سرفروش

عباس ثاقب
میں نے افتخار صاحب کی بات سے اتفاق کیا۔ ’’یار میں تم سے ملنے تو آگیا لیکن یقین کرو میں بہت سے وسوسوں کا شکار تھا کہ کہیں ہم نے محض اتفاقیہ ایک کامیاب کارروائی کر گزرنے والے کسی بندے سے بڑی بڑی امیدیں تو نہیں باندھ لیں۔ لیکن اس ملاقات کے بعد میں مطمئن ہو گیا ہوں کہ ہم نے درست انتخاب کیا ہے‘‘۔
اس کے بعد بقیہ پوری فلم کے دوران ہم مختلف موضوعات پر ہلکی پھلکی باتیں کرتے رہے۔ افتخار صاحب کے پوچھنے پر میں نے انہیں ہندوستان آمد کے بعد سے اب تک خود پر بیتنے والے واقعات مختصراً بتائے اور پھر ان ہی کی فرمائش پر اپنے خاندان کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے اپنے بارے میں بھی مجھے کافی کچھ بتایا، جن کا تذکرہ میں مناسب نہیں سمجھتا۔
ان کے مشورے پر فلم ختم ہوتے ہی میں سینما سے باہر نکل گیا۔ انہیں سینما ہال تقریباً مکمل خالی ہونے پر اپنی نشست چھوڑنی تھی۔ میں نے مراٹھا مندر سینما سے کچھ فاصلے پر ایک آٹو رکشا پکڑا اور اپنے ٹھکانے پر آگیا۔ افتخار صاحب نے جو کچھ بتایا تھا، وہ ذہن پر اس قدر چھایا ہوا تھا کہ راستہ کٹنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ وہ رات بھی اپنے شانوں پر آ پڑنے والی بھاری ذمہ داری کے بارے میں غور و فکر کرنے میں گزاری اور فجر کی نماز کے بعد کہیں سو پایا۔
شام کے وقت میں کھانا کھانے کی نیت سے گھر سے نکلا تو پہلے کی طرح راستے میں اسلم نے اپنا آٹو رکشا میرے پہلو میں روک کر منزل پر پہنچانے کی پیشکش کی۔ میں تو بے چینی سے اس کا منتظر تھا۔ وہ مجھے چوپاٹی کے ساحل پر واقع ایک ڈھابے میں لے گیا۔ ایک چرمی بیگ میرے حوالے کرتے ہوئے اس نے کہا ’’اس میں آپ کے شناختی کاغذات موجود ہیں، جو تصدیق پر بھی درست ثابت ہوں گے۔ اب آپ کا نام یونس احمد ہے اور آپ ایک رئیس خاندان کے چشم و چراغ ہیں، جو فلم اسٹار بننے کے خواب آنکھوں میں سجائے بھوپال سے بمبئی آئے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ اپنی اس شناخت کو قابلِ اعتبار بنانے کے لیے کل صبح سے ہی دو چار فلم اسٹوڈیوز کے چکر لگانے شروع کر دیجیے اور مشہور پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز سے ملاقات کی کوششیں بھی جاری رکھیے‘‘۔
اس کی بات سے مجھے ہنسی آگئی۔ میرے لیے کمال شناخت کا بندوبست کیا تھا انہوں نے۔ بہرحال، اس شخصیت کا یہ فائدہ تو تھا کہ میں بلا وجہ پورے بمبئی میں بھٹک سکتا تھا۔ اسلم کے مطابق اس بیگ میں افتخار صاحب کی بتائی ہوئی شخصیات کی تفصیلی معلومات پر مشتمل دستاویزات کے علاوہ ایک بھرا ہوا ریوالور اور چند اضافی گولیاں بھی موجود تھیں، جبکہ اچھی خاصی بھاری رقم بھی میرے لیے رکھی گئی تھی۔ واپسی پر اس نے مجھے میرے گھر کے قریب چھوڑ دیا۔
میں نے گھر پہنچ کر بیگ سے ملنے والی موٹی سی فائل کا مطالعہ شروع کیا تو اسلم کی طرف سے فلم اسٹوڈیوز کے چکر لگانے کا مشورہ دھرا رہ گیا۔ آئندہ تین دن تک میں کھانے کے لیے بھی بمشکل گھر سے نکل پایا۔
اس فائل میں کل انتیس افراد کی تفصیلی معلومات موجود تھیں اور میں جیسے جیسے مندرجات پڑھتا جا رہا تھا، ان معلومات کو یکجا کرنے والے افراد کی لگن اور محنت شاقہ کے لیے میرے دل میں عزت بڑھتی گئی۔ ان سب افراد میں سے کچھ کے بارے میں زیادہ تفصیل سے معلومات دستیاب تھیں، جبکہ کچھ کی زندگی کے معمولات کا نسبتاً مختصر جائزہ پیش کیا گیا تھا۔ میں نے اس فائل کو یکے بعد دیگرے تین بار بغور پڑھا اور اس دوران اہم نکات اپنے پاس تحریر بھی کرتا رہا۔
اتنے بہت سے افراد میں سے اپنے لیے سب سے موزوں اہداف کا تعین اب میرا اصل امتحان تھا۔ خاصی دماغ آزمائی کے بعد میں نے تین افراد چُنے اور پھر مزید سوچ و بچار کے بعد ان میں سے بھی موزوں فرد کا اپنے پہلے فرد کے طور پر انتخاب کر لیا۔
میرا چنیدہ اہلکار سچن بھنڈاری آئی این ایس وکرانت کے مالی امور کی دیکھ بھال پر مامور خصوصی ٹیم میں درمیانے درجے کے عہدے پر فائز تھا۔ وکرانت کے لیے کی جانے والی تمام خریداریوں، اہلکاروں کی تنخواہوں کی ادائیگیوں، روز مرہ اخراجات اور دیگر تمام مصارف کی جانچ پڑتال اور چھان بین سچن کی ذمہ داری تھی۔
تاہم اس کی شخصیت اور ذاتی زندگی کے بارے میں فراہم کردہ کچھ خاص تفصیلات بغور پڑھنے کے بعد ہی مجھے اس کی شخصیت میں اپنے لیے کچھ کر دکھانے کے ’’امکانات‘‘ نظر آئے تھے، اور میں نے اپنے پہلے ہدف کے طور پر اس کا انتخاب کرلیا تھا۔
اب مجھے ان تمام تفصیلات کی روشنی میں سچن بھنڈاری سے اپنے مطلب کی معلومات اخذ کرنے کے لیے جامع اور بے داغ حکمتِ عملی وضع کرنا تھی۔ میں اپنی تمام تر ذہنی صلاحیتیں آزماتے ہوئے مختلف طریقوں پر ذہن لڑاتا رہا اور ایک ایک کر کے مسترد کرتا رہا تھا۔ پورا ایک دن اور ایک رات کی دماغی مشقت کے بعد بالآخر میں نے ایک ڈھیلا ڈھالا سا منصوبہ ترتیب دے دیا، جس میں موقع محل اور صورتِ حال کے مطابق تبدیلیاں لانے کی گنجائش موجود تھی۔ اسے حتمی شکل دینے کے لیے مجھے سچن کی روزمرہ سرگرمیوں کی بچشمِ خود نگرانی کرنا تھی۔
اب افتخار محمود صاحب کی ہدایت کے مطابق مجھے انہیں اپنی اس منصوبہ بندی کے حوالے سے اعتماد میں لینا تھا اور ان کے ماہرانہ مشورے کے مطابق اس میں کوئی ترامیم و اضافے کرنے تھے۔ تاہم میں نے خود کو ذہنی طور پر تیا ررکھا کہ ممکن ہے وہ سچن بھنڈاری کے حوالے سے میری اس تمام ذہنی کاوشوں کو سرے سے مسترد ہی کر دیں۔ بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ میرے اس انتخاب ہی کو غلط قراردے ڈالیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment