برمودا مثلث سجین ہے! (آخری حصہ)

ڈاکٹر عبدالغنی فاروق
مولانا عبدالحق ہاشمی صاحبؒ (پیدائش 30-9-1963) مدینہ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل، پنجاب یونیورسٹی کے گریجویٹ اور جید عالم دین تھے، مجھے ان کی دینی معلومات اور ثقاہت پر بہت بھروسہ ہے۔ موصوف جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر بھی تھے، میں نے ان کی خدمت میں یہ مقالہ پیش کیا تو ایک روز انہوں نے فرمایا کہ برمودا کے سمندری غار کا مثلث یعنی تین کونوں والا ہونا خصوصی طور پر قابل غور ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے سورہ مرسلات نمبر 77 کی چار آیات کا حوالہ دیا (نمبر 29 سے 33) جن کا ترجمہ یوں ہے:
’’ چلو اب اس چیز کی طرف جسے تم جھٹلایا کرتے تھے چلو اس سائے کی طرف جو تین شاخوں والا ہے۔ نہ ٹھنڈک پہنچانے والا اور نہ آگ کی لپٹ سے بچانے والا۔ وہ آگ محل جیسی بڑی چنگاریاں پھینکے گی (جو اچھلتی ہوئی یوں محسوس ہوں گی) گویا کہ وہ زرد اونٹ ہیں۔ تباہی ہے اس روز جھٹلانے والوں کے لئے۔‘‘
مولانا ہاشمی صاحب نے فرمایا جب یہ بات مستند احادیث سے ثابت ہے کہ سجین زمین کے اندر ہے اور قرآن کی رو سے وہاں مجرم روحوں کو قید کیا جاتا ہے تو کیا عجب کہ وہ برمودا ہی کے مقام پر واقع ہو کہ برمودا کے تین کونے ہیں اور اس آیت کی رو سے خدا تعالیٰ اپنے باغیوں کو تین کونوں والی دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہونے کا حکم دے رہے ہیں۔ یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ بیہقی نے ’’دلائل نبوت‘‘ میں حضرت ابن سلام ؓ سے روایت کیا ہے کہ جہنم زمین کے اندر ہے۔ (بحوالہ ’’معارف القرآن‘‘ جلد 8 ص 295) چنانچہ غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصل جہنم تو کائنات کے کسی دور دراز گوشے میں مستور ہے، لیکن اس کا ایک حصہ برمودا کی صورت میں زمین کے اندر محفوظ کر دیا گیا ہے۔
گویا یوں محسوس ہوتا ہے کہ جو لوگ زمین میں رہتے ہوئے خدا کی بغاوت پر کمر باندھے رکھتے ہیں، ان کی موت کے فوراً بعد ان کی روحوں کو زمین ہی کے اندر ایک ایسی جگہ میں ٹھونس دیا جاتا ہے جو جہنم ہی کا ایک حصہ ہے اور علمی و سائنسی حوالوں کے ساتھ میں نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ مقام برمودا ہے۔ (واﷲ اعلم بالصواب)
میرا یہ مقالہ شائع ہوا تو قارئین نے اسے مجموعی اعتبار سے پسند کیا اور اس کی مقبولیت کا ثبوت یہ ہے کہ یہ کتابچہ بار بار شائع ہوا، مگر ایک مضمون نگار نے میرے نقطہ نظر سے شدید اختلاف کیا اور اسے محض مفروضہ قرار دیا۔ میں نے اس کے جواب میں لکھا کہ علیین اور سجین کا ذکر قرآن میں ہے، یعنی علیین میں نیک روحوں کو رکھا جاتا ہے اور وہ آسمانوں میں ہے، جبکہ سجین میں جو مجرم روحوں کو قید کیا جاتا ہے اور نبی اکرمؐ کی حدیث ہے کہ سجین زمین کے اندر ہے۔
میں نے لکھا کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اس طرح کا بیان بائبل میں ہوتا کہ وہ جگہ جہاں مجرم روحوں کو قید کیا جاتا ہے، وہ زمین کے اندر ہے تو یورپ کے عیسائی سائنس دان اور جغرافیہ دان لنگر لنگوٹ کس کر اس کی تلاش میں لگ جاتے اور اس وقت تک چین نہ لیتے جب تک اس کا سراغ نہ لگا لیتے۔ لیکن چونکہ بائبل میں ایسا کوئی ذکر نہیں ہے، اس لئے وہ اس معاملے میں خاموش ہیں، جبکہ اس کے برعکس پیغمبر اسلامؐ کی واضح حدیث ہے کہ سجین زمین کے اندر ہے اور راقم الحروف کا دلائل کی روشنی میں دعویٰ ہے کہ برمودا ہی سجین ہے اور گویا یہ نبی اکرمؐ کا جیتا جاگتا زندہ معجزہ ہے تو آپ اسے مفروضہ قرار دے رہے ہیں اور مذاق اڑا رہے ہیں، آخر کیوں؟ کیا آپ کے نزدیک سجین کا عقیدہ ایک مفروضہ ہے اور اگر یہ ایک حقیقت ہے تو وہ کہاں ہے؟ کیا اس کا سراغ نہیں لگانا چاہئے؟ کیا اس کی تلاش نہیں ہونی چاہئے؟ تو تحدیث نعمت کے طور پر میں بڑے عجز سے عرض کر رہا ہوں کہ میں نے اس کا سراغ لگا لیا ہے اور وہ برمودا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں مجرم روحوں کو مقید کیا جاتا ہے۔
یہ امر بھی بڑا چونکا دینے والا ہے کہ برمودا کے حوالے سے یہ مقام کرہ ارض کے آر پار چلا گیا ہے۔ پروفیسر موڈی کی تحقیق کے مطابق جو لوگ موصوف کی گرفت میں آئے، ان سب نے دوسری جانب واضح روشنی کی نشاندہی کی ہے اور ڈاکٹرموڈی نے اپنی دوسری کتاب کا عنوان ہی LIGHT BEYOND رکھا ہے۔ اس میں ایک ہزار افراد کا ذکر ہے، جو مرنے کے بعد زندہ ہوگئے تھے اور انہوں نے اپنے تاثرات بیان کئے تھے … یہ دوسرا علاقہ بحر الکاہل میں جاپان کے قریب ہے اور یہاں بھی یہ تکون کی شکل میں ہے اور یہاں اسے ڈریگن تکون اور شیطانی سمندر کہا جاتا ہے۔ برمودا تکون اور ڈریگن تکون میں حیرت انگیز مماثلت ہے۔ یعنی دونوں ایک ہی طول بلد اور عرض بلد پر واقع ہیں اور جس طرح کے واقعات برمودا مثلث کے علاقے میں رونما ہوئے ہیں۔ ویسے ہی ڈریگن مثلث کے علاقے میں دیکھے جاتے ہیں، یعنی بحری اور ہوائی جہازوں کا کثرت سے غائب ہونا، پراسرار ’’جہازوں‘‘ کا ایک تکون سے دوسری تکون کی طرف سفر کرنا اور اڑن طشتریوں کا نظر آنا۔ جاپان کے لوگ ان معلومات سے اچھی طرح آگاہ ہیں اور جاپانی حکومت نے ایک سرکاری حکم کے ذریعے عوام کو اس علاقے سے دور رہنے کا حکم جاری کر رکھا ہے۔
اب اگر غور کریں تو اس امر کو سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ برمودا مثلث کے علاقے میں پر اسرار اڑن طشتریوں کی حقیقت کیا ہے؟ متذکرہ واقعات و شواہد کی روشنی میں دراصل یہ فرشتے ہیں، جو مختلف روپ دھار کر اس فضا میں محو پرواز رہتے ہیں اور وجودیت کے علمبردار، مادیت کے پرستار لوگوں کو زبان حال سے چیلنج کر رہے ہوتے ہیں کہ تم خدا کا اس لئے انکار کرتے ہو کہ وہ نظر نہیں آتا، لیکن ہم تو اس وقت مختلف صورتوں میں نظر آ رہے ہوتے ہیں، تب بتائو کہ ہم کیا ہیں؟ جرأت ہے تو ہمارا بھی انکار کرو، لیکن تم ایسا نہیں کر سکتے کہ ہزاروں لوگ، مختلف وقتوں میں، کھلی آنکھوں سے ہمارا مشاہدہ کرتے ہیں اور ہمارے حوالے سے حیرت انگیز تجربات سے دوچار ہوتے ہیں۔
یوں لگتا ہے کہ برمودا مثلث کے اسرار اور اڑن طشتریوں کے ذریعے حق تعالیٰ دراصل اہل یورپ خصوصاً دہریت و الحاد کے امام امریکہ والوں پر عہد حاضر میں اپنی حجت تمام کر دینا چاہتا ہے تاکہ وہ کھلی آنکھوں سے نظر آنے والے ان معجزات کو دیکھ کر خدا اور اس کے دین حق کا اقرار کر لیں اور باطل پرستی کا رویہ ترک کر دیں۔
تو قارئین کرام ہمیں پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ برمودا کا مثلث دراصل سجین کا راستہ ہے اور یہاں کی فضائوں میں اڑن طشتریاں، عجیب و غریب جہاز اور مافوق سفید بادل دراصل فرشتوں کے روپ ہیں، اس کے سوا اس کی کوئی توجیہہ نہیں کی جا سکتی اور ہمیں یہ توجیہہ کرتے ہوئے ذرا بھی کسی COMPLEX میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment