بڑی عمر میں سفر کرنا چاہئے یا نہیں؟ (پہلا حصہ)

بڑی عمر میں سفر کرنا کوئی اچھی اور آسان بات نہیں ہے۔ مجبوری کی حالت میں کہیں جانا دوسری بات ہے۔ لیکن محض سیرو تفریح کی غرض سے اپنے یا کسی دوسرے ملک میں بھٹکتے رہنا سراسر بے وقوفی ہے۔ کیونکہ جس حساب سے انسان کی عمر بڑھتی ہے، اسی حساب سے اس کی جسمانی اور ذہنی قوت میں بھی کمی آتی ہے۔ سروس کے لئے تاخیر ہو جانے والی کار کی طرح اس کا جسم اور ذہن کئی معاملات میں ’’مسنگ‘‘ کرنے لگتا ہے۔
جوانی کے ایام میں تیس کلو وزنی بیگ بھی ہلکا معلوم ہوتا تھا اور اب تیرہ کلو کا بیگ بھی ایسا بھاری لگتا ہے کہ مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ ضرور اس میں بیس کلو سے زیادہ وزن کا سامان بھرا ہوا ہے اور ایئر پورٹ پر فالتو سامان کے لئے مجھے رقم ادا کرنی پڑے گی۔
ذہن کے ’’مسنگ‘‘ کرنے سے میرا مطلب یہ ہے کہ کوشش کے باوجود کوئی نہ کوئی بات رہ جاتی ہے یا بھول جاتی ہے۔ کوالالمپور سے روانہ ہونے کے وقت امیگریشن کے ڈپارچر والی چٹ میں نے بورڈنگ کارڈ والے کاؤنٹر پر پیش کی تو وہاں موجود انچارج نے اسے واپس کرتے ہوئے ہدایت کی کہ جب میں کسٹم کے بعد امیگریشن کاؤنٹر سے کلیئر ہو جاؤں تو وہاں یہ سلپ پیش کروں تاکہ ثبوت رہے کہ میں اس ملک میں آکر اب واپس جا رہا ہوں۔ لیکن ایئر پورٹ پر موجود دکانوں میں ایک گھنٹے تک چکرانے کے بعد میں نے ایک جگہ بیٹھ کر کافی پی اور اس کے بعد جب میں امیگریشن کے کاؤنٹر پر پہنچا تو وہاں موجود افسر نے مجھ سے ڈپارچر کارڈ طلب کیا۔ میں اسے گھورتا ہوا سوچنے لگا کہ آخر اس کا مطلب کیا ہے۔ میں اپنے خیال کے مطابق تمام سفری دستاویزات وغیرہ کلیئر کرا چکا تھا۔ اب مجھے صرف اپنے پاسپورٹ پر ایگزٹ کی مہر لگوانی ہے۔ بہرحال مجھے جلد ہی یاد آگیا کہ ’’چیک ان‘‘ والے کاؤنٹر پر موجود افسر نے مجھے وہ کارڈ واپس لوٹا دیا تھا۔ پھر میں نے اسے پاسپورٹ کے اندر ’’محفوظ‘‘ کرنے کے بجائے جیکٹ کی کسی جیب میں ڈال دیا تھا۔ بس پھر کیا تھا… میں ایک جیب میں ہاتھ ڈالتا اور اسے ٹٹول کر دوسری میں دیکھنے لگتا۔ پینٹ اور جیکٹ کی تمام جیبوں کی تلاشی لینے کے بعد آخرکار میں نے کارڈ دریافت کر ہی لیا اور دل ہی دل
میں خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ مل گیا۔ دوسری صورت میں پردیس میں خواری اٹھانی پڑتی۔ خاص طور پر ہم پاکستانیوں کو اس معاملے میں بہت محتاط رہنا پڑتا ہے۔ کیونکہ پاکستانیوں کے پاس تمام مطلوبہ کاغذات مکمل ہونے کے باوجود انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
بہرحال میرا مطلب یہ ہے کہ بڑھاپے میں جسم اور ذہن ’’مسنگ‘‘ کرنے لگتا ہے، پھر بعض مسنگ چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جن کی میں نے گزشتہ سطور میں مثال پیش کی ہے کہ معلوم ہونے یا توجہ دلانے پر احساس ہوتا ہے کہ ہم سے غلطی ہوگئی ہے۔ لیکن کئی معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کی نشاندہی نہیں ہوتی اور اس طرح کچھ بے خبری سی رہتی ہے۔ آپ نے کئی ایسے بزرگوں کو دیکھا ہوگا کہ ان کی پتلون کی زپ کھلی ہوگی، قمیض کے بٹن اوپر نیچے ہوں گے، سوئٹر الٹا پہنا ہوگا… وغیرہ وغیرہ۔ یہ بات دیگر ہے کہ کئی بوڑھے، خاص طور پر ہمارے ایشیائی ملکوں کے بزرگ ساٹھ، ستّر سال عبور کرنے کے بعد بھی اپنی جسمانی اور ذہنی کمزوری کا اعتراف کرنے میں ہتک محسوس کرتے ہیں۔ وہ اس عمر میں اپنی بہادری اور جواں مردی کے من گھڑت قصے سنا کر فخر اور تسکین محسوس کرتے ہیں۔ حالانکہ سننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ستّر یا اسّی برس کی عمر میں ’’آتش‘‘ ویسا جوان نہیں رہ سکتا، جو پچاس سے نیچے والی ’’رینج‘‘ میں تھا۔
بہرحال پیرانہ سالی میں بے شک کسی کا دل جوان ہو، لیکن سفر کے لئے ساٹھ، ستّر برس کی عمر کے بعد بھی جہاز تو چلایا جاسکتا ہے، لیکن سلنڈر اور کرینک شافٹ کی کیلیبریشن کون کرے گا؟ کوئی بوڑھا آدمی کار تو چلا سکتا ہے، لیکن ٹائر کے پنکچر ہونے پر آیا اس میں اتنی ہمت ہوگی کہ وہیل کے جام نٹ کھول سکے اور ڈکی میں سے اضافی وہیل نکال کر بدل سکے؟
میں ملاکا سے کوالالمپور لوٹ رہا تھا۔ میرے ملئی دوست نے مجھے بس میں جانے کے بجائے اصرار کیا کہ وہ اپنی کار میں مجھے چھوڑ آئے گا۔ جب ہم چلنے لگے تو انہوں نے اپنے نوجوان بیٹے کو بھی کار میں بیٹھنے کا کہا۔
’’خیریت!‘‘ میں نے مداخلت کی۔ ’’جب آپ چل رہے ہیں تو اسے کیوں زحمت دے رہے ہیں؟‘‘
’’اس لئے کہ اگر راستے میں ٹائر پنکچر ہوگیا تو آپ یا مجھ سے نٹ نہیں کھل سکیں گے اور نہ ہی ہم سے ٹائر اٹھایا جائے گا‘‘۔ انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا۔
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ جناب بوڑھے ہو چکے ہیں۔ اب اس کا اعتراف بھی کرلیجیے۔‘‘
’’ہر گز نہیں‘‘۔ انہوں نے اپنے اسٹائل میں قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا۔ ’’مجھ سے آج بھی کوئی عمر پوچھتا ہے تو میں اس سے کہتا ہوں: ابھی تو میں جوان ہوں… اسّی برس سے کم ہوں۔ میں ہرگز یہ نہیں بتاتا کہ میری عمر 75 برس ہے۔ ’’ماسیح ادا مودا‘‘۔ (ابھی تو میں جوان ہوں…)
کوئی مانے یا نہ مانے ہمارے ایشیائی ملکوں میں ملائیشیا سمیت 75 برس واقعی بڑی عمر ہے۔ جہاں طبعی عمر بمشکل 45 سال ہے، لہٰذا پیرانہ عمری میں ہر قسم کے سفر سے پرہیز کرنا چاہئے۔ میں تو کہتا ہوں کہ حج کا فریضہ بھی جوانی ہی میں ادا کرلینا چاہئے۔ سمجھدار لوگ میری اس رائے سے ضرور اتفاق کریں گے۔ ملائیشیا اور انڈونیشیا کی اطراف کے لوگ عموماً کم عمری ہی میں حج کرتے ہیں۔ بعض لوگ شادی سے قبل یہ فرض ادا کرتے ہیں یا شادی کے بعد فوراً دولہا اور دلہن حج کا پروگرام بناتے ہیں ۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment