’’عمل سے آغاز کیجئے‘‘

تیز گام ایکسپریس کے فولادی پہئے لوہے کی پٹڑیوں پر تیزی سے فاصلے سمیٹتے ہوئے کراچی کی جانب بڑھے چلے جا رہے تھے۔ حیرت انگیز طور پر تیزگام کا بپھرا ہوا دیوہیکل انجن خود سے جڑی بوگیوں کو لے کر بروقت اسٹیشنوں پر پہنچ رہا تھا، نہ صرف بروقت پہنچ رہا تھا، بلکہ چیچہ وطنی کے پلیٹ فارم پر تو تیزگام آٹھ منٹ پہلے ہی پہنچ گئی۔ سیلانی تیز گام کی اس سرعت پر حیران تو تھا ہی، لیکن اس سے زیادہ حیرت اسے پریتی بلوچ کی باتوں پر ہو رہی تھی۔ پریتی بلوچ اور غزالہ راولپنڈی سے سیلانی کے ہم سفر بنے تھے۔ پتلی دبلی نازک سی پریتی بلوچ کا اصل نام صفدر ہے، لیکن کھلتی ہوئی رنگت والا خواجہ سرا خود کو پریتی کہلوانا پسند کرتا ہے۔ پریتی کے ساتھ اس کا دوست غزالہ بھی ’’تھا‘‘ ان کے ساتھ کمپارٹمنٹ میں سیلانی کے تیسرے ہم سفر تبلیغی جماعت کے سکندر صاحب تھے، جو خوب دنیا دیکھ چکے تھے اور ان کے پاس دنیا جہاں کے قصے تھے۔ چوتھا مسافر نوجوان چھ فٹ سے بھی نکلتے ہوئے قد والا عمران باجوہ ایڈووکیٹ تھا، جو وکیل کم اور فوجی زیادہ لگتا تھا۔
تیز گام تیزی سے مسافروں کو لئے منزل مقصود کی جانب بڑھی چلی جا رہی تھی اور جس رفتار سے دوڑ رہی تھی، اس سے زیادہ رفتار سے بوگی نمبر نو کے اس کمپارٹمنٹ میں گرما گرم بحث چل رہی تھی۔ بحث کا موضوع ’’تبدیلی‘‘ تھا۔ پریتی بلوچ بہاولپور کی رہائشی ہے اور عید پر اپنے گھر والوں سے ملنے جا رہی تھی۔ پریتی اور غزالہ اکثر خواجہ سراؤں کی طرح شادی بیاہ کی تقاریب میں ناچ گا کر وقت گزار تے ہیں۔ پریتی کے مقابلے میں غزالہ پکے رنگ کی خاصی لحیم شحیم ہے۔ اس نے میٹرک پاس کر رکھا ہے۔ غزالہ کہتی ہے: ہم جماعتوں کے امتیازی سلوک اور رویئے کے بعد اس نے آگے پڑھنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ اس کے مقابلے میں پریتی کم پڑھی لکھی ہونے کے باوجود ملکی حالات سے پوری طرح باخبر تھی۔ غزالہ پیپلز پارٹی کی جیالی تھی۔ پریتی کا کہنا تھا: میں نے کسی کو ووٹ نہیں دیا، وزیر اعظم کوئی بھی ہو، ہم پر کیا فرق پڑنا ہے؟ پریتی کے عمران خان کے لئے کچھ زیادہ اچھے جذبات نہ تھے۔ گفتگو کا آغاز روایتی انداز میں مسکراہٹوں کے تبادلے اور منزل مقصود کے بارے میں پوچھ کر ہوا۔ گفتگو آگے بڑھی، سب اپنا اپنا کام دھندا بتانے لگے۔ سیلانی سے غلطی ہوئی کہ اس نے اپنی صحافت سامنے رکھ دی۔ بس سکندر صاحب جھٹ سے کہنے لگے ’’اچھا تو پھر یہ بتائیں کپتان کے خطاب کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟‘‘ اس سوال کے بعد انہوں نے سیلانی کو جواب دینے کی مہلت دینے سے پہلے ہی یہ بھی کہہ دیا کہ عمران کا قوم سے پہلا خطاب غیر روایتی اور عمران کے جذبات کا آئینہ دار تھا۔ وہ کہنے لگے ’’دیکھ لیجئے گا، یہ نیازی کچھ نہ کچھ کر کے ہی جائے گا، کپتان نے بڑے فیصلے کر لئے ہیں‘‘۔
سیلانی نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ غزالہ زنانہ انداز میں لوچ کھاتے ہوئے کہنے لگی ’’کیسے فیصلے جی؟ ابھی تو خالی اعلان کیا ہے، عمل ہونا تو باقی ہے اور باتیں تو سب ہی اچھی کر لیتے ہیں‘‘۔
غزالہ کی تنقید سکندر صاحب کو اچھی نہیں لگی، وہ فوراً کہنے لگے ’’ابھی دو دن تو ہوئے نہیں کپتان کو، چوبیس گھنٹوں میں بندہ اور کیا کر سکتا ہے، مجھے تو عمران کی تقریر سن کر لگ رہا تھا کہ پاکستانی طیب اردگان بات کر رہا ہے۔‘‘
’’طیب اردگان؟‘‘ عمران باجوہ صاحب چونکے اور بات کاٹتے ہوئے کہنے لگے ’’کچھ زیادہ نہیں ہوگیا سر جی؟‘‘
سکندر صاحب نے سر ہلاتے ہوئے مدبرانہ انداز میں کہا ’’بھائی صاحب! آپ نوٹ کریں، طیب اردگان نے بھی ترکی کو اس کے قدموں پر کھڑا کیا اور عمران خان بھی یہی کرنے جا رہا ہے، عجیب اتفاق دیکھیں کہ ترکی اور پاکستان دونوں اس وقت ایک سے حالات سے گزر رہے ہیں، امریکہ نے ترکی کے خلاف بھی معاشی محاذ کھول رکھا ہے اور پاکستان کی مشکیں بھی کس رہا ہے، وہ ترکی کی معاشی اور پاکستان کی فوجی کمر توڑنا چاہتا ہے، اس نے ترکی مصنوعات پر ایک طرح سے پابندی لگا دی ہے، ترکی کرنسی لیرا کو ٹشو پیپر بنانا چاہ رہا ہے اور ادھر پاکستان کی فوجی امداد میں بھی پابندی لگا دی ہے، دونوں ملک ایک طرح کے حالات سے گزر رہے ہیں اور دونوں ہی لیڈروں پر ایک طرح کی ذمہ داری ہے کہ نہیں؟‘‘
سکندر بھائی نے عمران خان کے حق میں دلائل دینے کے بعد تائید طلب نظروں سے کمپارٹمنٹ میں نظر دوڑائی۔ پریتی نے نظر ملتے ہی کہا: ’’یہ طیب اور دردگان کون ہے؟‘‘
’’اور درگان نہیں اردگان، ترکی کا صدر ہے اور کیا دلیر آدمی ہے، امریکہ کو پریشان کر رکھا ہے اس نے۔‘‘ سکندر بھائی نے ٹوپی اتار کر سر کھجاتے ہوئے کہا ’’میں تو کہتا ہوں کہ پاکستان کو قدرت نے موقع دیا ہے موقع، حالات بڑے خراب ہیں، لیکن کپتان ملک نکال لے گا۔‘‘
’’آپ نجومی بھی ہیں؟‘‘ عمران باجوہ نے طنز کیا۔
’’اچھا پھر تو ذرا میرا اور پریتی کا بھی بتائیں ناں، ہمارے اچھے دن کب شروع ہوں گے، سارے کنگلے کنگلے فنکشن مل رہے ہیں، پتہ نہیں شوقین لوگ کدھر چلے گئے ہیں۔‘‘ غزالہ نے ہنستے ہوئے طنزکیا۔ سکندر صاحب نے دونوں کے طنز کا برا منائے بغیر کہا ’’کپتان ضدی بندہ ہے، اس نے فیصلہ کیا کہ پارٹی بنانی ہے تو پی ٹی آئی بنا لی، پھر فیصلہ کیا کہ حکومت بنانی ہے تو دیکھیں آج حکومت بنا لی، بے شک اس کام میں بائیس سال لگے، لیکن اس نے ہدف پورا کیا‘‘۔
’’اور یہ بھی فیصلہ کیا کہ شادی ایک نہیں کرنی۔‘‘ عمران صاحب نے ہنستے ہوئے جملہ چست کیا۔
’’بھئی شادی کی ناں، نکاح کرنا کوئی گناہ تو نہیں، آپ عجیب بات کر رہے ہو۔‘‘
یہ سن کر سیلانی نے پہلی بار جملہ اچھالا ’’سیتا وائٹ سے نکاح کس نے پڑھایا تھا اور عجیب بات تو یہ ہے کہ ایک تبلیغی بھائی کے منہ سے عمران کی تعریف سن رہا ہوں‘‘۔
’’میں پی ٹی آئی کا کارکن نہیں ہوں، لیکن یہ بندہ مجھے غلط نہیں لگتا، کل کی تقریر نے تو اس کا قد کاٹھ اور بڑھا دیا ہے، مجھے تو یہ سچ میں پاکستانی اردگان لگتا ہے، اللہ کرے ملک کو اس مشکل حالات سے نکال لے، میں نے تو جب سے سنا ہے کہ ہم قرض تو قرض، سود کی ادائیگی کے لئے بھی مزید قرض لے رہے ہیں تو دماغ سائیں سائیں کر رہا ہے اور عیاشیاں دیکھو ہمارے لیڈروں کی، وزیر اعظم ہاؤس میں ساڑھے پانچ سو ملازم… توبہ توبہ‘‘
’’عمرا ن خان طیب اردگان ہے یا ثابت ہوتا ہے، یہ بعد کی بات ہے، لیکن اس وقت ترکی اور پاکستان بہت کچھ ثابت کر سکتے ہیں، ایک معاشی قوت ہے اور دوسری ایٹمی قوت، دونوں کے بازو موڑنے والا بندہ ایک ہی ہے، پاکستان اور ترکی مل کر ٹرمپ کے ہاتھ سے نکل سکتے ہیں، رہی بات وزیر اعظم ہاؤس کے ساڑھے پانچ سو ملازمین کی تو عمران خان کے لئے بہترین موقع ہے، وہ وزیر اعظم ہاؤس کا سائز کم کردیں، معراج خالد کی طرح دو کمروںکے فلیٹ میں نہ سہی، برطانوی وزیر اعظم کی رہائش گاہ جتنے مکان میں آجائیں۔‘‘ سیلانی کی اس بات پر سکندر صاحب کچھ کہنے کو تھے کہ ایک جھٹکے سے کمپارٹمنٹ کا دروازہ کھلا اور سفید وردی میں ٹی ٹی بابو ناک کی نوک پر عینک رکھے ٹکٹ چیک کرنے آگئے۔ ان کی آمد سے گفتگو کا سلسلہ تھوڑی دیر کے لئے رک گیا، ان کے جانے کے بعد سکندر صاحب سے پہلے پریتی بلوچ نے آلتی پالتی مارتے ہوئے کہا:
’’میں تو حیران ہوں کہ ساڑھے پانچ سو ملازموں سے کام کیا کیا لیا جاتا ہوگا، ہمارے وزیر اعظموں کو نہیں پتہ کہ ہم لوگ کس حال میں ہیں؟ ہمیں تو پینے کا صاف پانی نہیں ملتا، بندے کو اپنی چادر دیکھ کر پاؤں لمبے کرنے چاہئیں اور کسی کو ہمارے لئے بھی تو سوچنا چاہئے، اے صحافی بابو! آپ ہمارے لئے لکھو ناں کہ کپتان صاحب ان کے لئے بھی کچھ کریں، ہم خواجہ سرا کب تک تالیاں پیٹتے اور ویلیں لیتے رہیں گے، کوئی عزت والا کام ہمارے لئے بھی ہونا چاہئے، ہم بھی تو انسان ہیں۔‘‘
’’بالکل ٹھیک بات ہے۔‘‘ عمران باجوہ نے تائید کی ’’امتیازی سلوک آئین پاکستان کی روح کے خلاف ہے۔‘‘
’’لیکن اس وقت مسئلہ خواجہ سراؤں کا نہیں، پاکستا ن کی معاشی بقاء کا ہے، عمران خان کو پہلے اس پر فوکس کرنا چاہئے تھا، اب معاملہ بیس کروڑ پاکستانیوں کا ہے، ملک ڈیفالٹ ہونے کو ہے، خزانہ خالی ہے، جیب خالی ہو تو بندے کی گھر میں بھی عزت نہیں ہوتی، پاکستان کی دنیا میں کیا عزت ہوگی، عمران خان نے اپنی ترجیحات بتائی ہیں، بتایا ہے کہ ان کا فوکس کیا ہے۔‘‘
’’اور ان ترجیحات میں کشمیر شامل نہیں؟ باجوہ صاحب نے اعتراض داغا ’’وزیر اعظم صاحب کو کشمیر کی بھی بات کرنی چاہئے تھی، عافیہ صدیقی کا ذکر بھی کرنا چاہئے تھا، اس پر تو پیسے نہیں لگتے اور مولوی صاحب! فوکس شوکس چھوڑیں، زیادہ اچھا تھا کہ عمل سے ترجیحات کا اظہار کرتے، وہ صادق اور امین ہیں تو پہلے ان ایم این ایز کے خلاف کارروائی سے شروع کریں، جنہوں نے پچھلے پانچ سال اسمبلی میں مشکل سے پانچ بار بھی قدم نہیں رکھا اور تنخواہ پوری کی پوری لیتے رہے، انسان کو خود سے شروع کرنا چاہئے، کپتان کو اپنی تنخواہیں واپس کرنی چاہئیں، کیوں پریتی میں ٹھیک آکھیاں ناں!؟‘‘
’’مجھے ان باتوں کی سمجھ نہیں آتی۔‘‘ پریتی نے بحث سے جان چھڑائی اور سیل فون نکال کر گیم کھیلنے لگی۔ سکندر صاحب جزبز ہو کر رہ گئے، لیکن سچ یہی ہے کہ عمران خان کو باتوں سے نہیں، عمل سے حکمرانی کا آغاز کرنا چاہئے۔ چلیں پانچ برسوں کی اسمبلی حاضریوں کا حساب جانے دیں، کپتان نے کب کیا کہا، کس کس کو بائونسر اور یارکر ماری، اسے بھی رہنے دیں، اس وقت پاکستان اور ترکی دونوں امریکہ کے جبر کا شکار ہیں، یہ امریکی جبر دونوں ملکوں کو مزید قریب کر سکتا ہے، ترکی تعمیرات اور الیکڑانکس کے میدان میں بہت آگے ہے اور پاکستان ایٹمی میدان میںکسی سے پیچھے نہیں، دونوں ممالک ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں، باہمی تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کے لئے دوستانہ برادرانہ جذبات رکھتے ہیں، عمران خان کو قدرت نے وزیر اعظم ہاؤس تک پہنچا ہی دیا ہے تو وہ آگے بڑھیں، غیر روایتی انداز کی تقریر کافی نہیں، جب حالات غیر معمولی ہیں تو کپتان کو فیصلے بھی غیر معمولی کرنے ہوں گے، کپتان نے مسئلہ کشمیر پر بات نہیں کی، ڈاکٹر عافیہ کا ذکر تقریر سے گول کر گئے، کراچی بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کے زندہ جلائے جانے والے محنت کشوں کو بھول گئے، ڈیفنس میں قتل ہونی والی زہرہ آپا یاد رہیں نہ بارہ مئی، ایم کیو ایم کے جلسوں میں زندہ لاشیں بھی یاد نہ رہیں… چلیں یاد نہ کریں، لیکن کپتان کو یاد رہے کہ وہ پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں، لوگوں کو ان سے بڑی امیدیں ہیں اور یہ امیدیں زبانی جمع خرچ کی نہیں، عمل کی متقاضی ہیں، اب ان کے کاندھوں پر پورے پاکستان کی ذمہ داری ہے، وہ کچھ کر گئے تو واقعی پاکستان کے طیب اردگان بن جائیں گے، کچھ نہ کر سکے تو تاریخ کے کوڑے دان میں ان کی تصویر جا پڑے گی۔ سیلانی یہ سوچتے ہوئے کمپارٹمنٹ میں بحث کرنے والے دوستوں کو دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment