اردگان کو چیلنجوں کا سامنا

ترک صدر رجب طیب اردگان نے ترکی کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں لانے کے لیے مثالی کردار ادا کیا۔ 2016ء کی ابتدا سے ترکی اور یورپی ممالک کے درمیان کشیدگی اپنا راستہ ہموار کر رہی تھی۔ رواں سال مارچ میں انقرہ میں ہونے والے بم دھماکے میں 34 افراد کی ہلاکت کے بعد طیب اردگان نے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت دہشت گردوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گی۔ طیب اردگان نے یورپی یونین پر منافقت کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ یورپ ان کی مدد کر رہا ہے، جن کو ترکی دہشت گرد سمجھتا ہے۔ انہوں نے یورپ کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ یورپ سانپ کے ساتھ سو رہا ہے، جو ڈس بھی سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپ ایک ایسے میدان میں رقص کر رہا ہے، جو بارودی سرنگوں سے اٹا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو بم انقرہ میں پھٹ گیا، وہ برسلز میں بھی پھٹ سکتا ہے۔ جب یورپ کے شہروں میں بم پھٹیں گے تو احساس ہوگا کہ بم پھٹنا کیسا ہوتا ہے۔
طیب اردگان نے مشکل سے مشکل ترین حالات میں بھی یورپین ممالک سے برابری کی بنیاد پر معاہدے کئے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی وقت کے ساتھ ترقی کرتا رہا۔ 10 سال پہلے ایک عام ترک شہری کی سالانہ آمدن 3500 ڈالر تھی۔ اب وہ آمدن بڑھ کر 11000 ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ یہ آمدن فرانس کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ ترکی میں اقتصادی خوش حالی کے نتیجے میں لوگوں کی تنخواہوں میں 300 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ ملازم کی بنیادی تنخواہ جو کسی دور میں 340 لیرا تھی۔ اب بڑھ کر 957 لیرا تک پہنچ گئی ہے۔ روزگار تلاش کرنے والے افراد کی تعداد جو کبھی 38 فیصد تھی، اب گر کر 2 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ ترکی کا بجٹ خسارہ جو بڑھ کر 47 ارب تک پہنچ گیا تھا، اس کو ختم کر دیاگیا۔ ورلڈ بینک نے ترکی کو قرض دے رکھا تھا۔ وہ سارا قرض لوٹا دیا گیا۔ آخری قسط 300 ملین ڈالر کی تھی، اس کے برعکس ترکی نے ورلڈ بینک کو 5 ارب ڈالر قرضہ دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ترکی کے خزانے میں 100 ارب رکھے ہیں۔ اس دوران یورپ کے متعدد ممالک قرض کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہاں غربت کی شرح بڑھ رہی ہے۔ 10 سال قبل ترکی کی برآمدات 23 ارب ڈالر تھیں، اب بڑھ کر 153 ارب تک پہنچ گئی ہیں۔ یہ برآمدات دنیا کے
190 ملکوں کو پہنچ رہی ہیں۔ ترکی گاڑیاں پہلے نمبر پر، دوسرے نمبر پر الیکٹرانک سامان ہے۔ اس وقت یورپ میں فروخت ہونے والے الیکٹرانک سامان میں سے ہر تیسرا سامان ترکی کا تیار کردہ ہوتا ہے۔
2023ء وہ سال ہو گا، جس کے بارے میں طیب اردگان نے اعلان کیا ہے کہ ترکی اس سال دنیا کی سب سے پہلی اقتصادی اور سیاسی قوت بن جائے گا۔ طیب اردگان کی حکومت میں ترکی نے تاریخ میں پہلی بار اپنا ٹینک بنایا، پہلا بحری فریگیٹ تیار کیا، پہلا ڈرون طیارہ اور فوجی سیٹلائٹ بھی اسی دور میں بنایا گیا۔ استنبول کا ہوائی اڈہ یورپ کے بڑے ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہے۔ ایک دن میں اس ہوائی اڈے سے 1260 ہوائی جہاز اڑان بھرتے ہیں۔ اس حکومت نے 50 کے لگ بھگ ایئرپورٹ تعمیر کئے ہیں۔ تیز رفتار سڑکیں تعمیر کی ہیں۔ تقریباً 1900 کلومیٹر طویل لمبی نئی سڑکیں بنائی گئی ہیں، جبکہ ملک میں ٹریفک حادثات کی تعداد 50 فیصد کم ہو گئی۔ ترکی کے فضائی راستوں کو دنیا کے بہترین فضائی راستوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ 10 سال کے دوران ترکی کی حکومت نے ملک بھر میں 2 ارب 77 کروڑ درخت لگائے ہیں۔ ترک حکومت نے کچرے کو ری سائیکل کر کے توانائی میں بدلنے کے منصوبوں پر کام شروع کیا ہے۔ اس منصوبے سے ترکی کی ایک تہائی آبادی فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اس وقت ترکی کے98 فیصد شہروں اور دیہاتوں میں بجلی ہے۔ 10 سال میں طیب اردگان حکومت نے 125 یونیورسٹیاں بنائیں۔ 189 اسکول قائم کئے اور 510 اسپتال تعمیر کئے۔ سرکاری اسکولوں میں 169 ہزار نئی کلاسز کا آغاز کیا اور شرط لگا دی کہ کسی بھی کلاس میں 21 بچوں سے زیادہ کو داخلہ نہیں دیا جائے گا۔
یورپ میں آنے والے حالیہ اقتصادی بحران کے فوری بعد یورپ اور امریکا بھر میں یونیورسٹی اور اسکول فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کر دیا گیا۔ اس کے برعکس طیب اردگان نے سرکاری حکم نامہ جاری کیا کہ یونیورسٹی اور اسکول کی تعلیم مفت ہو گی اور تمام تر اخراجات حکومت برداشت کرے گی۔ ترکی میں تعلیم کا بجٹ بڑھا کر دفاع کے بجٹ سے بھی زیادہ کر دیا گیا ہے۔ ایک استاد کو ڈاکٹر کے مساوی تنخواہ دی جاتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی پر تحقیق کے لیے 35000 لیبارٹریاں قائم کی گئی ہیں۔ گزشتہ 10 برسوں کے دوران ترک حکمرانوں نے عوام کی سہولیات کے لیے ایسے اقدامات کئے جس کی بنیاد پر طیب اردگان نے عوام کے دلوں میں جگہ بنائی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں پہلی بار فوجی بغاوت کے سامنے عوام سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے اور فوج کو نہتے عوام کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ سیاسی طور پر طیب اردگان کا بڑا کارنامہ قبرص کے دونوں حصوں کے درمیان امن قائم کرنا اور تشدد پر آمادہ کردوں کو پرسکون کرنا بھی ہے۔ یہ مسائل گزشتہ برسہا برس سے ترکی کا سردرد بنے ہوئے تھے۔
طیب اردگان نے اسرائیل جیسی قوت کو معذرت کرنے پر مجبور کر دیا اور معذرت کرنے کی شرط یہ رکھی کہ عزہ کا محاصرہ ختم کر دے۔ شمعون پیریز کے ساتھ عالمی اقتصادی کانفرنس میں شریک طیب اردگان نے کانفرنس سے صرف اس لیے واک آئوٹ کیا کہ اسرائیل نے معصوم فلسطینیوں پر جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ طیب اردگان وہ واحد سربراہ حکومت ہیں، جنہوں نے برما کے مظلوم مسلمانوں کے پاس جا کر ان سے ملاقات کی اور مسلمانوں کو دلاسا دیا۔ طیب اردگان نے تقریباً 90 سالہ فوجی حکومت کے بعد سرکاری اسکولوں میں قرآن اور حدیث کی تعلیم کی اجازت دی۔ دینی اقدامات کی مدد سے طیب اردگان نے ترکی کو بدل کر دکھایا، جہاں 90 سال تک اتاترک کی دین دشمن پالیسیاں غالب رہیں۔ دین کا نام لینے کی پاداش میں منتخب وزیر اعظم عدنان میندرس کو پھانسی پر چڑھایا گیا۔ اس کے بعد منتخب وزیر اعظم نجم الدین اربکان کو بھی معزولی اور قید کا سامنا کرنا پڑا۔ طیب اردگان نے مطیع الرحمٰن نظامی کو پھانسی دینے پر بنگلہ دیش سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ حکومتی یونیورسٹیوں میں اسکارف پہننے کی اجازت دی۔ جس وقت ایک عرب ملک میں دنیا کی سب سے بڑی کرسمس ٹری بنایا گیا، جس کی مالیت 4 لاکھ ڈالر تھی، اسی وقت اردگان نے دنیا کی سب سے بڑی لائٹینگ کے ذریعے ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ کے الفاظ روشن کئے۔ انہوں نے 7 سال کی عمر کے تقریباً 10,000 بچوں پر مشتمل استنبول کی سڑکوں پر ریلی نکالی۔ اس ریلی میں بچے یہ کہہ رہے تھے کہ ہم اب 7 سال کے ہو گئے ہیں۔ اب ہم نماز پڑھ سکیں گے۔
طیب اردگان نے ترکی کو بحرانوں سے نکال کر ترقی یافتہ ملکوں کے ساتھ لاکر کھڑا کر دیا۔ ایک وقت تھا ترکی کا شمار معاشی اعتبار سے 111 نمبر پر تھا، جو اب 16 ویں نمبر پر ہے۔ اردگان نے ایک دن میں نہیں، بلکہ برسوں رات دن محنت، جدوجہد اور جرأت کا مظاہرہ کرنے کے بعد ترکی کے عوام کے دلوں میں جگہ بنائی۔ لوگوں نے فوجی بغاوت ناکام بنا کر اپنے لیڈر سے محبت اور ملک سے وفاداری کا مظاہرہ کیا، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ترکی اسلام دشمن طاقتوں کی آنکھوں کا کانٹا تھا اور اب فوجی انقلاب کی ناکامی کے بعد ان طاقتوں کے لیے ترکی ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ طیب اردگان کو اب اپنی ہر پالیسی نپی تلی اور انتہائی محتاط طریقے سے بنانی ہو گی۔ کیونکہ جو طاقتیں ترکی کی ترقی سے خوف زدہ ہیں، وہ ترکی کو نقصان پہنچانے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گی۔ کیا طیب اردگان ایک وقت میں داخلی اور خارجی خطرات کا سامنا کر سکتے ہیں؟ اسلام دشمن طاقتیں ترکی کی ترقی کو روکنے کے لیے اب اس پر گہری نظر رکھیں گی۔ وہ طیب اردگان کی کسی بھی سیاسی غلطی کو بنیاد بنا کر ترکی کے خلاف محاذ آرائی کا راستہ ہموار کر سکتی ہیں۔ ان حالات میں طیب اردگان کو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment