میں اصفہان کے مختلف ایسے مقامات کی سیر کے بعد جو میرے وقت اور جیب کی حدود میں آسکتے تھے، سیدھا پارک آئینہ خانے کے علاقے میں پہنچا اور پوچھتا پاچھتا ہوٹل اسپادانہ پہنچ ہی گیا اور وہاں جاکر جناب باقر زادہ سے ملاقات کی۔ باقر زادہ صاحب اصفہان اسٹیل مل کے افسر تعلقات عامہ تھے اور اس وقت ہوٹل اسپادانہ میں اپنی مل کی ایک نیم سرکاری تقریب میں تشریف لائے ہوئے تھے بلکہ اس تقریب کے روح رواں وہی تھے۔ اور وہ تقریب تھی کسی بڑے ٹورنامنٹ کے فائنل میچ میں اصفہان اسٹیل مل کی فٹ بال (یا ہاکی) ٹیم کی فتح کی تقریب۔
باقر زادہ مجھ سے بڑے خلوص اور اپنائیت کے ساتھ ملے۔ حالانکہ وہ اپنے ادارے کے ایک بڑے فنکشن کو کنڈکٹ کر رہے تھے، اس کے باوجود انہوں نے مجھے خاصا وقت دیا۔ میری باتوں کو بڑی توجہ سے سنا اور میری مقدور بھر مدد کرنے کی یقین دہانی کی۔ ابتدائی گفتگو کے بعد سب سے زیادہ چونکا دینے والی بات جو انہوں نے مجھے بتائی وہ یہ تھی کہ ’’جناب، آج صبح آپ نے ہمارے ہیڈ کوارٹر میں بذریعہ ٹیکسی آکر تو ایک طوفان برپا کر دیا اور آپ نے جو کچھ کیا یا آپ سے جو کچھ ہوگیا اس کی پاداش میں ہمارا چیف سیکورٹی افسر تو ملازمت سے برطرف ہونے لگا تھا۔ وہ تو جب تمام لوگوں نے متفقہ طور پر یہ بیان دیا کہ وہ پاکستانی (یعنی راقم الحروف) سو فیصد ایک ذمہ دار ایرانی لگتا تھا، اس لئے روڈ بیریئر کے اسٹاف سے چوک ہو گئی اور انہوں نے اسے اندر آنے دیا۔ اس پر اس کی جان بچی ہے‘‘۔
مجھے یہ معلوم کرکے بڑا تعجب ہوا اور خوشی بھی کہ ایران والے بھی مجھے ایرانی سمجھتے ہیں۔ مگر میں نے باقر زادہ کو یہ نہ بتایا کہ جناب یہ میری شکل کا کمال تھا اور نہ ہی غریب روڈ بیریئر والوں کی کوئی کوتاہی۔ بلکہ یہ کمال تو میرے تھوڑی دیر کے ساتھی اور کرم فرما اس ایرانی الیکٹریکل انجینئر کا تھا، جو آج کل کہیں اپنی جبری ملٹری ٹریننگ پوری کر رہا ہے۔ اگر میرا وہ محسن اتوبس ترمینال کے اسٹاف سے بطور ’’آرمی آفیسر‘‘ یہ نہ کہتا کہ یہ ہمارے مہمان ہیں، انہیں اسٹیل مل پہنچانے کا بندوبست کردو تو وہ میرے لئے کبھی اسٹیل مل پہنچانے کا بندوبست نہ کرتے۔ بلکہ صاف کہہ دیتے کہ جناب وہاں بغیر پیشگی تحریری اجازت کے غیر متعلقہ اشخاص کا داخلہ ممنوع ہے بالخصوص خارجیوں (غیر ملکیوں) کا۔
باقرزادہ نے اپنے فنکشن اور میری وجہ سے پڑی ہوئی بیگار کو اس طرح نبھایا کہ وہ تھوڑی دیر ہوٹل کی لابی میں میرے پاس بیٹھتے اور پھر کچھ دیر کے لئے اپنی سرکاری تقریب میں چلے جاتے۔ اس قسط وار میٹنگ میں انہوں نے میرے ایران کے اب تک مکمل کے گئے ٹرپ کے بارے میں، پاکستان کے نوکنڈی اسٹیل مل پروجیکٹ کے بارے میں اور ایران کے میرے باقی ماندہ ٹرپ کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ بعد ازاں فرمایا ’’کرمان کوکنگ کوئلے اور اس سے بنائے ہوئے کوک (coke) کی کیمیائی ٹیسٹ رپورٹس وغیرہ میں آپ کو ایرانین نیشنل اسٹیل کارپوریشن (NISCO) کے گیسٹ ہاؤس واقع تہران روانہ کردوں گا۔ جب بھی آپ وہاں پہنچیں تو گیسٹ ہاؤس انچارج جناب خاقانی صاحب سے حاصل کرلیں‘‘۔ اس سلسلے میں انہوں نے خاقانی صاحب کا ٹیلی فون نمبر بھی مجھے دے دیا۔ اپنے دفتر کی رسمی ضروریات پوری کرنے کیلئے انہوں نے مجھ سے سادہ کاغذ پر ایک درخواست بھی لکھوالی، جس میں مطلوبہ تکنیکی ڈیٹا دیئے جانے کی استدعا کی گئی تھی۔ جدا ہوتے وقت باقر زادہ نے از راہ شرافت مکرر مجھ سے دریافت کہ کیا میری خدمت سے آپ مطمئن ہیں؟ کیا میں نے آپ کی خدمت کا حق ادا کر دیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ آپ نے اپنا فرض منصبی بڑے احسن طریق پر نبھایا ہے اور اپنے ادارے اور اسٹاف کی ایک اہم مصروفیت سے وقت نکال کر بڑی توجہ اور خلوص کے ساتھ میری مدد کی ہے۔ اس سب کے لئے میں آپ کا ازحد احسان مند ہوں۔
باقر زادہ صاحب سے اس ملاقات کے بعد اصفہان میں میری پلان کردہ تمام مصروفیات بفضل تعالیٰ مکمل ہوگئی تھیں یا ان کے مکمل ہونے کا سامان ہوگیا تھا۔ میں ہوٹل اسپادانہ سے زائندہ رود کے پل کا چکر لگاتے ہوئے واپس اپنے امیر کبیر ہاسٹل اگیا۔
دوسرے روز یعنی تین مارچ 2002ء کو جو شیعہ بھائیوں کی عید غدیر کا دن تھا۔ میں نے بعد دوپہر اصفہان چھوڑنے کا ارادہ کرلیا۔ صبح ناشتے کے بعد اپنا ذاتی روزنامچہ مکمل کیا اور ایسے تمام نکات بھی ضابطہ تحریر میں لایا جو پہلے ریکارڈ ہونے سے رہ گئے تھے۔ مجھے امید ہے کہ یہ نکات یا معلومات دلچسپی کا باعث ہوں گی، اس لئے انہیں یہاں نقل کر رہا ہوں۔
1۔ اس زمانے میں ایران میں، ذمہ دار لوگوں کے مطابق، کساد بازاری اور بے روزگاری کافی بڑھ گئی تھی اور اس کے ساتھ ہی چوری، دھوکہ دہی اور ڈکیتی کی وارداتیں بھی بڑھ گئی تھیں۔
2۔ جیسے جیسے ایران کی مشرقی سرحد (پاکستان کے ساتھ) سے مغربی سرحد کی طرف جاتے ہیں تو مہنگائی بڑھتی جاتی ہے۔ یعنی چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
3۔ امیر کبیر ہاسٹل کے نوٹس بورڈ پر مندرجہ ذیل ایک بڑے اور نمایاں نوٹس کے اندراجات بتا رہے تھے کہ ایران کی امن و امان کی صورت حال پاکستان کی صورتحال سے زیادہ مختلف نہیں تھی۔
(الف) کسی بھی شخص کو خواہ وہ پولیس یونیفارم ہی میں کیوں نہ ہو اور اپنے آپ کو پولیس آفیسر ہی کیوں نہ کہہ رہا ہو، نہ اپنا پاسپورٹ دکھائیں نہ ہی اپنی کرنسی دکھائیں۔ یہ دونوں چیزیں آپ صرف کسی پولیس اسٹیشن پر مجاز افسر کو اس کے کہنے پر ہی دکھائیں۔
(ب) تمام مہمان اپنے کمرے کا تالہ بند کرکے باہر نکلیں، خواہ وہ واش روم تک ہی کیوں نہ جارہے ہوں۔ ایران کے مہمان خانوں اور ہاسٹلوں میں ملحقہ واش روم نہیں ہوتے۔
(ت) تمام مہمان جب بھی اپنے ہاسٹل کے کمرے سے باہر نکلیں تو مناسب کپڑوں میں نکلیں خواہ وہ واش روم تک ہی کیوں نہ جارہے ہوں۔ مردوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ مختصر لباس میں کمرے سے باہر نہ نکلیں اور خواتین کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ بغیر اسکارف یا حجاب کے کمرے سے باہر نہ نکلیں۔
4۔ تمام ایران میں خواتین تنہا بھی سفر کرتی ہیں اور فیملی کے ساتھ بھی۔ ہوٹلوں، مسافر خانوں اور مہمان پذیروں کے کمروں میں اکیلی ٹھہرتی ہیں۔ نیز فی سواری کرائے والی ٹیکسیوں میں بھی وہ مردوں کے ساتھ سفر کرتی ہیں۔ نہ انہیں کوئی گھورتا ہے نہ تنگ کرتا ہے نہ خواتین کے اس طرح سفر کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔
5۔ امیر کبیر ہاسٹل میں کہ جہاں مصنف قیام پذیر تھا دو جوان برقع پوش خواتین دو الگ الگ کمروں میں ٹھہری ہوئی تھیں۔
6۔ خواہ سفر بس کا ہو، ٹیکسی کا یا ریل گاڑی کا، ایرانی لوگ بالعموم خاموشی سے طے کرتے ہیں۔ سفر کے دوران اگر انہیں کچھ کرنے کا شوق ہے تو بیج (تخم) کھانے کا اور بیجوں کے معاملے میں ان کی کوئی خاص پسند نہیں۔ یہ صاحبان ہر قسم کے بیج ہڑپ کرجاتے ہیں خواہ ان میں مغز برائے نام ہی کیوں نہ ہو۔ ایران کی تمام پائے کی بیکریوں میں ان بیجوں سے بھری ہوئی ٹوکریاں رکھی ہوتی ہیں اور ایرانیوں کو دعوت کام و دہن دیتی رہتی ہیں۔
7۔ اصفہان میں ایک مقامی بس سے سفر کرتے ہوئے ایک بس ڈرائیور نے میرا پانچ سو ریال کا نوٹ مسکراتے ہوئے یہ کہہ کر واپس کردیا کہ ’’غیر ملکی مہمان سے کوئی کرایہ نہیں‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭