نئی حکومت اور مستقبل کے چیلنجز

ڈاکٹرعمرفاروق احرار
تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو چکی ہے اور یوں عمران خان کو اپنی 22 سالہ جدوجہد کا پھل ملک کے 22 ویں وزیر اعظم بننے کی صورت میں مل گیا ہے۔ عمران خان نے ہنگامہ خیز سیاسی زندگی گزاری ہے۔ انہوں نے سخت ترین اپوزیشن کا کردار ادا کیا اور اب خود انہیں بھی مضبوط اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے پی ٹی آئی کی حکومت سخت دباؤ میں رہے گی اور اُسے ہر قدم پھونک پھونک کراُٹھانا پڑے گا۔ اگرچہ ابھی تک اپوزیشن خود اپنی ترجیحات کے تعین میں تقسیم ومنتشر ہے اور وہ ابھی تک کسی واضح لائحہ عمل کو اختیار کرنے میں کامیاب نہیں ہورہی، لیکن مستقبل میں اپوزیشن مفادات مشترک ہو جانے پر پی ٹی آئی کے خلاف متحد ہونے اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے میں کامیاب بھی ہو سکتی ہے۔ آئندہ چند ماہ میں صورت حال خاصی حدتک واضح ہو جائے گی کہ حکومت اور اپوزیشن کا اُونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ یہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کی بصیرت کا امتحان ہے کہ وہ سیاسی مخالفت کو کم کرنے میں اپنی صلاحیتوں کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔
کسی حکومت کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے اُس کے پہلے ایک سو دن نہایت اہم سمجھے جاتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان ان سو دنوں میں کون سے انقلابی اقدامات اٹھاتے ہیں۔ اگرچہ ابھی تک ان کے اقدامات کی ترجیحات واضح نہیں ہیں، مگر امکان یہی ہے کہ وہ اپنے اعلانات کے مطابق پولیس، محکمہ مال اور تعلیم کے شعبے میں اصلاحات اور تبدیلی لانے کی کوشش کریں گے، جیسے کہ ان کی حکومت نے خیبر پختونخواہ میں ان محکموں میں اصلاحات لائی تھیں۔ اگر پی ٹی آئی حکومت پولیس کو سیاسی دباؤ سے آزاد کرانے اور پٹواری کلچر سے چھٹکارا دلانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ملک میں یقینا بہت بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔ اگرچہ خیبر پختونخوا میں پولیس کی کارکردگی میں اضافے کی وجوہات میں مخصوص حالات میں ورلڈ بینک کی خصوصی امداد اور پولیس نفری میں اضافہ بھی شامل تھا، لیکن اس کے باوجود پولیس اصلاحات میں خاطرخواہ اضافہ نہیں لایا جاسکا اور نہ عمران خان کے دعوئوں کے باوجود صوبے میں امریکا کے شیرف طرز کا پولیس سسٹم متعارف کرایا جاسکا، بلکہ کئی اہم ترقیاتی پراجیکٹس جیسے ماڈرن فارنزک لیبارٹری اور سیف سٹی پروجیکٹ کے قیام کی بجائے نمائشی سرگرمیاں دکھانے کی کوشش کی گئی، جیسے ڈائریکٹوریٹ آف کاؤنٹر ٹیررازم کا نام بدل کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ رکھ دیا گیا۔ اسی طرح محکمہ مال میں کافی حد تک تبدیلی کے باوجود لینڈ لارڈز مافیا پر ہاتھ نہ ڈالا جا سکا۔ تحریک انصاف کو ان خامیوں سے پاک نظام متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔
عمران خان پانچ برسوں میں ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر تعمیرکرکے عوام کو دینے کا اعلان کیے بیٹھے ہیں، انہوں نے اپنی جماعت کے منشور کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہماری حکومت میں معیشت کی بحالی بڑا چیلنج ہے۔ سی پیک گیم چینجر میں تبدیلی، نئے ڈیمز کی تعمیر، توانائی بحران کا خاتمہ، معیشت کی بحالی، غربت کا خاتمہ، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، سیاحت، صنعت اور آئی ٹی کے شعبے میں فروغ، ایف بی آر میں نئی اصلاحات، ویلتھ فنڈ کا قیام، اداروں کی مضبوطی، بیورو کریسی میں سیاست کا خاتمہ، کرپشن کا خاتمہ، نیب کی خود مختاری، ملک بھر کی پولیس غیر سیاسی، گلگت، بلتستان کو مزید اختیارات کی فراہمی اور جنوبی پنجاب تحریک کی حمایت منشور کا حصہ ہو گی۔‘‘ اب حکومت سازی کے بعد تحریک انصاف پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے منشور پر عمل درآمد کو یقینی بنائے اور عوام کے مصائب اور ملک کے مسائل کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
پاکستان کے معاشی مسائل عمران خان کی طرف سے دیرپا حل کے منتظر ہیں۔ موجودہ حالات میں پاکستان کو فوری طور پر 10 سے 15 ارب ڈالر کی ضرورت پڑے گی، جس کے لئے آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑ سکتا ہے، اگر پاکستان کو ترکی، چین اور سعودی عرب سے خاطر خواہ امداد مل جائے تو معاشی بحران ٹل سکتا ہے، لیکن اس کے لیے شفاف، دیرپا اور مستقل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، کیونکہ شاید پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے کہ جہاں قرضے اتارنے کے لیے مزید قرضے لیے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم کیلئے پرنسپل سیکریٹری، صوبائی چیف سیکریٹریز، آئی جیز، چیئرمین ایف بی آر اور دیگر اہم عہدوں پر افسران کی تعیناتی کرنا بھی بڑا چیلنج ہو گا۔ دیگر چیلنجز کے ساتھ اہم عہدوں پر اچھی شہرت کے افسران کا تقرر بھی اہم مرحلہ ہوگا۔ جبکہ وزارت داخلہ کے ماتحت ادارے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کی تعیناتی بھی بڑی اہم ہے۔ نیکٹا میں تعیناتی کے لئے افسر کا انتخاب اہم مرحلہ ہو گا۔ اگر ان تمام عہدوں پر ایماندار اور اچھی شہرت کے حامل افسران لائے جائیں تو یہ گڈ گورننس کی بہترین مثال بن سکتی ہے۔ نئی حکومت کو درپیش معاشی چیلنجز کے ساتھ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کو کنٹرول کرنے جیسے مسائل بھی کے حل کرنے کے لئے تجربہ کار اور غیر متنازعہ گورنر اسٹیٹ بینک کی تعیناتی بھی ایک کٹھن مرحلہ ہے۔
عمران خان اس عزم کا اظہارکر چکے ہیں کہ ’’وہ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ دنیا کی پہلی فلاحی ریاست مدینہ جو پاکستان کیلئے رول ماڈل ہے، کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی گئی تھی، ہم بھی ان ہی اصولوں سے پاکستان کو فلاحی ریاست بنائیں گے۔‘‘ عمران خان اگر صدقِ دل کے ساتھ ملک کو مدینہ کی ریاست کے طرز پر چلانا چاہیں تو اُن کے لیے قراردادِ مقاصد، تمام مکاتب فکر کے علماء کے مرتب کردہ بائیس نکات اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات مشعل راہ اور ممدو معاون ثابت ہوسکتی ہیں اور اُن کے راستے میں کسی بھی قسم کی کوئی قانونی یا مسلکی رکاوٹ باقی نہیں رہ سکتی۔ علاوہ ازیں ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے بھی عمران خان کو عالمی فورم پر اُمت مسلمہ کا متفقہ دوٹوک مؤقف وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ رواں ماہ کے اوائل میں لندن میں قادیانیوں کے سالانہ جلسے میں رکن پارلیمنٹ سرایڈورڈ ڈیوی اور دیگر برطانوی مقررین نے عمران خان پر پاکستان میں قادیانیوں کو رعایات دینے کے لیے زور دیا اور دھمکی آمیز بیانات داغے ہیں۔ عمران خان کو قادیانیت نوازی کے نتیجے میں ن لیگی حکمرانوں کا انجامِ بد ہمہ وقت سامنے رکھنے کی بھی اشد ضرورت ہے، کیونکہ معاشی بحران تو ٹل سکتے ہیں، مگر تحفظ ختم نبوت، نظریہ پاکستان اور ملک کی نظریاتی بنیادوں سے انحراف سکندر مرزا، خواجہ ناظم الدین، جنرل (ر) اعظم خان اور نواز شریف کی طرح بند گلی کا راہی بنا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment