نیا پاکستان محض وعدہ یا عملی؟

نیا پاکستان ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ قومی اسمبلی میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہو چکا۔ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کا فیصلہ بھی ہو گیا۔ قائد ایوان (وزیر اعظم) جناب عمران خان بن گئے۔ ایوان میں عددی اعتبار سے دوسری بڑی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) ہے، اس لئے قائد حزب اختلاف کا منصب اس کے حصے میں آیا۔ میاں محمد شہباز شریف یہ منصب سنبھالیں گے۔ مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے طور پر اتنی مضبوط ہے کہ وہ حکمران جماعت کو آسانی سے من مانی نہیں کرنے دے گی۔ اسپیکر کے انتخابی نتیجے کے بعد جس احتجاج کا مظاہرہ مسلم لیگ (ن) نے کیا، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آئندہ ایوان میں کیا ہو گا؟ پارلیمانی روایات کے حوالے سے ہم کوئی مفلس قوم نہیں ہیں۔ اچھے برے ہر طرح کے واقعات سے ہماری پارلیمانی تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ مثلاً حزب اختلاف سے ایوان کو پولیس کے ذریعے خالی کرانے کا واقعہ بھی ہماری اسمبلی میں ہو چکا ہے، مگر یہ اس زمانے کی بات ہے، جب حزب اختلاف کی تعداد محدود تھی اور جناب ذوالفقار بھٹو پورے جاہ و جلال کے ساتھ حکمرانی فرما رہے تھے۔ اس کے برعکس انتہائی مہذب انداز میں وزیر کو بھی تقریر کے دوران مداخلت اور خاموشی سے نشست پر بٹھانے کا ہنر بھی آزمایا جاتا رہا تھا۔ یہ 70ء کی اسمبلی کا واقعہ ہے، ہمارے وزیر بے محکمہ جناب خورشید حسن میر تقریر فرما رہے تھے کہ جماعت اسلامی کے صاحبزادہ صفی اﷲ پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑے ہوئے، وزیر صاحب بیٹھ گئے تو صفی اﷲ صاحب نے بھی اپنی نشست سنبھال لی۔ اسپیکر نے استفسار کیا کہ آپ کا پوائنٹ آف آرڈر کیا تھا؟ صفی اﷲ صاحب نے کہا کہ وزیر صاحب کی بے معنی تقریر بند کرانا مقصود تھا۔ اب نیا پاکستان بننے جا رہا
ہے، جناب عمران خان نے انتخاب سے قبل جو منشور پیش کیا تھا، اس پر عمل درآمد وہ کس حد تک کر پاتے ہیں؟ یہ اندازہ چند دن کی بات ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے خان صاحب قول کو عمل کے قالب میں ڈھالنے نکلیں تو خود کو تنہا پائیں گے اور انتظامی مشینری فولادی دیوار بن کر ان کی راہ میں کھڑی ہو جائے اور خود وہ ایمپائر جس نے انگلی کے ایک اشارے سے ان کے مخالفین کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا، وہ ان کے عزائم میں حائل ہو جائے۔ انتخابات میں دھاندلی کا شور بھی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں اٹھانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے، ہر چند کہ پیپلز پارٹی جو کسی زمانے میں اس ملک کی سب سے بڑی جماعت تھی، دھاندلی کے الزام میں بظاہر (ن) لیگ کی ہم خیال بھی ہے، تاہم یہ ہم خیالی کسی بھی وقت بے خیالی میں بدل سکتی ہے اور اگر ایمپائر کسی وقت ناراض ہو گیا تو کچھ بھی ہو سکتا ہے! ہماری خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس ملک، اس کے عوام پر رحم فرمائے، بہتری کا سامان کر دے، بے روزگاری ختم کر دے، دشمنوں کو زیر کر دے (آمین) مگر وہ کہتے ہیں کہ وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں۔
بہر حال وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد قوم سے ایک گھنٹہ سے زائد وقت جو خطاب فرمایا، ہر چند کہ اس میں کوئی نئی بات نہیں تھی، تاہم وہ دفتری بابوئوں کی لکھی ہوئی تقریر نہ تھی، بلکہ دل میں چھپی ہوئی آرزوئوں اور امنگوں کو لفظوں کا روپ دیا، وہ اپنے اس عزم و ارادے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں، یہ وقت بتائے گا اور چند روز میں خود عمران خان کو بھی پتہ لگ جائے گا، وہ ایک خاص ڈگر پر چلنے والی بیورو کریسی، جس کی افتادہ طبع میں آزادی کے بعد کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی، اس کا طرز عمل ایک آزاد اور خود مختار ملک کے مطابق تبدیل نہیں ہوا، وہ اپنے مزاج اور طرز عمل کی بنیاد پر 47ء کے مقام پر کھڑی ہے، اسے اپنے منشور کے مطابق کام کرنے پر کیسے آمادہ کیا جائے گا۔ ہمارے تھانے اور کچہریاں لٹے ہوئے کھیتوں کی مچان بنے ہوئے ہیں۔ پانچ برس میں ان کے مزاج کو تبدیل کرنے کا معجزہ کیسے ہو گا؟ ان سے پہلے بھی کئی آنے والے تبدیلی کے دعوئوں کے ساتھ آئے اور اپنی متاع سیاست لٹا کر چلے گئے۔ اب ان کی سیاست گور غریباں کا منظر پیش کرتی ہے۔ محمد خان جونیجو ہر چند کہ ایک آمر وقت کا انتخاب تھے، مگر ان کی دیانت، راست بازی اور کھرے پن کی شہادت دی جا سکتی ہے، انہوں نے اپنے وزرائ، اعلیٰ حکام کو چھوٹی کاروں میں سفر کرنے کا حکم صادر فرمایا، قومی اسمبلی کے سیکریٹریٹ میں بڑی اور لگژری کاروں کا ڈھیر لگ گیا۔ اعلیٰ حکام کی کمر دوہری ہو گئی، پھر جونیجو مرحوم کو گھر کا راستہ دکھایا گیا۔ یوسف رضا گیلانی کے دل میں فضول خرچی کم کرنے کا خیال آیا، کیا ہوا یہ سب کو معلوم ہے۔ جو لوگ اس سارے کھیل کے مدو جزر کو سمجھتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ خلائی مخلوق جب کسی کو پر پرواز دیتی ہے تو کمند اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔ عمران خان کو جو حکومت ملی ہے، اس کے ساتھ انتخاب میں دھاندلی کا دھبہ بھی اس کے دامن پر ہے اور وفاق اور پنجاب میں ایک طاقتور حزب اختلاف بھی اس کے مقابل ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کو حکومت ملی ہے اور پی پی کی طرف سے وفاق سے تعاون کا عندیہ ہے، مگر عمران خان، جناب آصف علی زرداری سے واقف نہیں۔ تبدیلی کا ڈھول بجا تو تھرکنے والوں میں سب سے آگے ہوں گے۔ ایک عام پاکستانی کو تبدیلی اور بہتری کی کسی صورت کا ابتدائی ایام سے منتظر ہے، مگر لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اس ملک پر جس مخلوق نے قبضہ کیا، وہ جس کو لانا چاہے لاتی ہے، جس سے خفا ہو جائے، اس کا بوریا بستر لپیٹ بھی دیتی ہے۔ دیکھتے ہیں لاڈلے عمران خان نیازی کس حد تک اس کے معیار پر پورا اترتے اور کس حد تک قوم سے کئے ہوئے وعدے پورے کرتے ہیں۔ حق تعالیٰ ہی مستقبل کا علم رکھتا ہے اور دھاندلی کا شور کب تھمتا ہے اور تھمتا بھی ہے یا نہیں۔
آیئے ہاتھ اٹھائیں ہم بھیہم جنہیں رسم دعا یاد نہیںہم جنہیں سوز محبت کے سواکوئی بت کوئی خدا یاد نہیںآیئے عرض گزاریں کہ نگار ہستیزہر امروز میں شیرینی فردا بھر دےوہ جنہیں تاب گراں باری ایام نہیں ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر دجن کی آنکھوں کو رخ صبح کا یارا بھی نہیںان کی راتوں میں کوئی شمع منور کر دےجن کا دیں پیروی کذب و ریا ہے ان کو ہمت کفر ملے جرأت تحقیق ملےجن کے سر منتظر تیغ جفا ہیں ان کو دست قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے (آمین)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment