’’کیا یہی زندگی ہے؟‘‘

ڈاکٹر صابر حسین خان

میں ’’کہانی‘‘ پر کہانی لکھ رہا تھا۔ شبنم کا آج تیسرا دن تھا ٹریننگ کا۔ اُسے اپنا موبائل دے کر میں نے Face book پر اپنا گزشتہ آرٹیکل مختلف گروپس میں پوسٹ کرنے کیلئے سامنے بِٹھایا ہوا تھا۔ ساتھ ساتھ اُس کی کہانی بھی سن رہا تھا۔ لکھتے وقت کبھی خیال کی روانی رُکتی ہے تو میں کوئی بہت ہی Irrelevant بات یا کام کرنے لگتا ہوں۔ ایک پیراگراف کے بعد رکاوٹ سی آئی تو شبنم کے انجکشن لگوانے اور لگانے کے ڈر کا ختم کرنے کا سوچا اور کائونٹر سے شرجیل اور مصباح کو بلوالیا۔ پہلے تو اُن دونوں بچوں سے انجکشن لگانے کا طریقہ پوچھا۔ شرجیل کو ڈھائی ماہ اور مصباح کو ڈیڑھ ماہ ہوچکا تھا۔ پھر تینوں بچوں کو خود Demonstrate کرکے بتایا کہ بازو کے گوشت میں انجکشن کیسے لگاتے ہیں۔
پھر شرجیل اور مصباح سے اُن کی کہانی پوچھنے لگا کہ تم لوگوں کی زِندگی میں کبھی کوئی عام ڈگر سے ہٹ کر کچھ ہوا ہو تو وہ بتائیں۔ مصباح نے تو کہا کہ کچھ بھی نہیں ہے ایسا خاص۔ زندگی میں کبھی کچھ ایسا ہوا نہیں کہ اُس کی کہانی بن سکے۔ شرجیل نے البتہ بتایا کہ گزشتہ سال نورانی پر جِس روز بم دھماکہ ہوا تھا، وہ وہیں مزار پر تھا۔ مغرب کے وقت۔ اُس کے آگے عورتوں کا ہجوم تھا اور دھمال شروع ہی ہوا تھا۔ وہ بھی شوق میں آگے بڑھا دھمال دیکھنے کیلئے اور اُس لمحے زوردار دھماکہ ہوگیا۔ عورتوں کے رش کی وجہ سے اُس کی جان بچ گئی۔ چھوٹے موٹے زخم آئے، جو وقت کے ساتھ مندمل ہوگئے۔ جو مرد، عورتیں، بچے آگے تھے، وہ دستِ قضا کی نذر ہوگئے۔ اور اُن کی کہانیاں اُن کی موت کے ساتھ ختم ہوگئیں۔
ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہماری کہانی ہمارے مرنے کے ساتھ ہی ہمارے ساتھ رُخصت ہو جاتی ہے۔ کچھ باتیں، کچھ یادیں، کچھ لوگوں کے دِلوں میں رہ جاتی ہیں اور وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ وہ بھی یادداشت سے محو ہوجاتی ہیں۔
خود سوچئے اِس سانحے کو اتنا زیادہ عرصہ بھی نہیں بیتا، لیکن آج ہمیں اِس کی بابت کچھ یاد نہیں ہو گا۔ مجھے خود اُس وقت تھوڑا بہت یاد آنا شروع ہوا جب شرجیل نے اس المناک واقعے کا آنکھوں دیکھا حال بتانا شروع کیا، اِس بات کو پڑھنے سے پہلے آپ بھی اِس واقعے کو فراموش کر چکے ہوں گے۔
ذرا سوچئے۔ گزشتہ 17 برسوں میں 17 سو چھوٹے بڑے بم دھماکے ہوئے ہوں گے۔ ہمیں کتنے یاد ہیں۔ شاید ایک بھی نہیں۔ لیکن جو لوگ اِن دھماکوں کے وقت جائے وقوع پر موجود تھے اور بچ گئے۔ اُن کو اپنی زندگی کی کہانی کا وہ وقت وہ منظر مرتے دم تک نہیں بھول پائے گا اور یا پھر اِن دھماکوں میں جاں بحق ہوجانے والوں کے عزیز رشتہ داروں کے دِل ودماغ میں ہمیشہ کیلئے یاد رہ گئی ہو گی۔ ہم اور آپ جیسے دیگر تمام لوگ جو قدرت کی مہربانی سے ایسے ہولناک اور المناک سانحات سے دور رہے، ان واقعات اور اِن میں مرجانے والوں کی خبریں دیکھ کر اور پڑھ کر چند دِنوں میں سب کچھ بھولتے رہے۔ بُھلاتے رہے۔ کیونکہ اِن واقعات اور اِن میں مرجانے والے لوگوں سے ہمارا کوئی باقاعدہ و باضابطہ رشتہ یا تعلق نہیں تھا۔
ہم سب کی زندگی کی کہانی کا یہی بنیادی نکتہ ہے۔ ہمیں وہی شخص، وہی بات، وہی کام، وہی جگہ، وہی واقعہ یاد رہتا ہے، جِس کا ہم سے کسی نہ کسی شکل میں کوئی تعلق یا رشتہ ہوتا ہے۔ باقی سب لوگ، کام، باتیں، چیزیں، جگہیں، واقعے سب کے سب Extra ہوتے ہیں۔ Fillers ہوتے ہیں۔ لمحاتی اور ضروریاتی ہوتے ہیں۔
نہ ہماری یادداشت میں اتنا دم خم ہوتا ہے کہ ہم سب کچھ یاد رکھ سکیں۔ نہ قدرت اِس کی اجازت دیتی ہے۔ نہ ہماری نفسیات اتنا بوجھ اٹھا سکتی ہے۔ ہم میں سے جو لوگ غیر ضروری اور لمحاتی باتوں اور تفصیلات میں اُلجھے رہتے ہیں اور اپنے وقت اور اپنی توانائی کو روٹین اور روایتوں میں استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اُن کی زندگی کی کہانی اوّل تا آخر یا تو بلیک اینڈ وائٹ رہتی ہے اور یا Grey Shades میں اختتام پذیر ہوجاتی ہے۔ کچھ بھی قابل ذکر نہیں ہوتا۔ اِس صورت ہم اپنی زندگی کی کہانی میں بھی کوئی Extra Ordinary Role نہیں ادا کر پاتے اور ہماری اپنی کہانی میں بھی مرکزی کردار دوسرے لوگ ادا کرتے رہتے ہیں اور آخِر کار کہانی ختم ہوجاتی ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ کم از کم اپنی زندگی کی کہانی میں کوئی نمایاں کِردار ادا کریں اور Extras کی فہرست میں نہ رہیں تو ہم لامحالہ اپنے اندر کوئی ایسی خوبی، ایسی صلاحیت develop کرنی ہوتی ہے جو ذرا مختلف ہو۔ کچھ Extra ordinary ہو اور پھر اُس خوبی اُس صلاحیت کو مستقل مشق سے جِلادینی ہوتی ہے۔ پروان چڑھانا ہوتا ہے۔اُس کی آبیاری کا مستقل انتظام کرنا پڑتا ہے۔ پھر کہیں جاکر ہم اپنی کہانی میں کچھ ایسے رنگ بھر سکتے ہیں، جو دِل اور دماغ کو تراوٹ بخشتے ہوں۔
خدا تعالیٰ نے ہم سب کو طرح طرح کی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے اندر چھپی اِن صلاحیتوں کو نہ Asess کرپاتے ہیں نہ Acess کرپاتے ہیں۔ ہمیں اِس کام کی نہ کوئی باضابطہ تعلیم ملتی ہے۔ نہ کسی اسکول، کالج، یونیورسٹی، مدرسے میں اِس حوالے سے کسی تربیت کا نظام ہے۔ نہ والدین اِس حوالے سے اپنے بچوں کو تیار کرتے ہیں۔ نہ ہی اساتذہ کو اتنی فرصت اور مہارت حاصل ہے کہ وہ طالب علموں کو اپنی اپنی شخصیت میں پوشیدہ جوہر باہر نکالنے اور سنوارنے میں اُن کی رہنمائی کرسکیں۔
روٹین کی تعلیم، روٹین کے کام، روٹین کی ڈگریاں اور پھر روٹین کی نوکریاں اور روٹین کی زندگیاں اور نتیجتاً روٹین کی کہانیاں۔ ایسے میں پھر کچھ نیا کیسے جنم لے سکتا ہے۔ ایسے میں پھر کیسے کوئی تبدیلی آسکتی ہے۔ دادا سے لیکر پوتے اور پڑپوتے تک نسل در نسل رسموں، رواجوں اور روایتوں کا سلسلہ روا رہتا ہے۔ دریا بھی ایک ہی بہائو پر بہتا رہے تو گدلا ہوتا جاتا ہے۔ اِس امر کی اشد ضرورت ہے کہ Economical Growth اور Social Reforms کے ساتھ ساتھ Scientific Research اور Personality Grooming کا اہتمام بھی ہو۔ تاکہ میں اور آپ اور ہم سب اپنی اپنی کہانی کو بامعنی اور لاثانی بناسیکں۔ ورنہ زندگی تو کچھ کئے بِنا بھی گزرجاتی ہے، گزر ہی رہی ہے اور گزر ہی جائے گی۔ ہماری کہانی یونہی ختم ہو جائے گی۔

Comments (0)
Add Comment