بلاول کی باری

پاکستان کی تاریخ میں وہ دن ناقابل فراموش تھا، جس دن عمران خان وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا رہے تھے۔ اس دن تین بار وزیر اعظم بننے والے میاں نواز شریف جیل میں تھے، جس دن گرفتاری سے بچنے کے لیے آصف علی زرداری اپنے گارڈز اور اپنی چھوٹی بیٹی کے ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ میں حفاظتی ضمانت حاصل کرنے کے لیے داخل ہو رہے تھے اور جب وہ ضمانت حاصل کرنے کے بعد اپنی بیٹی کے ہاتھ کا سہارا لے کر گاڑی میں بیٹھ رہے تھے، تب کسی صحافی نے ان سے اس صورت حال پر تبصرہ کرنے کو کہا اور انہوں نے اردو کے ایک پرانے اور بھولے بسرے شعر کی یہ پہلی سطر سنائی:
’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘
اور اپنی سفید رنگ کی پراڈو میں بغیر سہارے بیٹھ گئے!!
کیا آصف زرداری واقعی علیل ہیں یا وہ علالت کی ایکٹنگ کر رہے تھے؟ اس سوال پر کسی کی رائے کیسی بھی ہو سکتی ہے، مگر آصف زرداری پر نظر رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ جب بھی ان کے سر پر گرفتاری کا منحوس سایہ لہرانے لگتا ہے، تب وہ جیل سے بچنے کے لیے ہاتھ میں چھڑی تھام لیتے ہیں اور جب بھی وہ جیل سے رہا ہوتے ہیں تو وہ چھڑی جیل میں ہی چھوڑ آتے ہیں۔ آصف زرداری نے جیل میں بہتر وقت گزارنے کا یہ نسخہ ڈاکٹر عاصم کو بھی بتایا تھا اور اس تیکنک پر سندھ کے سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن ابھی تک عمل پیرا ہیں۔ مگر بقول شاعر ’’عمر بھر کون حسیں کون جواں رہتا ہے؟‘‘ اس وقت آصف زرداری عمر اور صحت کے اس موڑ سے گزر رہے ہیں، جہاں ان کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔ وہ جب بھی ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں، ان کی طبیعت بگڑ جاتی ہے۔ ان کی ایسی طبیعت کی وجہ سے ان سے بچے کہتے ہیں کہ وہ اب عملی سیاست کا بوجھ اپنے سر پر نہ لیں، مگر وہ نہیں مانتے۔ ان کا خیال ہے کہ صرف انہوں نے سب کچھ سنبھالا ہوا ہے۔ اگر انہوں نے ہاتھ نکالا تو سب کچھ بکھر جائے گا۔ ممکن ہے کہ یہ احتیاط ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ طاقت کی کشش ہو!!؟ پاور کے لیے کہتے ہیں کہ ’’یہ دنیا کا سب سے خطرناک نشہ ہے۔ جس کو بھی اس نشے کی لت پڑ گئی، وہ آخری سانس تک اس کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘ اگر اس ضمن میں ہم روم کے سیزرس سے لے کر برصغیر کے بادشاہوں تک کے قصے بیان کریں تو شاید ایسی باتوں کو ماضی کی کہانی قرار دیا جائے، مگر طاقت اور وہ بھی اقتداری طاقت کبھی بھی وقت کی مٹھی میں قید نہیں ہوتی۔ طاقت کا جادو ہر دور میں انسان کے ہوش و حواس پر غالب آجاتا ہے۔
یہ طاقت کی کشمکش ہے، جس کی وجہ سے حالیہ انتخابات کے دوران پاکستان میں بری طرح شکست کھانے والی اور سندھ میں ماضی سے زیادہ نشستوں پر کامیاب ہونے والی پیپلز پارٹی قیادت کے حوالے سے پریشان حالی کا شکار ہے۔ اصولی اور آئینی طور پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیں، مگر عملی طور پارٹی آج بھی آصف زرداری کے ہاتھوں میں ہے۔ کس بندے کو کس پوزیشن پر بھیجا جائے؟ کس کو پیچھے دھکیلا جائے؟ کس کو آگے لایا جائے؟ ان ساری باتوں کا فیصلہ آصف زرداری کرتے ہیں۔ وہ آصف زرداری، جن کی طبیعت اب ٹھیک نہیں رہتی، مگر وہ پارٹی کو حکومت سازی کے مرحلے میں چھوڑ کر علاج کے لیے بیرون ملک جانے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے دوست اور ان کے خیر اندیش ان سے ہمیشہ کہتے ہیں کہ انہیں آرام کی ضرورت ہے، مگر انہیں اقتدار کی بے آرامی میں زیادہ آرام ملتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر والد کی طرح انہیں اپنے بچے عزیز ہیں، مگر پاور انہیں بہت پیارا ہے۔ جب انتخابی مہم کے دوران لیاری میں بلاول پر پتھراؤ ہوا تھا، تب انہوں نے فون پر اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ ’’ڈرو مت، ڈٹ جاؤ، یہ سیاست ہے۔‘‘ حالانکہ اسے اپنے بیٹے کی حفاظت کی فکر بھی تھی، مگر جب انہیں پارٹی کے سادہ مزاج لوگ یہ کہتے تھے کہ ’’سائیں! ماشاء اللہ ان انتخابات میں بلاول صاحب آپ سے بھی کامیاب ہو جائیں گے‘‘ تب ان کی مسکراہٹ میں نوٹ کرنے جیسی تلخی آجاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب بلاول تین میں سے دو نشستوں پر ناکام ہوئے، تب آصف زرداری کو تشویش کے بجائے اطمینان کا احساس ہوا۔ وہ اپنے بیٹے سے محبت کرتے ہیں، مگر اقتداری کھیل میں انہیں اپنے بیٹے کی بھی برابری قبول نہیں۔
اس وقت عملی طور پر پیپلز پارٹی دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک حصہ ان ممبرز پر مشتمل ہے، جو کسی نہ کسی طرح اپنے حلقے سے کامیاب ہو آتے ہیں۔ ان کا انتخابی نیٹ ورک بہت اچھا ہے۔ وہ پیسہ بھی خرچ کرتے ہیں، مگر وہ ووٹ صرف نوٹ دے کر نہیں لیتے۔ ان کے اپنے حلقے میں ووٹرز سے نسبتاً بہتر تعلقات ہیں۔ وہ عمومی طور پارٹی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ انہیں یہ شکایت رہتی ہے کہ پارٹی قیادت پارٹی کے اصولوں اور قاعدوں کا خیال نہیں رکھے گی تو پارٹی زیادہ عرصے تک کامیابی سے ہمکنار نہیں رہ سکتی۔ ایسی سوچ والے پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو کے حامی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آصف زرداری کی شخصیت عوام کے لیے پسندیدہ نہیں۔ اس لیے بلاول صاحب کے ہاتھوں میں پارٹی کی باگ ڈور ہونی چاہئے۔ مگر پیپلز پارٹی میں ایسے لیڈروں کی کوئی کمی نہیں، جو عوام میں نہیں جاتے اور جنہیں فیلڈ ورک کا سن کر بخار چڑھ جاتا ہے، مگر وہ آصف زرداری کے موڈ کو بخوبی جانتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ زرداری صاحب کو کس طرح خوش رکھا جاسکتا ہے؟ وہ چاہتے ہیں کہ پارٹی کی ساری طاقت آصف زرداری کے ہاتھوں میں ہو اور اس طاقت کا ایک حصہ انہیں بھی ملتا رہے۔ وہ لوگ پارٹی کی میٹنگز میں کم بیٹھتے ہیں، مگر میٹنگ سے پہلے اور میٹنگ کے بعد وہ آصف زرداری کے ساتھ سائے کی طرح رہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی میں اس وقت سے نہیں، بلکہ کافی وقت سے یہ کشمکش موجود ہے۔ پارٹی کا بہت بڑا حصہ بلاول کا حامی ہے۔ جب کہ پارٹی کا دوسرا حصہ آصف زرداری سے الفت رکھتا ہے۔
آصف زرداری کے بارے میں تو ہم سب جانتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان کا انداز سیاست وڈیروں جیسا ہے۔ مگر ان کے صاحب زادے بلاول نہ صرف اپنے خیالات بلکہ اپنے مزاج میں بھی ماڈرن ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کو جدید بنیادوں پر چلانا چاہتے ہیں۔ مگر ان کے والد اور ان کے والد کی لابی ان کے آگے مسائل پیدا کرتی رہتی ہے۔ سیاسی پارٹیوں میں مفادات اور مزاجوں کے حوالے سے مختلف گروپ پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ ایک تو ہوتی ہے پارٹی کے اندر جدوجہد اور ایک ہوتی ہے پارٹی کے اندر مزاحمت۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے اندر آصف زرداری کی لابی بہت مزاحمت کر رہی ہے۔ اب وہ لابی جدوجہد نہیں کرتی جو بلاول کی حامی ہے۔ کیوں کہ بلاول نے اصولی طور اپنے والد سے سندھ میں سیاست کرنے کے سلسلے میں فیصلوں کا اختیار حاصل کر لیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری ایسے بھی فیصلے نہیں کرتے، جو فیصلے آصف زرداری کے لیے ناقابل قبول ہوں، مگر ان کے بہت سارے فیصلے ان کے والد کو پسند نہیں۔ آصف زرادری طبیعت کی وجہ سے زیادہ تکرار نہیں کرتے۔ بلاول کو بھی معلوم ہے کہ ان کے والد کے پسندیدہ لوگوں کو کس طرح خوش رکھنا ہے، مگر وہ سب کو خوش نہیں رکھ سکتا۔ مگر ایک حصہ ان سے خوش ہے۔ بلاول نے اپنے والد سے پہلے بھی شکایت کی تھی کہ انہوں نے جس طرح سندھ حکومت کو پارٹی کے معمر رہنما سید قائم علی شاہ کے حوالے کیا، اس سے پارٹی کو بہت نقصان ہوا تھا۔ سید مراد علی شاہ کے آصف زرداری سے بھی بہت اچھے تعلقات ہیں، مگر انہیں سندھ کا وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ بلاول کا تھا اور اس بار بھی وہ بلاول کی وجہ سے دوبارہ سندھ کے چیف منسٹر ہوئے ہیں۔
سید مراد علی شاہ کو یہ بات کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ ’’اس بار ہم بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ایماندار وزیر لائیں گے‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ کیا پچھلی بار اپنے وزراء کے بے ایمان ہونے کا وہ خود اعتراف کر رہے ہیں؟ جب سینے میں بہت ساری باتیں دبی ہوئی ہوں، تب کچھ باتیں نکل ہی جاتی ہیں۔ اس بار سندھ حکومت نے صرف آٹھ وزیروں اور دو مشیروں کا اعلان کیا ہے، مگر حکومت سندھ کی اس ٹیم میں زیادہ تر وہ افراد ہیں، جنہیں بلاول بھٹو پارٹی کے لیے بہتر سمجھتے ہیں۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس بار سندھ کابینہ کے انتخاب میں آصف زرداری سے زیادہ بلاول کا ہاتھ ہے۔ جس طرح عمران خان نے انتخاب جیتنے کے بعد تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ہم نے بہتر کارکردگی نہ دکھائی تو ہمارا حشر اے این پی اور ایم ایم اے سے بھی برا ہوگا، اسی طرح یہ بات بلاول نے اپنے کامیاب ہونے والے پارٹی کے نمائندوں سے کہی ہے۔ بلاول کا خیال ہے کہ اگر پارٹی کو میرٹ کے بجائے صرف ذاتی پسند اور ناپسند پر چلایا گیا تو پارٹی بہت جلد سندھ میں بھی اس طرح بیٹھ جائے گی، جس طرح پاکستان کے باقی صوبوں میں بیٹھ گئی ہے۔ بلاول پارٹی کے ان لوگوں سے اتفاق کرتے ہیں، جو ان سے کہتے ہیں کہ ’’سر! اس وقت ہمیں سخت حالات کا سامنا ہے۔ عمران خان کے احتساب والے نعرے ہمارے لیے مشکل صورت حال پیدا کر سکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں سندھ میں تیسری بار حکومت چلاتے ہوئے بڑی احتیاط سے کام لینا ہوگا۔‘‘ بلاول کو اس بات سے اصولی طور پر کوئی اختلاف نہیں۔ وہ اپنے والد کی طرح ضدی نہیں ہیں۔ وہ جدید دور کے جدید نوجوان ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پارٹی کو جدید انداز سے منظم کیا جائے، مگر آصف زرداری تک جب یہ بات پہنچتی ہے، تب وہ اپنے مخصوص انداز میں قہقہہ بلند کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میرا بیٹا ماڈرن دور کا نوجوان ہے۔ وہ سب کی عزت کرتا ہے۔ وہ سب کو صحیح سمجھتا ہے۔ اس کو یہ نہیں معلوم کہ سب صحیح نہیں ہوتا۔ صحیح اور غلط صرف مفاد ہوتا ہے۔ وہ دبئی میں بڑا ہوا ہے۔ اس نے لندن میں تعلیم حاصل کی ہے۔ اس نے امریکہ کو دیکھا ہے۔ اس کو پاکستان کا نہیں پتہ۔ اس کو پٹھانوں کا مزاج نہیں معلوم۔ وہ پنجابیوں کی نفسیات کو نہیں جانتا۔ وہ سندھ کو نہیں سمجھ سکتا۔ اس نے تو یہ کہاوت بھی نہیں سنی ہوگی کہ ’’سندھ کو طاقت سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔‘‘
اس بار سندھ حکومت چلانے کا اصولی اختیار بلاول کے حوالے ہے، دیکھیں وہ اپنی باری کس طرح کھیلتے ہیں؟٭

Comments (0)
Add Comment