لو کر لو گل، خان صاحب کا حلف نہ ہوا، مقابلے کے امتحان میں شامل، اردو زبان کا سوال نامہ ہوگیا، جس میں امیدوار اپنی ’’عجوبہ روزگار‘‘ کا اظہار پیٹ بھر کر، کر جاتے ہیں۔ اس کے بعد ممتحن یا انتظامیہ ان عجوبۂ روز گار صلاحیتوں کی تشہیر کر کے قوم کو تفنن اور تفریح طبع کا سامان مہیا کرتے ہیں۔
نو منتخب وزیر اعظم عمران خاں نے ہفتے کے روز، وزیر اعظم کی حیثیت سے ایوان صدر میں حلف اٹھاتے ہوئے اردو زبان کے چند مختصر پیرا گراف یوں پڑھے کہ قہقہے ہی نہیں پڑے، ہنس ہنس کر حاضرین وناظرین کے پیٹ میں بل پڑ گئے۔ حلف برداری کی ابتداء میں ہی شیروانی کے نیچے زیب تن کُرتے کی جیب سے چشمے کی تلاش خان صاحب کے لئے پہلا امتحان ثابت ہوئی۔ بھارت سے آئے ہوئے خان کے دوست اور معروف سابق کرکٹر اور موجودہ سیاست دان نوجوت سنگھ سدھو نے اس سین کو اپنے روایتی مزاحیہ انداز میں ویڈیو کے ساتھ ٹیوٹر اکاؤنٹ پر بھپتی کے انداز اور رومن پنجابی میں یوں رقم کیا: main sochya khan bandooq kadan lagya (میں نے سوچا خان بندوق نکالنے لگا ہے) چشمے کی تلاش میں خان صاحب کچھ اسی قسم کا منظر نامہ سامنے لائے جس کا اظہار نہ صرف سدھو نے کیا بلکہ ٹی وی کیمرہ مین کو اپنا کیمرہ بھی آؤٹ کرنا پڑا۔ اردو ٹیکسٹ دہراتے ہوئے قیامت اور قیادت میں تفریق نہ کرنے پر تو خاں نے قاعدہ پڑھنے والے کسی ضدی اڑیل بچے کو بھی مات دے ڈالی، بے بس و لاچار اتالیق (صدر ممنون) کے کئی بار دوہرانے کے باوجود بھی خان کسی غائب دماغ طالب علم کی طرح قیامت کو قیادت ہی پڑھتے رہے، جس پر اتنا مضحکہ ہوا کہ موصوف خود بھی قہقہہ لگائے بنا نہ رہ سکے اور پھر جلدی سے سوری کہہ کر آگے بڑھ گئے۔ اس تذبذب میں ان کا کوئی دوش نہیں، اصل میں خان صاحب کے دل و دماغ پر قیادت کے لفظ کا اتنا غلبہ ہے کہ اس قافیے کا ہر لفظ انہیں قیادت کے سانچے میں ہی ڈھلا نظر آتا ہے۔ بھلا ہو صدر ممنون کا جنہوں نے بارہا خان صاحب کی تصحیح کرا کے ان کے حلف کو قبولیت کی سند بخشی اور یوں خان کے لئے وزیر اعظم شپ ’’حلال‘‘ قرار پائی۔
مقابلے کے امتحان میں امیدواروں کے صرف کارنامے منظر عام پر لائے جاتے ہیں، نام صیغۂ راز میں ہی رکھے جاتے ہیں، مگر اعلیٰ حکومتی عہدوں کی تقریبات بالخصوص حلف ناموں کی تقریبات میں ایسا ممکن نہیں۔ سارے اسرار و رموز دوران تقریب حاضرین کے سامنے اور براہ راست ٹی وی چینلز کے ذریعے دنیا بھر میںعام ہو جاتے ہیں۔ خان کی شخصیت کی کرکٹ میں عالمی شہرت کے سبب ان کی تقریب حلف برداری پاکستان کے علاوہ دنیا میں کئی اور ممالک کے ٹی وی چینلز بھی براہ راست دکھا رہے تھے۔ اب خان کی کنفیوژن پر لوگوں نے کیا سوچا ہوگا، اس کا اندازہ کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں، جب کہ خان اپنی زبانی اپنی ہر تقریر میں اپنے کانفیڈنس کا تذکرہ بطور خاص کرتے ہیں۔ جیسی غلطیاں خان سے ایوان صدر میں حلف اٹھاتے ہوئے سرزد ہوئیں، ایسے ہی اغلاط سے سندھ میں آغا سراج درانی بھی دوچار ہوئے، جو عین اسی روز قائم مقام گورنر کی حیثیت سے سید مراد علی شاہ سے وزیر اعلیٰ سندھ کے عہدے کا حلف لے رہے تھے۔ اردو زبان کے چند مختصر پیراگراف پر مشتمل حلف نامہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کے لیے کتنا سخت امتحان ہوتا ہے، اس کا اندازہ حافظ جی کو عمران خان کے حلف اٹھانے اور سراج درانی کے حلف لینے کی تقریبات دیکھ کر ہوا۔ آغا سراج درانی سید مراد علی شاہ سے حلف لیتے ہوئے کئی مقامات پر اردو جملوں پر یوں لڑکھرائے کہ ان سے حلف لینے والے مراد علی شاہ نے درست جملہ دہرا کر انہیں سہارا دیا۔ حافظ جی کو بالکل بھی اندازہ نہ تھا کہ عمران خان کی اردو اتنی گلابی ہوگی کہ وہ لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ پڑھنے اور دہرانے سے بھی قاصر ہوں گے، جبکہ وہ گاہے بگاہے ریاست مدینہ کی گردان کرتے نظر آتے ہیں، مگر مدینہ کی ریاست والے کے نام، مقام و مرتبے سے اتنے نابلد کہ کئی بار دہرائے جانے کے باوجود کے باوجود بھی ان کے منہ سے خاتم النبیین درست نہ نکلا، اگرچہ انہوں نے کئی بار اس کی کوشش بھی کی، اسے قوم المیہ کہے یا کچھ اور… بہرحال عمران خان اور آغا سراج درانی کلابی اردو نے حافظ جی کا مورال کم از کم اتنا تو بلند کر دیا ہے کہ اب وہ کہیں بھی اپنی ’’پنک انگلش‘‘ سے گھبرانے والے نہیں۔
وفاق میں خاں صاحب اور سندھ میں مراد علی شاہ کی تقریب حلف وفاداری اور ان میں ہونے والی اغلاط کے چہار سو چرچے ہیں۔ خان اور درانی صاحبان کی قومی زبان میں اٹکنیں بہت سوں کو مدتوں ہضم نہیں ہوں گی۔ بعض پارٹی قائدین، ان کے نائبین، مصاحبین اور ان کے ناقدین سب ہی کو بے دریغ تنقید کا موقع ہاتھ آ گیا ہے۔ اب کئی ہفتے اس پر خوب لے دے ہوگی، ٹی وی ٹاک شوز میں اینکرز حضرات جگالی شروع کر چکے ہیں اور کالم نگار اپنا منجن بیچ رہے ہیں۔ حافظ جی کا شمار ان لوگوں میں قدرے فاصلے سے کیا جا سکتا ہے، سوچا کہ اس سب کا سبب کیا ہے؟ سبب یہی ہے کہ کسی نے بھی ملک کی باگ ڈور سنبھال کر آج تک اردو زبان کو اس کا جائز حق نہیں دیا۔ سو نتیجہ ہزیمتوں کے طور پر برآمد ہو رہا ہے۔ اسی ہزیمت سے فرار کے لئے بلاول سے انگلش میں تقریر کرائی گئی۔دو ہزار تیرہ میں آصف علی زرداری نے نواز شریف سے انگلش میں حلف بھی اسی سبب لیا تاکہ اردو بولنے اور پڑھنے کے دوران اغلاط پر ان کی پکڑ نہ ہو۔
بعض لوگ اردو میں حلف برداری کو صدر ممنون حسین کا رہین منت قرار دے رہے ہیں۔ نادانوں کی یادداشت اتنی کمزور ہے کہ انہیں سرکاری و غیر سرکاری تقریبات اور دفتری زبان کے طور پراردو زبان کے استعمال کا سپریم کورٹ کا حکم نامہ بھی یاد نہیں۔ بہت سے ادارے اور سپریم کورٹ خود بھی نہ جانے کیوں اردو زبان کے استعمال سے خائف ہے؟ خدا جانے وہ کون سا خوف ہے جو انہیں اردو زبان بولنے اور لکھنے سے خوف زدہ رکھتا ہے؟ اس تناطر میں حافظ جی اپنے تمام تر تحفظات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کپتان خان کو خراج تحسین ضرور پیش کریں گے کہ انہوں نے یہ جاننے کے باوجود کے ان کی اردو گلابی ہے، پھر بھی انہوں نے اردو زبان میں ہی حلف اٹھانے کو ترجیح دی، ورنہ ان کے لئے کیا مشکل تھا، کہہ دیتے کہ سابقین کی طرح حلف انگلش میں لوںگا، کون تھا جو وزیر اعظم کی اس فرمائش کو رد کرنے کی جرأت کرتا؟ عمران خان کی انگلش اور ان کی ضد سے بھلا کون ناواقف ہے؟ وہ لوگ جو خان کی تقریب حلف برداری میں نو ڈشوں کے ذائقوں سے محروم محض چائے بسکٹ پر ٹرخادیئے گئے، ہوشیار رہیں کہ ملک میں تبدیلی آچکی ہے، اب وزیر اعظم ایک ایسا شخص ہے، جو کسی بھی دن مدعو مہمانوں سے یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ چائے وزیر اعظم کی طرف سے، بسکٹ کھانے ہوں تو اپنے ساتھ لائیے۔
گستاخی معاف! حافظ جی وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ لوگ جو آج کپتان کی ’’گلابی اردو‘‘ پر تنقید کے دفتر کھول بیٹھے ہیں اور اپنی دانشوری کے ڈونگرے برسا رہے ہیں، اگرحافظ جی سمیت ان کے سامنے عمران خان انگلش بولنا شروع کر دے تو سب کے سب بغلیں جھانکتے رہ جائیں۔ حافظ جی اردو زبان میں حلف اٹھانے پر عمراں خان کو مبار ک باد پیش کرتے ہیں، جنہوں نے اپنی تضحیک کی پروا کئے بنا قومی زبان کا تشخص برقرار رکھا۔ کاش عمران خان کی طرح مملکت کے دیگر ذمہ داران بھی قومی زبان کو رائج کرنے کی اسی راہ پر گامزن ہوں۔ (وما توفیقی الاباللہ)