برمودا مثلث سجین ہے! (حصہ دوم )

ڈاکٹر عبدالغنی فاروق
ضبرمودا مثلث کے اسرار کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کی کنہہ (حقیقت) تک پہنچنے کی بہت سے سائنس دانوں اور محققین نے کوشش کی ہے، مگر سچی بات ہے کہ کسی ایک کو بھی مطلوب کامیابی نہیں ہوئی۔ جب حال یہ ہے کہ گم شدہ بحری اور ہوائی جہازوں کی تلاش میں جانے والی کوئی ایک تحقیقاتی ٹیم بھی واپس نہیں آئی اور آٹھ سو میل کی بلندی پر بھی خلائی سیاروں کے آلات برمودا مثلث کے اوپر آ کر بے کار ہو جاتے ہیں، تو اس راز کو بے نقاب کرنے کا دعویٰ کون کر سکتا ہے؟ چنانچہ اس حوالے سے جتنی کتابیں شائع ہوئی ہیں، ان میں محض اٹکل پچو سے کام لیا گیا ہے، بے سروپا مفروضے ہیں جو پیش کئے گئے ہیں اور متذکرہ نوعیت کے محیر العقول واقعات کا کوئی ٹھوس، قابل قبول سبب بیان نہیں کیا گیا اور اب تو کائنات کی پراسراریت کا انکار کرنے والے عیار لوگ برمودا کے اسرار کا بھی کمال ڈھٹائی سے انکار کرنے لگے ہیں اور اس حوالے سے ان کے سارے دلائل لا یعنی اور بے بنیاد ہیں۔ چنانچہ روز اول کی طرح یہ معمہ آج بھی لاینحل ہے اور اس کی کوئی سائنسی، عقلی توجیہہ پیش نہیں کی جا سکی۔
میرے نزدیک برمودا مثلث کے اسرار کی ایک ہی ممکن توجیہہ ہے کہ ہم کامل اعتماد کے ساتھ قرآن پاک اور نبی اکرمؐ کے فرمودات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ اس حوالے سے میں اپنا حاصل مطالعہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
قرآن پاک میں ہے کہ موت کے بعد انسانوں کی گناہ گار یا مجرم روحیں سجین میں رکھی جاتی ہیں، جبکہ نیک روحوں کو علیین میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ (سورۃ المطففین 83 آیات، 7،18) نبی اکرمؐ نے علیین کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ علیین تو آسمانوں پر ہے، جبکہ سجین
زمین کی گہرائیوں کے اندر ہے۔ سجین کے لغوی معنی ہیں کھلے منہ کا تنگ، گہرا غار۔
(روایت حضرت براء بن عازبؓ تفسیر ابن کثیر، سورۃ المطففین جلد پنجم و مسند امام احمد جلد چہارم)
حضور نبی اکرمؐ ہی کی حدیث ہے کہ جب ایک شخص مرتا ہے تو دفن ہونے تک اس کی روح وہیں موجود رہتی ہے اور اس کے لواحقین جو کچھ کر رہے ہوتے ہیں، اسے دیکھتی اور سنتی ہے، لیکن کچھ بھی کرنے کے لائق نہیں ہوتی۔ (اوکما قال علیہ السلام)
اس تناظر میں امریکہ کے ایک باہمت سائنس دان ڈاکٹر ریمونڈ اے موڈی (Raymond A, Moodi) نے بڑے ہی نادر موضوع پر تحقیق کی ہے۔ موصوف فلسفہ میں پی ایچ ڈی اور میڈیکل سائنس میں ایم ڈی ہیں اور ورجینیا یونیورسٹی میں ریڈر کے عہدے پر فائز ہیں۔ انہوں نے ’’لائف آفٹر لائف‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی، جس کا ترجمہ ستار طاہر مرحوم نے کیا تھا اور اسے ’’دارالبلاغ‘‘ محمد نگر، لاہور نے نومبر 1980ء میں شائع کیا تھا۔ ڈاکٹر موڈی نے ڈیڑھ سو ایسے افراد تلاش کر لئے، جو کسی حادثے یا بیماری کے نتیجے میں مر گئے تھے اور انہیں Clinically Dead قرار دے دیا گیا تھا، لیکن کچھ دیر کے بعد وہ زندہ ہو کر ہوش میں آ گئے، موصوف نے ان سے انٹرویو کئے۔
کم و بیش ان سب نے تین باتیں مشترک طور پر بیان کیں:
ایک یہ کہ وہ اپنے ہی جسم کو کچھ فاصلے سے مردہ حالت میں دیکھ رہے تھے۔ یعنی ایک شخص اپنی کار میں سفر کر رہا تھا۔ راستے میں اسے سنگین حادثہ پیش آ گیا، اس نے
بتایا کہ میں حیران تھا کہ میرا جسم کار میں بے جان حالت میں پڑا تھا اور میں باہر کھڑا ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔ لوگ شور مچا رہے تھے، کار کو کاٹ رہے تھے۔ پھر انہوں نے میرے جسم کو باہر نکالا اور فٹ پاتھ پر لٹا دیا اور میں یہ سب کچھ حیرت سے دیکھ رہا تھا … اس کے بعد مجھے ایک گہرے غار میں لے جایا گیا، جس کے آخری کنارے پر روشنی نظر آ رہی تھی، لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد مجھے واپس لایا گیا، میرا اصل جسم حرکت میں آ گیا اور میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔
اس نوعیت کے تجربات سب نے بیان کئے ہیں، یعنی اپنے مردہ جسم کو فاصلے سے دیکھنا، ایک گہرے غار میں اترنا اور غار کے آخری کنارے پر روشنی کا نظر آنا۔
ایک عورت دل کی مریضہ تھی۔ اسے آپریشن کے لئے آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا۔ اس نے بتایا کہ میں نے ڈاکٹر کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اس کے دل نے تو حرکت کرنا بند کر دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی میں اپنے جسم سے نکل کر چھت کے ساتھ معلق ہو گئی اور اسٹریچر پر پڑے ہوئے اپنے جسم کو دیکھنے لگی، میں دیکھ رہی تھی کہ ایک نرس میرے منہ کے ساتھ منہ لگا کر مصنوعی تنفس دینے کی کوشش کر رہی تھی … اس اثناء میں مجھے ایک طرف لے جایا گیا اور عجیب بات یہ ہے کہ میں درختوں اور چٹانوں کے اندر سے گزرتی ہوئی جا رہی تھی، حتیٰ کہ مجھے ایک غار میں لے جایا گیا، لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد مجھے واپس لایا گیا اور میں نے اسٹریچر پر پڑے پڑے آنکھیں کھول دیں۔
گویا اس طرح نبی اکرمؐ کی فرمائی ہوئی دونوں باتوں کی من و عن تصدیق ہو گئی کہ ایک شخص کے مرنے کے بعد اس کے دفن ہونے تک اس کی روح وہاں موجود رہتی ہے اور جو کچھ اردگرد کے ماحول میں ہو رہا ہوتا ہے، اسے بقائمی ہوش و حواس دیکھتی ہے۔ گویا اس سے یہ بھی تصدیق ہوگئی کہ روح جسم سے الگ، اپنی ایک ایک علیحدہ باقاعدہ حیثیت رکھتی ہے۔
ثانیاً حضور اقدسؐ نے فرمایا کہ مجرم روحین سجین میں رکھی جاتی ہیں اور سجین زمین کے اندر ہے اور چونکہ انٹرویو دینے والے یعنی عارضی طور پر مرنے والے سب غیر مسلم ہیں، اس لئے سب نے ایک غار کا ذکر کیا ہے اور وہی سجین کا غار ہے۔
چنانچہ ان معلومات کی روشنی میں جن کی تصدیق عقائد، شواہد اور عقل تینوں اعتبار سے ہو رہی ہے، ہم پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ برمودا مثلث سجین ہی کا راستہ ہے۔ مضبوط قرائن اس امر کے ہیں کہ لاکھوں فرشتے ہمہ وقت انسانی روحوں کو قبض کر کے سجین کا رخ کرتے ہیں اور خدائی احکامات کے تحت جلد از جلد انہیں ان کے ٹھکانے پر پہنچانے کی فکر کرتے ہیں۔ وہ اپنے فرض کی ادائیگی میں لمحہ بھر کی تاخیر یا رکاوٹ برداشت نہیں کرتے، اس لئے سجین کی طرف سفر کرتے ہوئے جو چیز بھی ان کے راستے میں حائل ہوتی ہے، وہ اسے کھینچ کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور اس کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment