قربانی کا فلسفہ اور عید کا پیغام!

دنیا کے تقریباً تمام مذاہب و ادیان میں خوشی منانے کیلئے تہوار کے کچھ ایام مقرر ہیں۔ اسلام چونکہ ایک کامل و مکمل دین اور انسانی فطرت کے عین مطابق ضابطۂ حیات ہے۔ اس لئے اس نے بھی اپنے ماننے والوں کو خوشی منانے کے لئے سال میں دو دن عید الاضحی اور عید الفطر کی صورت میں دیئے ہیں۔ جب نبی کریمؐ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں زمانہ جاہلیت سے تہوار منانے کا سلسلہ جاری تھا۔ جس میں لوگ لہو و لعب میں مبتلا ہوتے تھے۔ تو آپؐ نے اس کے مقابلے میں اپنی امت کو بھی خوشی منانے کے دو دن دے دیئے۔ خوشی کے یہ دونوں ایام اسلام کے دو بڑے ارکان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ان ارکان کی ادائیگی کے بعد خوشی کے طور پر مسلمان یہ دن مناتے ہیں۔ عید الاضحی حج کی ادائی اور عید الفطر رمضان المبارک کے روزوں کی تکمیل کے بعد منائی جاتی ہے۔ روزہ اور حج جیسی عظیم عبادات کے باعث عیدین کے ایام کی فضیلت بھی عام دنوں سے بہت بڑھ جاتی ہے۔ مگر عید الاضحی کے ساتھ قربانی کا مبارک عمل بھی جڑا ہوا ہے۔ اس لئے اسے عید قرباں بھی کہا جاتا ہے۔ عید الفطر سے عید الاضحی کی اہمیت زیادہ ہونے کی وجہ سے اسے بڑی عید بھی کہتے ہیں۔ ویسے تو قربانی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود انسان کی۔ تاریخ میں پہلی قربانی سیدنا آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل نے پیش کی تھی۔ قابیل کی قربانی مسترد اور ہابیل کی بارگاہ الٰہی میں قبول ہوئی۔ پھر مسلمان جو قربانی کرتے ہیں۔ یہ عمل حق تعالیٰ سے سچی محبت کرنے والے حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہما السلام کی تاریخی قربانی کی یادگار ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی کا حکم دیا گیا اور انہوں نے لخت جگر سے اس بابت مشورہ کیا تو فرمانبردار بیٹا فوراً ہی راہ حق میں قربان ہونے کو تیار ہو گیا۔ یہ دراصل ابراہیم علیہ السلام کا کڑا امتحان تھا۔ جس میں وہ شیطان کی ہزار کوشش کے باوجود کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے لٹایا۔ مگر اسماعیل ؑ کے بجائے جنت کا مینڈھا ان کے ہاتھوں قربان ہو گیا۔ اس کے بعد رب تعالیٰ نے انہیں اپنا خلیل (گہرا دوست) بنانے کا اعلان کیا۔ یہ منظر چشم فلک نے پہلی بار دیکھا تھا کہ ایک شفیق بوڑھا باپ اپنے ہاتھوں نوخیز لخت جگر کو رب کی رضا کیلئے قربان کر رہا تھا اور بیٹا بھی اپنے پروردگار کے نام پر کٹنے کیلئے گردن پیش کر رہا تھا۔ باپ بیٹے کا یہ جذبہ و ایثار حق تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ رہتی دنیا تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس یادگار کو زندہ رکھا۔ اب جانور ذبح کرنے کا مقصد تقویٰ، اطاعت و فرمانبرداری اور رب تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ قربانی کا دوسرا اہم مقصد یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے اپنا سب کچھ خدا کیلئے قربان کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ مقصد ہی نہ ہو یا کسی کوتاہی کی وجہ سے یہ حاصل نہ ہو سکے تو ہماری قربانی حق تعالیٰ کے نزدیک رائیگاں ہے۔ اس لئے کہ ’’خدا کو نہ ان جانوروں کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کا خون۔ اسے تو صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔ (سورۃ الحج: 22)۔ قرآن کریم کی سورۃ المائدہ میں ہابیل اور قابیل کی قربانیوں کا ذکر ہے۔ اس میں یہی الفاظ آئے ہیں کہ ’’خدا صرف متقی لوگوں کی قربانی قبول فرماتا ہے‘‘۔ مقبول قربانی کے بڑے فضائل احادیث مبارکہ میں بیان ہوئے ہیں۔ عید الاضحی کے روز جانور کا خون بہانے سے زیادہ کوئی عمل حق تعالیٰ کو پسندیدہ نہیں ہے۔ قربانی کے جانور کو حق تعالیٰ نے اپنے شعائر میں سے قرار دیا ہے۔ روز قیامت یہ جانور اپنے تمام اعضا کے ساتھ لایا جائے گا اور میزان عمل میں اسے نیکیوں کے پلڑے میں رکھ کر تولا جائے گا۔ جبکہ جانور کے ایک ایک بال کے بدلے میں قربانی کرنے والے کو نیکی ملتی ہے۔ مگر صد افسوس! کہ ہمارے یہاں قربانی تو تقریباً سبھی کرتے ہیں۔ مگر اس کی اصل کو پامال کرنے کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے۔ نیکی چاہے کتنی بڑی ہو۔ مگر ریاکاری سے وہ کالعدم ہو کر رہ جاتی ہے۔ بلکہ پیسہ خرچ کرنے کے باوجود وہ عمل نیکی کے بجائے گناہ کے زمرے میں لکھا جاتا ہے جس کا انجام بہت برا ہے۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے: روز قیامت سب سے پہلے تین ریاکار افراد کو جہنم میں ڈالا جائے گا، حالانکہ ان کا نیک عمل بہت بڑا ہو گا۔ ایک شخص تو وہ ہے جو میدان جہاد میں اپنی جان تک کا نذرانہ پیش کرتا ہے۔ دوسرا ساری زندگی علم دین پڑھنے پڑھانے والا اور تیسرا صبح و شام اپنا مال صدقہ و خیرات کرنے والا۔ مگر چونکہ ان کا عمل لوگوں کو دکھانے کیلئے ہوتا ہے۔ اس لئے انہیں جنت تو کیا ملتی وہ سب سے پہلے جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے۔ قربانی جیسی عظیم عبادت کے سلسلے میں بھی عوام کا مجموعی طرز عمل ریاکاری کا مظہر بنا ہوا ہے۔ جانوروں کے حوالے سے دیکھا جائے تو گویا مقابلے کی فضا بنی ہوئی ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے مہنگے سے مہنگا جانور خریدنا ایک فیشن بن چکا ہے۔ بچے تو ایک طرف، پختہ عمر کے افراد بھی اپنی شان و شوکت ظاہر کرنے کیلئے قربانی کے جانوروں کو لیکر لوگوں کی ان کی قیمت بتاتے پھرتے ہیں۔ بعض جگہ قناتیں لگا کر گلیوں میں ہی جانوروں کو نمائش کی غرض سے باندھ دیا جاتا ہے۔ جانور کی حفاظت کے نام پر مسلح گارڈز کی خدمات بھی فخریہ انداز میں حاصل کی جاتی ہیں۔ مختلف اہم شاہراہوں سے متصل ہیوی قسم کے جانوروں کے اسٹال لگا کر ان کی نمائش کا بطور خاص اہتمام کیا جا رہا ہے۔ پھر شہرت کے بھوکوں کی جانب سے مہنگے جانور کی تشہیر کیلئے باقاعدہ میڈیا کی ٹیم بھی بلانے کا رواج چل نکلا ہے اور اس نمود و نمائش کی تشہیر کیلئے ابلاغی ادارے بھی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ اب سوشل میڈیا تک ہر کس و ناکس کی رسائی نے بقیہ کسر بھی پوری کر دی ہے۔ فیس بک وغیرہ کے صارفین نے قربانی کے جانوروں کی تشہیر کو گویا واجب سمجھ رکھا ہے۔ جس کا اندازہ بڑے پیمانے پر شیئر ہونے والی اس طنزیہ پوسٹ سے کیا جا سکتا ہے، جس میں کسی نے مفتی سے سوال کیا ہے کہ میں نے قربانی کا جانور تو خریدا ہے، مگر کسی وجہ سے اس کی تصویر سوشل میڈیا میں اَپ لوڈ نہ کر سکا، کیا میری قربانی ہو جائے گی؟ ہم قربانی کے جانور کی رسّی تو بچوں کو تھما دیتے ہیں۔ مگر ہم میں سے کتنے ایسے ہوں گے، جو بچوں کو قربانی کا اصل مقصد اور اس کا فلسفہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں؟ قربانی کے علاوہ دیگر حوالوں سے بھی ہم مذہبی تہوار اس طرح منانے لگے ہیں، جس سے ہم اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں میں کوئی فرق نہیں باقی رہتا۔ وہی لہو و لعب، وہی رقص و سرود، گانے اور دیگر خرافات نے عیدین کی اصل کو مجروح کر کے رکھ دیا ہے۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کا عید کے دن یہ معمول ہوتا تھا کہ آپؓ زار و قطار روتے۔ پوچھا جاتا کہ آپ اس قدر کیوں رو رہے ہیں؟ آج تو عید ہے، خوشی منانے کا دن ہے۔ امیر المومنینؓ فرماتے: یہ خوشی کا دن ہے اور خوف کا دن بھی۔ خوشی اس کیلئے ہے، جس کی عبادت قبول ہوئی اور جس سے خدا راضی ہوا۔ لیکن جس کی نہ عبادت قبول ہوئی اور نہ خدا راضی ہوا تو اس کیلئے یہ عید خدا سے ڈرنے کا دن ہے اور میں یہ نہیں جانتا ہوں کہ میں مقبولوں میں سے ہوں یا غیر مقبولوں میں سے۔ اسی لئے رو رہا ہوں کہ نہ جانے حق تعالیٰ آخرت میں میرے ساتھ کیا سلوک فرمائے۔ فاروق اعظمؓ کا یہ سنہری فرمان ہی عید کا اصل پیغام ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment