سرفروش

قسط نمبر: 96
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
اگلے روز سے میں نے سچن بھنڈاری کی نگرانی کا سلسلہ شروع کیا۔ اس سلسلے میں اسلم نے میری مدد کی، جس نے اپنی ضمانت پر ایک آٹو رکشا مجھے بھاڑے پر دلا دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس طرح میں مشکوک نظروں کا نشانہ بنے بغیر اپنا کام کر سکوں گا۔ اس نے مجھے بمبئی کے کچھ راستے بھی سمجھانے کی کوشش کی، لیکن میں نے کتابوں کی دکان سے ایک نقشہ خرید کر خود راستے ذہن نشیں کرنا زیادہ بہتر سمجھا۔ سارا محل وقوع اچھی طرح سمجھ میں آنے تک میں نے برائے نام مسافروں کو آٹو رکشا میں بٹھانے کا فیصلہ کیا۔
نگرانی کے پہلے روز میں علی الصباح کولابا کے علاقے نیوی نگر میں واقع سچن کے چھوٹے سے بنگلا نما کوارٹر کے پاس جا پہنچا۔ اس دوران مجھے راستے میں کئی مسافروں نے ہاتھ دے کر روکنے کی کوشش کی، لیکن میں نے انہیں نظر انداز کر دیا۔ دس منٹ روڈ کے سرے پر کھڑا رہنے کے بعد میں نے لگ بھگ ایک کلومیٹر کا چکر لگایا اور روڈ کے دوسرے سرے پر رکشا روک دیا۔
اپنی وہاں موجودگی کا جواز پیدا کرنے کے لیے میں رکشے کی ڈرائیونگ سیٹ ہٹا کر انجن سے ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ کرتا رہا۔ میں موٹر سائیکل اور گاڑی کی مرمت کا ہلکا پھلکا کام جانتا ہوں، لیکن انجن میں کوئی خرابی ہوتی تو میں ٹھیک کرتا۔ بالآخر میرا انتظار ختم ہوا۔ میری توجہ کا مرکز بنے کوارٹر سے ایک پینتالیس سال کے لگ بھگ عمر کے گہری سانولی رنگت اور بے ڈول فربہ جسم کا درمیانہ قد شخص 1956ء ماڈل کی چھوٹی سی سرخ فیئٹ گاڑی میں کوارٹر کے گیٹ سے نکلا۔ اس دور میں یہ گاڑی
ہندوستان میں بہت مقبول تھی۔ کیونکہ میں نے اس ماڈل کی بہت سی گاڑیاں دلّی اور بمبئی کی سڑکوں پر رواں دواں دیکھی تھیں۔
گاڑی کے سو گز آگے نکلتے ہی میں نے اس کا تعاقب شروع کر دیا۔ سچن بیس پچیس میل فی گھنٹا کی رفتار سے گویا نرم نرم دھوپ کا مزا لیتے ہوئے گاڑی چلا رہا تھا۔ لہٰذا مجھے اس کا پیچھا کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آرہی تھی۔ تعاقب کا یہ سلسلہ زیادہ طویل ثابت نہیں ہوا۔ لگ بھگ چار میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم سینٹ جارج چرچ اور بمبئی کے چھتر پتی شیوا جی ریلوے اسٹیشن سے ذرا آگے ساحل سے منسلک سڑک پر واقع دفتروں کے ایک سلسلے میں داخل ہوئے اور سچن نے قدیم طرز کی ایک دو منزلہ عمارت کے گیٹ میں گاڑی داخل کر دی۔ میں نے دیکھا کہ عمارت کے گیٹ پر بھارتی ناؤ سینا یعنی بحریہ کے دو مسلح اہلکار تعینات تھے۔ میں بساط بھر توجہ سے عمارت اور گرد و نواح کا جائزہ لیتے ہوئے آگے نکل گیا اور سڑک پر لگ بھگ تین میل آگے کا چکر لگاکر اسی راستے پر واپس آیا اور ایک بار پھر عمارت کا جائزہ لیا۔ فی الوقت میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اس حساس علاقے میں بلا وجہ چکراتے پھرنا بھی خطرناک تھا، لہٰذا اپنے ٹھکانے پر لوٹ آیا۔
میں دفتری اوقات ختم ہونے تک بمبئی کے نقشے میں سر کھپاتا رہا۔ بلارڈ نامی وہ گودی ان دفاتر کے عقب میں واقع تھی، جہاں آئی این ایس وکرانت کو پردہ کشائی کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ شاید دفتری عمارت کے عقب میں سے کوئی راستہ میلوں تک ایستادہ گودی کی حد بندی کی دیوار میں گزر کر سیدھا وکرانت تک بھی جاتا ہو۔ اسی سڑک پر آگے جاکر بمبئی کی مصروف ترین بندرگاہ آجاتی تھی۔ روڈ کے بائیں طرف والی دیوار کے دوسری طرف ریل کی پٹریوں کا جال بچھا ہوا تھا اور متعدد پلیٹ فارم بھی تھے۔ مجھے اطمینان ہوا کہ ریلوے اسٹیشن بالکل قریب ہونے کی وجہ سے وہاں آٹو رکشا اور سائیکل رکشا کی بھرمار ہے اور کسی آٹو رکشا کا وہاں بار بار چکر لگانا بھی کوئی توجہ طلب بات نہیں ہوگی۔
میرے ٹھکانے یعنی بھنڈی بازار کا سچن کے دفتر سے فاصلہ لگ بھگ دو میل رہا ہوگا۔ اگر ریلوے کے شیطان کی آنت کی طرح پھیلے احاطے سے گھوم کر نہ جانا پڑتا تو شاید اس سے نصف فاصلہ بنتا۔ دفتروں کی چھٹی کا وقت قریب آنے پر میں نے اپنا آٹو رکشا نکالا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔ چھٹی کا وقت ہونے کی وجہ سے اس سڑک پر کچھ زیادہ ہی چہل پہل تھی۔ میں ہاتھ دے کر آٹو روکنے کی کوشش کرتے کئی مسافروں کو نظر انداز کرتے ہوئے خراماں خراماں سچن کے دفتر کے پاس پہنچ گیا۔ وہاں مجھے کئی آٹو قطار میں شاید اپنے بندھی کے مسافروں کا انتظار کرتے نظر آئے۔ میں نے ان سے ذرا ہٹ کر اپنا رکشا کھڑا کیا اور ایک بار پھر انجن کا ڈھکن کھول کر پرزوں سے چھیڑ چھاڑ کا ناٹک کرنے لگا۔
سچن نے زیادہ انتظار نہیں کرایا۔ چند ہی منٹ میں ہم ایک بار پھر آگے پیچھے رواں دواں تھے۔ لیکن اس مرتبہ اس کی گاڑی کا رخ گھر کی طرف نہیں تھا۔ وہ راستے میں کولابا مارکیٹ میں رکا اور کچھ پھل اور بیکری کا سامان خریدا۔ اس کے بعد اس نے شراب کی ایک دکان سے ایک بڑی سی بوتل خریدی۔ میں نے دیکھا کہ اس نے کھانے پینے کا سامان تو گاڑی کی عقبی نشست پر رکھا ہے، البتہ شراب کی بوتل ایک بڑے سے رومال میں لپیٹ کر ڈکی میں چھپائی ہے۔
اس کے بعد وہ سیدھا گھر پہنچا۔ میں نے یہ بات خاص طور پر ذہن نشین کی کہ اس نے ہارن بجاکر گیٹ نہیں کھلوایا، بلکہ چھوٹے دروازے سے اندر جاکر خود گیٹ کھولا اور گاڑی اندر لے جانے کے بعد بھی گیٹ خود ہی اندر سے بند کیا۔ اب وہاں مزید ٹھہرنا میرے لیے مناسب نہیں تھا، لہٰذا میں واپس اپنے ٹھکانے پر آگیا۔ میرا آج کا مشاہدہ، شراب کی بوتل کی خریداری اور اسے چھپانے کے سوا، لگ بھگ وہی تھا، جو میرے پاس موجود دستاویز میں بتایا گیا تھا۔ اب مجھے سوچنا تھا کہ آٹورکشا سے ہٹ کر اس کے گھر کی شام کے بعد تفصیلی نگرانی کے لیے کون سا طریقہ اختیار کروں۔ کافی سوچ بچار کے بعد مجھے جو ترکیب سمجھ میں آئی، میں نے اسے آزمانے کا فیصلہ کیا۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment