئوں سے واقفیت نہیںرکھتے اور جب ہم کِسی بات، کِسی شے سے واقف ہی نہیں ہوں گے تو اُس کے حوالے سے کیا سوچیں گے، اُس بات، اُس شے پر کیا توجہ دے پائیں گے۔
علم ضروری ہوتا ہے۔ آگہی ضروری ہوتی ہے۔ واقفیت ضروری ہوتی ہے۔ کِسی بھی معاملے کو سُلجھانے کیلئے، کِسی بھی مسئلے کو حل کرنے کیلئے۔ ہم روزانہ، آئینہ دیکھتے ہیں۔ منہ دھوتے ہیں۔ نہاتے ہیں۔ بال سنوارتے ہیں۔ بہترین کپڑے زیب تن کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم اِس حقیقت سے واقف ہیں کہ اگر ہم اپنے بدن کو صاف سُتھرا نہیں رکھیں گے اور صاف لباس نہیں پہنیں گے تو ہم جراثیم کا شکار ہو کر بیمار پڑ سکتے ہیں اور اگر ہمارے جِسم اور کپڑوں سے بدبو آئے گی تو ہم لوگوں کے درمیان رہ کر اپنے معمولات اور معاملات کو جاری نہیں رکھ سکیں گے اور لوگ ہم سے کنّی کترانے لگیں گے۔ اِس حوالے سے عِلم اور واقفیت ہمیں ایک دِن میں نہیں مِل گئیں۔ بچپن سے ہی ہمیں بتایا، پڑھایا اور سمجھایا جاتا رہا ہے کہ زندگی میں PERSONAL HYEGINE کی کتنی اہمیت ہے۔
لیکن پہلی جماعت سے لے کر Ph D کے آخری سمسٹر کے نصاب میں کہیں بھی دِل، دماغ اور روح کی صحت اور صفائی کے حوالے سے کوئی مضمون، کوئی باب نہیں ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم اور تربیت کے کِسی مقام، کِسی درجے، کِسی اسٹیج پر شخصیت کے اِن تین اہم عناصر کی صحت، صفائی اور Growth اور Grooming کا عِلم نہیں دیا جا تا۔ کوئی ماں، کوئی باپ، کوئی استاد، کوئی رہنما اِس مختلف پیرائے میں آگہی فراہم نہیں کرتا کہ جِس طرح ہم اپنے جِسم کا خیال رکھتے ہیں۔ اُس طرح بلکہ اُس سے کہیں زیادہ ہمیں اپنے قلب، اپنے ذہن، اپنے نفس کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے اور ایسا نہ کرنے کے نتیجے میں ہم آگے چل کر ایسے پیچیدہ اور گنجلک مسائل اور اُلجھنوں میں گرفتار ہو جاتے ہیں، جو تمام عُمر ہمارے دامن سے چِپکے رہتے ہیں اور ہمیں آدمی سے انسان نہیں بننے دیتے۔
طرح طرح کی روحانی، قلبی، ذہنی، اعصابی اور نفسی و نفسیاتی بیماریاں ہمارے وجود، ہماری شخصیت کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہیں اور اِن کے اثرات ہم سے دِل کا چین اور ذہن کا سکون چھین لیتے ہیں۔ اِس کی بنیادی وجہ محض عدم واقفیت اور لا علمی ہوتی ہے۔ ہمیں کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ ہمیں بڑے ہوتے ہوئے بھی کچھ پتہ نہیں چل پاتا کہ جسمانی صحت ہماری شخصیت کا محض 25 فیصد Component ہے۔ ہم تمام عمر اپنے وجود کے 25 فیصد حصّے کو سنوارنے میں اپنی 100 فیصد توانائی خرچ کرتے رہتے ہیں۔ مگر پھر بھی اپنی جسمانی صحت اور خوبصورتی کو مُرجھانے سے نہیں روک پاتے۔ کیونکہ ہمیں اِس بات کا ادراک ہی نہیں کہ جب تک شخصیت کے پودے کی جڑیں نشو و نما اور طاقت نہیں پائیں گی، اُس وقت تک ہم اُس کے پھولوں، پھلوں اور پتوں کو ایک خاص حال و کیفیت میں برقرار نہیں رکھ سکتے اور شخصیت کے پودے کی جڑیں دِل، دماغ اور روح ہوتی ہیں۔ جِس شخص کے اندر یہ تینوں عناصر ہمہ وقت اپنی غذا پاتے رہتے ہیں۔ اُس کا بدن 50 – 60 سال کی عمر کے بعد بھی اپنی تمام تر فطری تبدیلیوں کے باوجود اندر سے تروتازہ رہتا ہے اور ایسا شخص اپنی ضعیفی کے باوجود نوجوانوں سے زیادہ چُست اور متحرک رہتا ہے۔
اگر آپ بھی اپنی عُمر کے تمام حصّوں میں مستقل آگے بڑھتے رہنا چاہتے ہیں اور ہمہ وقت کام کو آرام پر فوقیت دینا چاہتے ہیں تو آپ کو ہمہ وقت اپنی شخصیت کے پوشیدہ 75 فیصد زاویوں کی نشوونما کا اہتمام رکھنا ہوگا۔ اپنی جڑوں کی خوراک کا خیال رکھنا ہوگا۔ دِل، دماغ اور روح کی نمو کیلئے کِن باتون کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ ذکر پھر کِسی اور دِن سہی۔ جب تک کیلئے اگر ہم پہلے بنیادی جُز کو Adopt کرلیں اور اُس کی مشق شروع کردیں تو اِس ضمن کا اگلا Chapter پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ کوئی بھی بات الف یا A سے شروع ہوتی ہے۔ الف اور A سے عدم واقفیت، بنیاد کے بِنا عمارت بنانے کی کوشش ہوتی ہے اور ایسی ہی کوششوں اور حرکتوں اور حماقتوں کی وجہ سے آج ہمارا پورے کا پورا معاشرہ ہر طرح کی سماجی، معاشی اخلاقی، شخصی، روحانی، مذہبی، قلبی اور نفسانی اور نفسیاتی کمی کجی اور زبوں حالی کے طوفان کی زد میں ہے۔
دِل، دماغ اور روح اور اِن کے ساتھ اپنے بدن کو سیراب اور شاداب رکھنے کیلئے ہمیں بچپن سے لے کر بڑھاپے تک جِس بنیاد، جِس بنیادی الف کی ضرورت ہوتی ہے، وہ خدمت ہے۔ Unconditional خدمت۔ بِلا غرض، ایثار اور خلوص سے بھرپور خدمت۔ پودوں، پرندوں، بڑوں، چھوٹوں کی خدمت۔ خلقِ خُدا کی خدمت۔ اور خدمت کے جذبے کی تلقین، تبلیغ اور تربیت۔
اگر ہم اپنی شخصیت کی اِس بنیادی بنیاد کو اپنی عادت، اپنی فطرت بنا کر مضبوط بنالیتے ہیں تو B.C.D کی پُختہ چھتیں میسّر نہ بھی ہو پائیں، تب بھی خدا کی رحمت اور برکت کا چھپّر ہمیں وہ طاقت وہ توانائی دے ہی ڈالتا ہے جو ہماری شخصیت کے چاروں عناصر کیلئے کافی رہتا ہے۔