قوم سے اپنے پہلے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے بے شمار وعدے کر کے قوم کو تبدیلی کا پیغام دیا ہے۔ انہوں نے جو کچھ کہا، اس سے اختلاف کی زیادہ گنجائش نہیں، لیکن پاکستان کے لوگ ستر برسوں سے الفاظ، اعلانات، دعوے اور وعدے سن سن کر عاجز آگئے ہیں۔ اب وہ تیز رفتار عمل اور معاشرے میں فی الواقع مثبت تبدیلی چاہتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران کچھ بھی کہا جا سکتا ہے اور کوئی بھی وعدہ کیا جا سکتا ہے، لیکن کسی رہنما کے جوہر اس وقت کھلتے ہیں جب وہ عمل کے میدان میں اترتا ہے اور اسے معروضی حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ دور حکومت کی واضح مثال قوم کے سامنے ہے کہ 2013ء کے انتخابات سے قبل مسلم لیگ کے رہنمائوں نے جو بلند بانگ دعوے اور وعدے کئے، ان میں ملک سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے اور بجلی کی بلاتعطل فراہمی کے لیے چھ ماہ کی مدت مقرر کی گئی تھی۔ لیکن میاں نواز شریف کے وزیر اعظم بنتے ہی چھ ماہ کا عرصہ بتدریج بڑھتا رہا۔ حالیہ انتخابات سے چند روز پہلے مسلم لیگ کی حکومت نے بڑے وثوق سے کہا کہ اب ملک بھر میں کہیں بھی لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس ملک کے دیگر علاقوں کی طرح کراچی جیسے بین الاقوامی شہر کی کئی بستیوں میں آج بھی دس بارہ گھنٹے روزانہ بجلی غائب رہتی ہے۔ اگر مسلم لیگ اقتدار میں آنے سے پہلے حقائق کا جائزہ لے لیتی تو اسے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا اعلان کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچنا پڑتا۔ پاکستانی سیاستدانوں کا عوام کے بارے میں یہ تاثر نہایت پختہ اور گہرا ہو چکا ہے کہ ان کا حافظہ بہت کمزور ہے اور انہیں ہر مرتبہ ایک نیا لالی پاپ دے کر بہلایا جا سکتا ہے۔ جہاں تک عوامی خدمات کے اداروں کا تعلق ہے، وہ بدعنوانی کی ایسی دلدل میں پھنسا دیئے گئے ہیں کہ ان کا پوری طرح باہر نکلنا تقریباً ناممکن ہے۔ ان سب کو راہ راست پر لانے کے لیے ذرا بھی چھیڑنا بھڑوں کے چھتے کو ہاتھ لگانے کے مترادف ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے کہ عدلیہ نے ارباب اقتدار کو معزول کر کے انہیں نااہل قرار دیا، ان سے بازپرس کی اور انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا۔ سیاستدانوں نے عدلیہ کو بدنام کرنے اور فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی ہرممکن کوشش کر دیکھی، لیکن انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی بیٹی اور داماد کے علاوہ مسلم لیگ کے کئی رہنما اور کارکنان مالی بدعنوانی اور اقتصادی دہشت گردی کے الزام میں پابند سلاسل ہیں۔ ان معروضی حقائق کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اب چوروں، لٹیروں، ڈاکوؤں اور قاتلوں کے بچنے کے امکانات ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں اگر وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم نیک نیتی، دیانت داری اور اہلیت کے ساتھ معاشرے کی اصلاح کا آغاز کرے تو کچھ نہ کچھ مقاصد حاصل کر کے آئندہ مزید امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ پاکستانی قوم کی اس سادگی کا تو کوئی جواب نہیں کہ وہ مسلسل فریب کھانے کے باوجود بار بار وعدوں کے نئے جال میں پھنسنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ ابتدائی طور پر عمران خان اور ان کے وزیروں، مشیروں کی توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کرائی جا سکتی ہے کہ تمام شعبوں اور اداروں کو بیک وقت چھیڑنے کے بجائے اہم ترین مسائل کو ہدف بنا کر (ٹارگیٹڈ) کام کا آغاز کیا جائے۔ پھر اصلاح کے نتائج دیکھ کر کام کرنے والوں میں حوصلہ اور عوام میں اعتماد پیدا ہو گا۔
عمران خان نے بحیثیت وزیراعظم اپنی تقریر میں قوم سے بے حساب وعدے کئے ہیں۔ ’’امت‘‘ کے مطابق سرسری طور پر ان وعدوں کی تعداد تیس تک پہنچتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان سب کی تکمیل کے لیے عمران خان کی ٹیم نے کوئی ہوم ورک کر کے نہیں رکھا ہو گا۔ عمران خان نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ پاکستان کو حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بنانا میرا مقصد ہے۔ وزیراعظم ہائوس کو اپنے زیر استعمال نہ لانے اور تین کمروں کے مکان میں رہنے کا اعلان بلاشبہ خوش آئند ہے۔ وزیراعظم ہائوس کو ریسرچ یونیورسٹی میں تبدیل کرنے اور گورنر ہائوس کو بھی دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کرنا بظاہر خوش کن ہے، لیکن یہ کام بھی یکدم نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ایک مدت درکار ہونے کے علاوہ وہاں کام کرنے والوں کو متبادل روزگار فراہم کرنے کا مسئلہ پیدا ہو گا، جبکہ ملک میں بے روزگاری پہلے ہی کچھ کم نہیں ہے۔ بے روزگاروں کی تعداد میں اضافے کے علاوہ ان میں پیدا ہونے والی بے چینی اور ان کے خاندانوں کی پریشانی کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔ وزیر اعظم عمران خان کے خطاب کا مجموعی تاثر اندرون و بیرون ملک مثبت اور خوشگوار پایا گیا، کیونکہ انہوں نے قومی زندگی کے بیشتر شعبوں میں سرایت کر جانے والی بے شمار خرابیوں کا کھل کر تذکرہ کیا۔ لیکن کوئی حل پیش کیا، نہ عملی اقدامات کی نشاندہی کی۔ فوری طور پر ملک کے دو مسائل سب سے زیادہ اہم ہیں۔ ایک لٹیروں پر قابو پا کر ان سے لوٹا ہوا پیسا نکلوانا اور دوسرا معاشرے میں بری طرح پھیل جانے والی لاقانونیت اور بے حیائی۔ اسی بنا پر ہم عمران خان کو ان کا مدینہ جیسی فلاحی ریاست قائم کرنے کا وعدہ یاد دلاتے ہوئے بار بار زور دے رہے ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھی ’’اسلامی معاشرہ‘‘ تو کیا، ایک عام فلاحی مسلم معاشرہ ہی قائم کر کے دکھا دیں تو یہ ان کا بڑا کارنامہ ہو گا۔ دوسروں کو سادگی کا درس دینے والے عمران خان نے اپنی وسیع و عریض بنی گالہ کی پرتعیش رہائش کے بارے میں کچھ نہیں کہا کہ وہ اس کا کیا کریں گے؟ انہوں نے خارجہ پالیسی، سی پیک، این ایف سی ایوارڈ، مسئلہ کشمیر، عافیہ صدیقی، اسلام اور پیغمبرؐ اسلام کے خلاف گستاخانہ خاکوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ ایک اہم نکتہ جس کی مبصرین نے نشاندہی کی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی اکیس رکنی ٹیم کے بارہ ارکان تو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ تھے، جبکہ کچھ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو بھی اپنی ’’خدمات‘‘ پیش کر چکے ہیں۔ عمران خان نے حالیہ انتخابات سے قبل کئی لوگوں کو آخری وقت میں قابل انتخاب قرار دے کر تحریک انصاف میں شامل کر لیا تھا تاکہ وہ منتخب ہو کر عمران خان کو وزیراعظم بنانے میں مددگار ثابت ہو سکیں۔ ادھر جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چل رہا ہے۔ ان کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم ہیں، جو اب وزیر قانون کے طور پر نئی کابینہ میں شامل ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی پاکستان کے علاوہ کبھی پنجاب میں بھی پسندیدہ شخصیت نہیں رہے۔ خود عمران خان انہیں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دے چکے ہیں۔ صوبے میں زبردستی تحریک انصاف کی حکومت بنانے کے لیے عمران خان کو چوہدری پرویز الٰہی کے لیے اسپیکر کا عہدہ پیش کرنا پڑا۔ ایسے پرانے کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم کے ساتھ نئے وزیر اعظم ملک میں کیا، کب اور کیونکر تبدیلی لا سکیں گے؟ اس کا آئندہ چند روز میں اندازہ ہونے لگے گا۔٭
٭٭٭٭٭