اوجھڑیوں سے بھی خراج؟

ہر سال وطن عزیز میں لاکھوں فرزندانِ توحید سنت ابراہیمیؑ کی روایت کا اعادہ کرکے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں، اب اس سلسلے میں معاملات بڑے پیچیدہ اور گمبھیر ہو چکے ہیں۔ اول تو جانوروں کی دستیابی کا عمل ہی مشکل ترین بنا دیا گیا ہے، کسی مرحلے پر بھی کسی قسم کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں، قیمتوں کے تعین میں بیوپاری آزاد ہے، عموماً چالیس سے پچاس ہزار میں ملنے والا جانور عید الاضحی پر دگنی سے بھی زائد قیمت پر کھلے عام فروخت ہوتا ہے۔ کراچی کی مویشی منڈیوں میں دوسرے شہروں یا صوبوں سے لائے جانے والے جانوروں کے حوالے سے بیوپاریوںکا کہنا ہے کہ جہاں سے وہ جانور لے کر سفر کا آغاز کرتے ہیں، وہیں سے پولیس اور انتظامیہ کے بھتے اور رشوتوں کا آغاز ہو جاتا ہے، دوسرے صوبوں کی بات تو اور اندرون سندھ سے کراچی لائے جانے والے چھوٹے جانوروں کی قیمتوں میں کئی ہزار جب کہ بڑے جانوروں کی قیمتیں پندرہ سے پچیس ہزار اضافی ہو جاتی ہیں، کیوں کہ سرکاری اہل کار رشوت و بھتہ فی جانور وصول کرتے ہیں اور بیوپاری ان بھتوں کو بھی جانوروں کی قیمتوں میں شامل کر دیتے ہیں، پھر سفر کا کرایہ، سرکاری و غیر سرکاری منڈیوں میں اسٹال لگانے کے اخراجات، جانوروں کا چارا، پانی اور اپنی مزدوریاں بھی وہ جانوروں کی قیمتوں میں ضم کردیتے ہیں، یوں چالیس پچاس ہزار کا جانور لاکھ سے اوپر جا پہنچتا ہے۔ منڈی سے خریداری کے بعد صارفین سے ایک بار پھر جانور اس کے گھر کی دہلیز پر پہنچنے تک بھی قدم قدم پر بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔ چارا بیچنے والے بھی بیچارے صارف پر آرے چلانے سے باز نہیں آتے، اس کے بعد ذبیحہ کا معاملہ درپیش ہوتا ہے، قصابوں نے بھی لوٹ مار میں کسر اٹھا نہیں رکھی، من مانی قیمتوں کا حصول ان کی ترجیح اول بن چکی ہے، بکروں کا ذبیحہ پانچ ہزار سے شروع کرتے ہیں، عام گائے، بیل کے نرخ دس ہزار سے شروع ہوکر پندرہ اٹھارہ یا پھر جانور کی ہیئت سے مشروط ہوتا ہے، جانور جتنا تگڑا ہو ذبیحہ کے نرخ بھی اتنے ہی تگڑے وصول کئے جاتے ہیں۔ قربانی جیسے مقدس عمل میں من مانیوں اور رشوتوں کے اس سرکل نے عوام کو بدظن کر دیا ہے۔ موجودہ صورت حال کچھ یوں ہوگئی ہے کہ اب تنہا جانور کی قربانی تو درکنار اجتماعی قربانی میں حصہ لینا بھی سفید پوش طبقے کے لئے مشکل ترہوتا جا رہا ہے اور اس دینی فریضے کی ادائیگی میں رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ حکومتیں اور ان کی انتظامی مشینری اگر ان معاملات میں متحرک ہوں اور شفافیت لائیں تو سدھار کی امید ہے، لیکن اگر وہی سنجیدہ نہ ہوں تو پھرحافظ جی ٹائپ لوگوں کے تحفظات برقرار رہیں گے۔
سنت ابراہیمیؑ کی ادائیگی کے بعد سب سے بڑا مسئلہ جانوروں کی آلائشوں کو ٹھکانے لگانے اور صفائی ستھرائی کا ہوتا ہے، اس بار ہوا یوں کہ جس ادارے (سالڈ ویسٹ مینجمنٹ) کی یہ ذمہ داری تھی، وہ اس کام کو انجام دینے میں ناکام نظر آیا، اس کی وجہ پارٹی بازی ہے، کیوں کہ متعلقہ ادارہ حکومت سندھ کے ماتحت ہے اور بلدیہ کراچی متحدہ کے پاس ہے، پہلے دونوں اتحادی تھے تو مل بانٹ کر خاموشی سے کھالیا کرتے تھے، مگر اب صورت حال مختلف ہے، دونوں جماعتیں سوتنوں کی طرح گزارہ کر رہی ہیں، ایک دوسرے کو رسوا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں، کالے کرتوت ڈھونڈ ڈھونڈ کر منظر عام پر لانے کی تگ و دو نظر آتی ہے۔ اگرچہ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ میں شامل کمپنیاں چینی ہیں، مگر ان کے کاموں میں بھی پیٹ بھر کر کڑواہٹ موجود ہے، لین دین کے معاملات جہاں بھی خراب ہوں، کارکردگی ضرور متاثر ہوتی ہے۔ کمپنیاں چینی ہوں یا جاپانی، جب کام اچھے طریقے سے کریں گی تب ہی تو نطام درست ہوگا۔ افسوس تو یہی ہے کہ ہمارا پورا نظام ہی کرپٹ لوگوں کی دسترس میں ہے، جسے درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
وفاقی سطح پر تو تبدیلی کے اشارے ہیں، کچھ معاملات تبدیلی کے زمرے میں سامنے بھی آئے ہیں، لیکن سندھ میں ایک بار پھر وہی پارٹی برسر اقتدار آئی ہے، جو گزشتہ 10 برس سے یہاں کام کر رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کام بننے کے بجائے بگڑتے ہی جا رہے ہیں، سدھر کے نہیں دے رہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ اس بار سندھ حکومت میں ایک دو کے علاوہ نئے چہروں کو سامنے لایا گیا ہے،
جو پارٹی چیئرمین بلاول کے مشن کو کامیاب بنائیں گے، مگر سمجھ سے بالاتر بات یہ ہے کہ بلاول کا مشن ہے کیا؟ وہی جو سعید غنی سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سے مل کر کر رہے ہیں؟ یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ وزیر بلدیات سعید غنی کون سا نیا چہرہ ہیں، ان پر تو ماضی میں بھی تضاد بیانی سمیت اور بہت سے چارجز ہیں، ان کی کہانی میراث تک جاتی ہے، انہیں سیاسی میدان میں میراث کے تحت ہی تولایا گیا ہے۔ حافظ جی ان کے والد کو بھی جانتے ہیں، جو ٹریڈ یونین کے اہم آدمی تھے اور پیپلز پارٹی ان کی پشت پناہ تھی۔ ٹریڈ یونینز کے اور بھی بہت سے لوگ ہیں، جو مزدوروں کے حقوق کی آڑ میں سیاسی اور برسر اقتدار پارٹیوں کے مقاصد کے لیے کام کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے خاندان کے افراد کو بیک وقت حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں میں گھسا کر رکھتے ہیں، تاکہ جو بھی برسر اقتدار آئے، اس سے خراج وصول کیا جا سکے۔ خیر بات نکلی تھی جانوروں کی آلائشوں کے حوالے سے، مگر ضمناً سیاسی آلائشوں تک دراز ہو گئی، جس کا محل وقوع وسیع ہے اور یہاں اس کی گنجائش قطعی نہیں، نہ ہی یہ آج کا موضوع ہے، لہٰذا پلٹتے ہیں اصل موضوع کی جانب۔اس عید قرباں پر کراچی میں موجود جانوروں کی منڈیوں سے مسلسل یہ خبریں موصول ہوتی رہیں کہ منڈیاں جانوروں سے اجڑی ہوئی ہیں اور جس تعداد میں جانور بیرون شہر اور صوبوں سے لائے جاتے ہیں، وہ نہیں لائے جاسکے۔ اس کی کئی وجوہ تھیں۔ ایک تو یہ کہ عید سے قبل الیکشن کی گہما گہمی تھی، دوسرے بیشتر بیوپاریوں نے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے بھتہ خوروں کے سبب مقامی سطح پر ہی خرید و فروخت کو ترجیح دی۔ عید سے ایک روز قبل تک خبریں گونجتی رہیں کہ کراچی میں سہراب گوٹھ پر قائم شہرکی سب سے بڑی مویشی منڈی میں دو ڈھائی لاکھ جانور ہی لائے جاسکے۔ عید سے ایک روز قبل منڈی اجڑ چکی تھی، وہاں جانور ہی برائے نام رہ گئے تھے، جس کی وجہ سے ان کے نرخ آسمان کو چھو رہے تھے۔ کراچی کی مقامی منڈیوں اور گلی محلوں میں فروخت ہونے والے جانوروں کی تعداد بھی اگر اتنی ہی لگا لی جائے تو یہ تعداد ہر گز چار سوا چار لاکھ سے زائد نہیں بنتی، مگر جب سرکاری سطح پر آلائشیں اٹھانے کا وقت آیا تو متعلقہ ادارے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور بلدیہ کراچی کے درمیان آلائشیں اٹھانے پر مکالمے بازی شروع ہو گئی۔ میئر صاحب نے صاف کہہ دیا کہ آلائشیں اٹھانا قانونی طور پر سندھ حکومت کے متعلقہ ادارے کی ذمہ داری ہے۔ ان کی بات درست تھی، جس پر سندھ حکومت حرکت میں آئی اور نئے وزیر بلدیات کے روپ میں پیپلز پارٹی کے پرانے پاپی سعید غنی کا آلائشیں اٹھانے کے حوالے سے یہ متضاد بیان سامنے آیا کہ ان کے محکمے نے کراچی کے مختلف علاقوں سے 9 لاکھ 80 ہزار آلائشیں اٹھا کر ٹھکانے لگائیں۔ بندئہ خدا کراچی میں کم و بیش چار لاکھ جانوروں کی قربانی پر 10 لاکھ آلائشیں کہاں سے آگئیں؟ کیا ایک جانور دو دو اوجھڑیاں پیٹ میں لیے پھر رہا تھا؟ آلائشوں کے حوالے سے مزید حیرت انگیز خبریں سامنے آئی ہیں۔ مثلاً چیئرمین بلدیہ شرقی کا بیان ہے کہ انہوں نے سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے زیر انتظام آلائشیں اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کے کام کی نگرانی کی۔ ان کے مطابق ان کے ضلع سے ساڑھے چار لاکھ کے قریب آلائشیں اٹھا کر ٹھکانے لگائی گئیں۔ ضلع وسطی کے چیئرمین ریحان ہاشمی نے جمعہ کی شام ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کے روبرو بتایا کہ عید الاضحی کے تین دنوں میں بلدیہ وسطی نے 4 لاکھ 47 ہزار 930 الآئشوں کو ٹھکانے لگایا۔ ڈسٹرکٹ چیئرمین جن کا تعلق متحدہ سے ہے، انہوں نے شکوہ کیا کہ بلدیہ وسطی کے پاس آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے وسائل، افرادی قوت اور مشینری کا فقدان تھا، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے نجی شعبے سے روزانہ اجرت کی بنیاد پر افرادی قوت اور مشینری حاصل کی۔ انہوں نے 1800 مزدور، 550 سوزوکیاں، 80 ڈمپرز،22 لوڈرز اور 50 ایکس کیویٹرز حاصل کر کے قربانی کے جانوروں کی آلائشوں کو مختلف مقامات پر دفن کیا۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ ضلع وسطی کے چیئرمین ریحان ہاشمی متحدہ کے کلکیولیٹر ہیں۔ ضلع جنوبی اور شمالی کی بلدیات سے کوئی نمایاں اعداد و شمار سامنے نہیں آسکے، تاہم وزیر بلدیات نے اپنے اعداد و شمار میں ضلع جنوبی کا بھی ذکر کیا ہے۔ ادھر کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن نے بھی1500 ٹن آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کی خبر جاری کی ہے۔ اگر ایک اوجھڑی کا وزن ڈیڑھ سے دو من بھی لگایا جائے تو وہاں بھی کم و بیش 25 سے 30 ہزار جانوروں کی آلائشیں بنتی ہیں۔ اب یہ بات بھی حافظ جی کی سمجھ سے بالاہی ہے کہ آلائشوں کو گننے کے بجائے ان کا وزن کیوں بتایا جا رہا ہے؟
وزیر بلدیات کے مطابق ان کے ادارے نے عید کے تین دنوں میں 40 ہزار ٹن کے لگ بھگ آلائشیں فیئرفل سائٹ پر دفن کیں، جب کہ شہر کے مختلف مقامات پر بڑی تعداد میں پڑی آلائشیں اب بھی سڑ رہی ہیں اور کراچی میں ہونے والی ہلکی بارش نے اس گندگی میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور اب لوگ شاہراہوں سے گزرتے ہوئے دولہوں کی طرح ناک پر رومال رکھ رکھ کر گزرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس بدبو کے خاتمے اور اس سے پھوٹ پڑنے والی ممکنہ بیماریوںسے بچاؤ کے لئے جو اسپرے ہونا چاہئے تاحال کہیں ہوتا نظر نہیں آیا۔ بیشتر جگہوں پر بعض مفاد پرست اور ڈیرے والے اوجھڑیاں پھاڑ کر ان کے اندر موجود بدگوشت کی تہہ لے اڑے، جسے وہ عنقریب شہر کی فٹ پاتھوں پر ابال کر فروخت کریں گے۔ ان اوجھڑیوں کی صفائی یہ لوگ لیاری ندی کے گندے پانی میں کرتے دیکھے گئے۔ جانوروں کے معدوںکا یہ ملغوبہ آئندہ دنوں میں فٹ پاتھوں پر کھانا کھانے والے غرباء میں مزید بیماریوں کا سبب بنے گا، جس پر محکمہ صحت کو ایکشن لینا چاہیے تھا، مگر متعلقہ معاملے پر سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے باوجود محکمہ کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔
آلائشوں کے معاملے میں جو ہوا سو ہوا، ثبوت منوں مٹی تلے دب چکا، کچھ اب بھی سڑکوں پر بیماریاں پھیلانے کا سبب بنا ہوا ہے، مگر اب رات گئی بات گئی کے مصداق کسی کی توجہ اس جانب نہیں جا رہی۔ وزیر بلدیات اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ والے بتائیں کیا ان کا اتنا ہی کام تھا؟ اب سب کو اس دوسرے مر حلے کی فکر ہے، جس میں بیان کردہ اعداد و شمار اور کاموں کے محنتانے وصول کئے جائیں گے، جن میں بڑے گھپلوں کی نشاندہی یہ لوگ از خود ہی کر چکے ہیں۔ الائشوں کے مدفن پر جو اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں، انہیں خود چیئرمین ضلع وسطی کی پارٹی متحدہ اور جماعت اسلامی بھی مسترد کر چکی ہیں۔ یہ دونوں ہی پارٹیاں کراچی میں قربانیوں کے حوالے سے زیادہ باخبر ہیں، مگر بلاول کے لاڈلے وزیر بلدیات اب بھی اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ موصوف بلدیات کے بادشاہ بنائے گئے ہیں، سو جو وہ چاہیں گے، آئندہ دنوں میں کر گزریں گے۔
گستاخی معاف! حافظ جی اب اور کیا لکھیں سوائے اس کے کہ ہم ایک ایسی قوم ہیں، جو قربانی جیسے مقدس مذہبی فریضے کو بھی لوٹ مار کا ذریعہ بنانے سے نہیں چوکتے۔ ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے کہ جانوروں کی خرید و فروخت تو دوسری بات، ہمارے ذمہ دار اداروں کے برق پوش تو ان جانوروں کی اوجھڑیوں سے بھی خراج وصول کرلیتے ہیں۔ کاش! کوئی عقل و شعور سے بھی کام لے کہ انہوں نے کس عظیم مقصد کو کس گھٹیا کام کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ (وما توفیقی الا باللہ)

Comments (0)
Add Comment