امریکی اہداف اور وقت کی ضرورت

امریکہ کی مسلم دشمنی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ امریکی پالیسیوں کا رخ بھی مسلم ممالک ہی کی جانب ہے، جس کا ہدف اب پاکستان، ترکی اور ایران ہیں، مگر تینوں ممالک اب امریکہ کی ڈکٹیشن لینے پر تیار نہیں، لہٰذا عقل و خرد سے عاری اور سیاسی تدبر سے محروم ڈونالڈ ٹرمپ اب کھل کر ان تینوں ممالک کے سامنے آچکا ہے۔ پاکستان پر افغان جنگ میں اپنی ناکامی کا ملبہ گراتے ہوئے امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہیں کر رہا، جس کے پاکستان میں محفوظ ٹھکانے ہیں۔ پاکستان امریکی الزامات کی سختی سے تردید کر چکا ہے، جبکہ حقانی نیٹ ورک نے بھی واضح کیا ہے کہ وہ بھی افغانستان میں موجود رہ کر امریکی فوجیوں کے خلاف کارروائی کررہا ہے، کیونکہ حقانی نیٹ ورک دراصل طالبان کا ہی ایک ونگ ہے، جو افغانستان کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرانے کیلئے گزشتہ سترہ برس سے جدوجہد کر رہا ہے اور امریکہ باوجود اپنی فوجی قوت کے اس کو دبانے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔
چلیں تھوڑی دیر کیلئے یہ فرض کرلیتے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک پاکستان میں موجود رہ کر افغانستان میں امریکی فورسز کو نشانہ بناتا ہے اور واپس پاکستان آجاتا ہے تو کیا امریکیوں میں اب اتنا دم خم بھی نہیں رہا کہ وہ مٹھی بھر جنگجوئوں کو روک سکیں یا پھر ان کے خلاف کارروائی کرسکیں؟ اچھا تو پھر طالبان کے بارے میں کیا خیال ہے جو افغانستان میں موجود رہ کر امریکہ کیلئے گزشتہ سترہ برس سے درد سر بنے ہوئے ہیں اور جنہیں امریکہ اپنی بھرپور فوجی قوت اور جدید ترین ہتھیاروں کے استعمال کے باوجود نہیں دبا سکا، بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ طالبان ایک فوجی قوت کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ امریکہ افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست سے دوچار ہو چکا ہے، لیکن اپنی شکست کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں اور یہی امریکہ کا اصل مسئلہ ہے، جس کا الزام وہ پاکستان پر ڈال کر اپنی عزت بچانا چاہتا ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے پاکستان کو نیچا دکھانے اور اس پر دباؤ ڈالنے کیلئے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا ہے اور اب بھی کررہا ہے، مگر پاکستان کو جھکانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ افواج پاکستان پر ڈبل گیم کھیلنے کا نام نہاد الزام لگانے والا امریکہ دراصل خود ہی ڈبل گیم کھیل رہا ہے، مگر پھر بھی کامیابی اس سے کوسوں دور ہے۔ امریکہ افغانستان میں ناکامی کی عملی تصویر بنا ہوا ہے اور اسے اچھی طرح سے علم ہے کہ وہ افغانستان کی جنگ میں عبرت انگیز شکست سے دوچار ہو چکا ہے، لیکن دنیا کی واحد سپر پاور کے طور وہ یہ بات تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ افغانستان کے خاک نشین طالبان نے اسے عبرتناک شکست سے دوچار کردیا ہے۔ سوویت یونین نے بھی مجاہدین کے ہاتھوں شکست کھائی تھی، لیکن اس نے اپنی شکست تسلیم کرلی تھی اور یوں مجاہدین نے سوویت افواج کو محفوظ انداز میں واپسی کا راستہ دے دیا تھا۔ چونکہ امریکہ اپنی ہٹ دھرمی پر تلا ہوا ہے، چنانچہ طالبان امریکی افواج کو موقع ملتے ہی کاری ضرب لگانے سے نہیں چوکتے۔
ایران بھی امریکہ کا ہدف ہے۔ بارک اوباما نے 2015ء میں کئی برس کے مذاکرات کے بعد ایران کے ساتھ اس کے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے اور اسے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاریوں سے باز رکھنے کیلئے ایک جامع معاہدہ کیا تھا، جس پر روس، چین، جرمن، برطانیہ اور فرانس نے بطور ضمانتی دستخط کئے تھے اور جواب میں امریکہ نے ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں کو مرحلہ وار ختم کرنا شروع کردیا تھا، مگر بدقسمتی سے بارک اوباما کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے اور انہوں نے اسرائیل کی ایما پر ایران پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا اور دھمکی دینا شروع کردی کہ امریکہ اس ایٹمی معاہدے سے نکل جائے گا، کیونکہ ایران اس ایٹمی معاہدے پر خلوص دل کے ساتھ عمل نہیں کررہا۔ ٹرمپ نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ بارک اوباما نے اس ایٹمی معاہدے میں امریکی مفادات کا پوری طرح سے خیال نہیں رکھا تھا، جس کا ایران پوری طرح سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ دراصل ٹرمپ نے اسرائیل کی خوشنودی کی خاطر بلاسوچے سمجھے ایران کے ساتھ کئے گئے معاہدے سے نکلنے کا اعلان کردیا اور ایران پر ایک بار پھر سے اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کردیا۔
ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے بارے میں ٹرمپ نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا، وہ بے بنیاد تھے اور ان میں کچھ بھی حقیقت نہ تھی۔ ایران کا دورہ کرنے والے انٹرنیشنل اٹامک انرجی کے انسپکٹرز نے نہ تو ایران پر اس معاہدے کی خلاف ورزی کے کوئی الزامات عائد کئے اور نہ ہی ایران کے ایٹمی ہتھیار بنانے کے بارے میں کوئی شہادت دی۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سربراہ نے تو یہاں تک کہا کہ ایران نے اس معاہدے کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی اور وہ معاہدے پر خلوص دل سے عمل کر رہا ہے، لیکن ان واضح شہادتوں کے باوجود ٹرمپ نے روایتی عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران کے ساتھ معاہدے سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا اور ایران پر پابندیوں کے اجرا کا اعلان بھی کیا۔
ٹرمپ کے ان اقدامات کے پیچھے دراصل اسرائیلی سوچ کار فرما ہے، کیونکہ جب بارک اوباما نے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر دستخط کئے تھے تو اسرائیل نے اس کی سخت مخالفت کی تھی۔ پھر واضح طور پر اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ اس معاہدے کو تسلیم نہیں کرے گا اور ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاریوں سے روکنے کیلئے تمام اقدامات کرے گا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر بھی سخت اعتراضات کئے ہیں اور کہا کہ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو بھی ایٹمی معاہدے کا حصہ بنانا چاہئے تھا۔ ٹرمپ نے بھی اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ایران کو بیلسٹک میزائلوں میں پیشرفت کرنے سے روکنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔
اگر ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو دیکھا جائے تو یہ ایک خالصتاً دفاعی نوعیت کا پروگرام ہے، جسے ایران نے اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کیلئے شروع کیا تھا۔ ایران نے بیلسٹک میزائلوں کی ڈیولپمنٹ میں خاصی ترقی کی ہے اور بتدریج کر رہا ہے، لیکن ایران کی یہ پیشرفت اسرائیل کو کسی صورت گوارا نہیں اور اس کی خواہش ہے کہ جب ایران کو کسی فوجی کارروائی کا نشانہ بنایا جائے تو وہ جواب دینے کی پوزیشن میں نہ ہو۔ ایران کے بیلسٹک میزائل اسرائیل کو جہنم بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، چنانچہ یہی خوف اسرائیل کو بے چین کئے ہوئے ہے۔ حالانکہ امریکہ کی مالی اور تکینکی عدد کے ساتھ اسرائیل نے چار قسم کے میزائل ڈیفنس سسٹمز آپریشنل کئے ہوئے ہیں، مگر پھر بھی ایرانی میزائلوں کے خوف کا شکار ہے۔ ایرانی حکومت نے واضح مؤقف اختیار کیا ہے کہ ایٹمی معاہدے کا ایران کے بیلسٹک میزائلوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ کسی بھی صورت میں اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام پر نہ تو کوئی مذاکرات کرے گا اور نہ ہی کسی قسم کی قدغن قبول کرے گا۔ ایرانی حکومت نے ٹرمپ کی جانب سے ایران کو ایٹمی پروگرام پر کی جانے والی مذاکرات کی دعوت بھی مسترد کردی ہے اور کہا ہے کہ امریکہ ناقابل اعتبار ملک ہے اور اس کی کسی بات پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ کئے جانے والے معاہدے سے نکلنے کا فیصلہ تو کرلیا لیکن اس سے امریکہ کی ساکھ پر برے اثرات مرتب ہوئے ہیں، کیونکہ اب کوئی بھی امریکہ پر بھروسہ کرنے پر تیار نہ ہوگا۔
ترکی امریکہ کا حلیف نیٹو کا ایک اہم ملک ہے۔ ترکی نے امریکہ کا بہت ساتھ دیا ہے۔ ترکی اب بھی ان ممالک میں شامل ہے، جہاں امریکہ کے ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، جنہیں سوویت یونین سے نمٹنے کیلئے سرد جنگ کے زمانے میں رکھا گیا تھا۔ امریکہ نے ترکی کے ایئر بیسز کو وار آن ٹیرر میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور اب بھی کررہا ہے۔ ترکی نے افغانستان میں ایساف افواج کا حصہ بن کر امریکہ کا ساتھ دیا اور اس وقت بھی بگرام ایئر بیس کی حفاظت ترکی فوجی کر رہے ہیں۔ ترکی امریکہ کا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے، لیکن اس کے باوجود امریکہ کی نظروں میں کھٹک رہا ہے۔ ترکی کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں خرابی اس وقت دیکھنے میں نظر آئی، جب جولائی 2016ء میں ترکی میں فوج کی بغاوت کو حکومت نے کچل دیا اور ان تمام باغیوں کو گرفتار کرلیا، جو اس سازش میں شریک تھے۔ ترکی میں اس بغاوت کی امریکہ نے مذمت نہیں کی، بلکہ خاموشی اخیتار کی۔ ترکی حکومت نے اس بغاوت کا ماسٹر مائنڈ امریکہ میں مقیم ترک جلاوطن فتح اللہ گولن کو قرار دیا اور امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ گولن کو ترکی کے حوالے کرے، مگر امریکہ نے گولن کو ترکی کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد ترکی اور امریکہ تعلقات میں بتدریج کشیدگی بڑھتی گئی۔
ترکی نے 2017ء میں چین سے HQ-9 لانگ رینج ایئر ڈیفنس سسٹم کے حصول کیلئے رضا مندی ظاہر کی۔ دونوں ممالک کے درمیان تفصیلات طے ہوئیں، لیکن امریکہ نے اس کی سخت مخالفت کی اور ترکی پر دباؤ ڈالا کہ وہ چین سے اس ایئر ڈیفنس سسٹم کی خریداری نہ کرے۔ ترکی نے امریکی دباؤ کے بعد چین سے یہ سسٹم خریدنے سے معذرت کرلی۔ لیکن ترکی نے اپنی ضرورت کے لئے روس سے جدید ترین S-400 لانگ رینج ایئر ڈیفنس اور اینٹی بیلسٹک میزائل سسٹم کے حصول کیلئے معاہدہ کرلیا، جس کے مطابق روس جلد ہی ترکی کو S-400 ایئر ڈیفنس اینڈ اینٹی بیلسٹک میزائل سسٹم فراہم کردے گا۔ امریکہ نے ترکی کے اس فیصلے پر سخت ردعمل ظاہر کیا اور ماضی کی طرح ترکی پر دباؤ ڈالا کہ وہ روس سے یہ ایئر ڈیفنس سسٹم حاصل کرنے سے باز رہے اور اس کی جگہ امریکہ سے پیٹریاٹ ایئر ڈیفنس سسٹم حاصل کرلے، لیکن اس مرتبہ ترکی نے امریکہ کا دباؤ مسترد کر دیا اور اب ترکی اور روس کے درمیان معاہدہ طے پاچکا ہے، جبکہ ترکی نے ایڈوانس ادائیگی بھی کر دی ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ ترکی کو اگلے برس سے یہ جدید ترین روسی سسٹم ملنا شروع ہو جائے گا۔ امریکہ کو دراصل اصل پریشانی یہ ہے کہ ترکی اس جدید ترین روسی سسٹم تک امریکہ کو رسائی دینے پر تیار ہے اور نہ ہی نیٹو کے کسی رکن کو، بلکہ ترکی کا یہ جدید ترین ایئر ڈیفنس سسٹم عملاً نیٹو کا حصہ بھی نہیں ہوگا۔
امریکی کانگریس نے اس کے ردعمل میں ترکی کو فراہم کئے جانے والے F-35 طیاروں کی ڈیلوری روکنے کیلئے قانون کا ایک مسودہ منظوری کیلئے پیش کیا ہے، جسے اگر امریکی سینیٹ منظور کرلیتی ہے تو پھر یہ باقاعدہ قانون کا روپ دھارے گا اور ترکی کو F-35 طیاروں کی فراہمی روک دی جائے گی۔ حالانکہ ترکی ان طیاروں کی خاصی ادائیگی بھی کرچکا ہے۔ ترک حکومت نے اس امریکی اقدام پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ امریکہ ایسی حماقت سے باز رہے گا، ورنہ دوسری صورت میں ترکی جوابی اقدام کے طور پر نیٹو کو خیرباد کہہ دے گا۔
ترکی اور امریکہ کے درمیان حالیہ کشیدگی کی وجہ ایک امریکی پادری کی ترکی میں گرفتاری ہے، جسے کہ علیحدگی پسندوں کے ساتھ رابطوں کے بعد ترک حکومت نے گرفتار کرکے اس پر اپنی سلامتی کے خلاف دہشت گردوں کا ساتھ دینے پر مقدمہ چلانے کا اعلان کیا ہے، جبکہ امریکہ نے گرفتار پادری کو رہا کرنے کی اپیل کی ہے، جسے ترکی نے مسترد کردیا ہے اور اپنے عزم کا اظہار کیا ہے کہ گرفتار پادری پر ترکی کے قوانین کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔ ترک صدر نے امریکہ کے اس اقدام کو دوست کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے اور امریکہ پر واضح کر دیا ہے کہ ترکی امریکہ کا کوئی دباؤ قبول نہیں کرے گا۔ واضح رہے کہ ترکی کی برآمدات پر محصولات میں اضافہ کرکے امریکہ نے ترکی کے خلاف اقتصادی جنگ چھیڑ دی ہے، جس کے باعث ترکی کی کرنسی کی قیمت میں 20 فیصد کمی آئی ہے، لیکن ترکی نے اپنی برآمدات میں اضافہ کرکے اس امریکی اقدام کا مؤثر جواب دینے کا عندیہ دیا ہے۔
پاکستان، ترکی اور ایران کے خلاف امریکہ کی جارحانہ پالیسیاں تینوں ممالک میں قربت بڑھانے کا سبب بن رہی ہیں، کیونکہ پاکستان اور ایران نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ امریکہ کی جانب سے ترکی پر پابندیوں کے نفاذ کو ناصرف مسترد کریں گے، بلکہ ترکی کی اس مشکل وقت میں مدد بھی کریں گے۔ ترک صدر نے بھی اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ترکی امریکی پابندیوں کا جواب نئے اتحاد اور نئی شراکت داریاں قائم کرکے دے گا۔ ترکی نے روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دیا ہے، جبکہ امریکہ کے پاکستان کے خلاف اقدامات کے بعد چین پاکستان کے پیچھے کھڑا ہوگیا ہے۔ امریکی دباؤ کے خلاف ایران کو بھی روس اور چین کی حمایت حاصل ہے۔ امریکہ نے پاکستان، ایران اور ترکی کے خلاف جو جارحانہ پالیسیاں اختیار کر رکھی ہیں، ان کے سدباب کیلئے تینوں ملکوں کا تعاون اور اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور اگر اس سلسلے میں پاکستان، ایران، ترکی، روس اور چین پر مشتمل بلاک وجود میں آجائے تو امریکی من مانیوں کو ناصرف مؤثر انداز میں روکا جاسکتا ہے، بلکہ اس خطے سے امریکی اثر ورسوخ کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment