کاغذ اور قلم سے میرا رشتہ بہت پرانا اور مضبوط ہے۔ ابتدائی دور سے لے کر تادم تحریر میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ لکھنا ایک نشہ ہے، اس میں ذرا سا بھی وقفہ آجائے تو قلب و روح بے چین ہو جاتی ہے۔ قلم دل کی بھڑاس نکالنے میں وہی کردار ادا کرتا ہے، جو پریشر ککر کے سر پر رکھا ہوا ویٹ… جب پانی نقطۂ کھولائو سے زچ ہو کر بھاپ بننے لگتا ہے تو ویٹ ہٹا کر ابال کو باہر نکالا جاتا ہے۔ اسی طرح جب ضبط کے بند ٹوٹ جاتے ہیں تو میر تقی میر کہہ اٹھتے ہیں کہ: نہیں تاب لاتا دل زار اب… بہت ہم نے صبر و تحمل کیا۔ پھر ان کی آواز کا آہنگ یوں بلند ہوتا ہے کہ: جو اس زور سے میر روتا رہے گا تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا۔ ان کی گریہ و زاری اپنے نقطۂ عروج کو چھو لیتی ہے جب وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مرے دل نے وہ نالہ پیدا کیا ہے جرس کے بھی جو ہوش کھوتا رہے گا۔ آخر میں وہ اتمام حجت کے طور پر کہہ جاتے ہیں کہ میں وہ رونے والا، جہاں سے چلا ہوں جسے ابر ہر سال روتا رہے گا اور بس اے میر مژگاں سے پونچھ آنسوئوں کو تو کب تک یہ موتی پروتا رہے گا۔ میں بھی ناخدائے سخن میر تقی میر کا پیروکار ہوں اور دل کے ٹوٹ جانے سے جو صدائے غم انگیز ابھرتی ہے، اسے الفاظ کے پیرائے میں ’’امت‘‘ کے ذریعے ہر دردمند اور دلسوز مرد و زن تک پہنچاتا ہوں۔ مشاہدات و تاثرات کے ذریعے عوامی مسائل ہوں یا پھر انسانی رویوں کی نیش زنی ہو، میرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ میرا ذاتی غم ہلکا ہو جائے اور سماج میں بکھری ہوئی جذبات و احساسات کی کرچیاں سمیٹ کر اپنا فرض پورا کر لوں… میں سیاسی چیستان میں خود کو اس لیے نہیں الجھاتا کہ ہمارے پیارے وطن کی سیاست خارزار میدان ہے، اس پر تبصرہ کرنا اپنے قلم کو ہی زخمی کرنا ہے، پس میں دل کے دریدہ دامن کو واردات قلبی اور شب و روز درپیش مسائل تک محدود رکھتا ہوں۔ میری خواہش ہوتی ہے کہ اگر میرے تجربے سے قارئین فائدہ اٹھا لیں اور وہ غلطی نہ کریں، جو میں کر چکا ہوں، تو میری محنت وصول ہو جائے گی اور کئی افراد کا بھلا ہو جائے گا۔ میں نے جن لوگوں کے ساتھ معاملات زندگی نمٹائے، ان میں چند ایک کو چھوڑ کر واضح اکثریت اعلیٰ ظرف، پرخلوص اور محبت کرنے والے افراد کی ہے، صرف دو تین ایسے کم ظرف، تنگ نظر اور بد زبان افراد سے پالا پڑا، جن کی وجہ سے زندگی میں بھونچال آگیا اور خود کو سنبھالنا مشکل ہو گیا… اگر حق تعالیٰ کا کرم اور چند خصوصی نیک لوگوں کا ساتھ نہ ملتا تو میں اور میری فیملی قصۂ پارینہ بن چکی ہوتی… انسان کی زندگی میں اگر اعلیٰ ظرف اور سچے لوگ ساتھ ہوں تو اس کے ماہ و سال اور شب و روز سکھ اور اطمینان سے گزر جاتے ہیں اور اگر خدا نخواستہ اس کا پالا کسی کم ظرف، جھوٹے، بددیانت اور منافق شخص سے پڑ جائے تو انسان حالات کے جبر اور پریشانی کے ایک ایسے گرداب میں پھنس جاتا ہے کہ جہاں تدبیریں ناکام ہو جاتی ہیں اور صرف خدا پاک ہی کی عالی شان ذات اسے مصائب اور بے چینی کے بھنور سے نکال سکتی ہے۔ ہمیں حددرجہ احتیاط برتنی چاہئے کہ ہم کم ظرف شخص سے بچیں، جیسے ہی ہمیں کسی کم ظرف اور نیچ ذہنیت کے شخص کی اصلیت پتہ چلے، ہم پر لازم ہے کہ اس سے کنارہ کشی اختیار کر لیں۔ فساد اور نفاق سے دور رہنے ہی میں عافیت اور سلامتی ہے۔ اس کالم میں، میں کوشش کروں گا کہ کم ظرف شخص کی چیدہ چیدہ رذیلہ نشانیاں بتائوں، تاکہ آپ اس کی چاپلوسی، نفاق بھری انکساری اور چرب زبانی کے زہریلے لیس دار مادے میں چپکنے سے پہلے ہی خود کو اس سے دور کر لیں اور اب تک جو نقصان آپ اس کے مکروہ اعمال و افعال سے اٹھا چکے ہیں، اس کے ازالے کے لیے خدا پاک کی عدالت میں ایک درخواست ڈال دیں اور خدا کی بے آواز لاٹھی کے کم ظرفوں پر برسنے کا انتظار کریں… کم ظرف مرد ہو یا عورت، اس کی سب سے نمایاں صفت یہ ہے کہ وہ غیر معمولی طور پر عاجزی، خوش اخلاقی اور تعاون کا پیکر بن کر ’’مطلب براری‘‘ کے لیے آپ کے قدموں میں بچھتی جاتی ہے۔ مصنوعی انکساری کا بھانڈہ کچھ عرصے کے بعد پھوٹتا ہے، اس وقت تک کافی نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔ کوشش یہ کریں تصنع، بناوٹ اور ریاکاری پر مبنی خوش اخلاقی کے پردے کے پیچھے نفاق کا کُب تلاش کر لیں، بصورت دیگر ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ کم ظرف انسان کی دوسری نشانی یہ ہے کہ وہ دل کھول کر جھوٹ بولتا ہے، اس کی کذب بیانی سے اس کی شخصیت میں خطرناک تضاد پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسا انسان ہر وقت ’’یوٹرن‘‘ لیتا ہے، اس کے ساتھ معاملات نبھانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ کم ظرف شخص پرلے درجے کا بددیانت، عہد شکن اور طوطا چشم ہوا کرتا ہے۔ وہ ہر شخص کے پاس کسی دوسرے کی عیب جوئی، غیبت اور چغلی کرتا ہے، خود اپنی آنکھ کا شہتیر دیکھنے سے قاصر ہے اور دوسروں کی آنکھ کا تنکا تاڑ جانے پر قادر ہے۔ کم ظرف انسان کی ایک واضح نشانی یہ ہے کہ وہ ہر وقت احسان جتانے کے لیے زبان کا راتب کھاتا ہے۔ محفل ہو یا تنہائی، اسے یہ مرض لاحق ہے کہ اگر کسی پر کوئی احسان کر دیا تو اس کا ڈھول اس وقت تک پیٹتا رہے، جب تک یا تو ڈھول نہ پھٹ جائے یا دوسروں کے کان بہرے نہ ہو جائیں۔ کم ظرف انسان ذہنی اور روحانی ’’انقباض‘‘ کا مریض ہوا کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا خوف ناک اور لاعلاج شیطانی مرض ہے، جو انسان کی شخصیت کو ابلیسی رنگ میں ڈھال دیتا ہے۔ اس بیماری کی کھلی نشانی یہ ہے کہ کم ظرف شخص اپنی کامیابی، ترقی، فلاح اور خوش حالی کو اپنی کوشش، جدوجہد اور صلاحیتوں کا مرہون منت گردانتا ہے۔ یہی سوچ شیطان کی تھی۔ ایسا انسان رب کا فضل تلاش نہیں کرتا، بلکہ طاغوتی راستوں سے کامیابی پاکر غرور، تکبر اور نخوت کے کیچڑ میں لت پت ہو جاتا ہے۔ ایسا شخص حسد، کینہ، بغض و عناد اور دشنام طرازی کا دائمی مریض ہوا کرتا ہے۔ یہ تمام رذائل اخلاق اس کی شکل پر پھٹکار برساتے ہیں اور وہ خدا کی لعنت کا مستحق ہو جاتا ہے۔ قارئین! میں آپ کی توجہ معاشرے میں پھیلے ہوئے انسان نما سانپوں، بچھوئوں اور کنکجھوروں کی طرف اس لیے دلاتا رہتا ہوں کہ میں نے اس نوع کے لوگوں کے ہاتھوں شدید سماجی زخم اٹھائے ہیں۔ میں آپ کو پیشگی آگاہ کر دیتا ہوں کہ بڑا نقصان اٹھانے سے پہلے ایسے کم ظرفوں کو مشورے اور استخارے کی چھلنی میں چھان لیں۔ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل بزرگوں کی رائے ضرور لیں۔ میری دعا ہے کہ حق تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو کم ظرف، لالچی اور حریص لوگوں سے بچائے۔ آمین۔