’’ایک تھپڑ سوالاکھ کا‘‘

سیلانی اپنی خواب گاہ میں مسہری پر لیٹا سیل فون سے چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا۔ وہ یو ٹیوب پر جانوروں کی نگہداشت کے حوالے سے ویڈیوز دیکھ رہا تھا۔ اس کے سامنے پالتو کتوں کے لئے ڈیزائن کیا گیا ڈائننگ ٹیبل تھا، جس میں کتوں کو ان کی دلچسپی کا کھانا دیا جا رہا تھا۔ ویڈیو میں کتوں کو شیمپو کرنے کے طریقے بھی بتائے جا رہے تھے۔ سیلانی یہ سب دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ جانوروں کے لئے اتنا پیار رکھنے والے اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کے حصے کا پیار کہاں لے جاتے ہیں؟ ان گوروں کو کتوں بلیوں، بطخوں اور اود بلاؤں سے تو پیار ہے، انہیں روز ساتھ بٹھاتے کھلاتے ٹہلاتے نہلاتے ہیں، لیکن ماں باپ، بہن بھائیوں سے مصافحہ کئے ہوئے برسوں بیت جاتے ہیں۔ وہ گوروں کی اپنوں سے اجنبیت اور جانوروں سے محبت کے نرالے انداز دیکھنے کے بعد یوٹیوب سے نکل ہی رہا تھا کہ ایک انڈین نیوز چینل کی اسکرین سامنے آگئی، جس میں پاکستانی پرچم نے سیلانی کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی۔ اس نے کلک کیا، حسب توقع بھارتی نیوز کاسٹر کے منہ سے پاکستان کے لئے پھول جھڑ رہے تھے۔ وہ فرما رہی تھیں کہ پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان بھارت سے دوستی کی باتیں کر رہے ہیں اور آئی ایس آئی بھارت کی جگ ہنسائی کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ بھارت ماتا کے اکہترویں یوم آزادی پر لندن میں آئی ایس آئی نے بھارت کے خلاف احتجاج کے تانے بانے بننا شروع کر دیئے ہیں۔ اس کام کے لئے وہ خالصتان کے مختلف گروپس کو استعمال کرے گی تاکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے اس قومی دن کی ’’کھوشیوں‘‘ میں کھٹائی ڈال سکے۔
’’لاحول ولاقوۃ… اس بھارتی میڈیا کا بس چلے تو پاکستان پر چڑھائی کروا کر ہی چھوڑے، ہریانہ میں بھینس کو گیس ہو جائے تو بھی انہیں اس میں پاکستان کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے۔‘‘
سیلانی نے بڑبڑاتے ہوئے یوٹیوب بند کی اور سامنے دیوار سے ٹنگے ٹیلی ویژن کی جانب متوجہ ہوگیا، جہاں پیشہ ور تجزیہ نگار کپتان کے نئے پاکستان کے بارے میں تجزیئے پیش کر رہے تھے۔ اب یہ تجزیہ نگار بھی اپنی اپنی پسند ناپسند کی عینک ناک پر لگا کر مرضی کا منظر دیکھنا اور دکھانا چاہتے ہیں۔ صحیح ہے کوئی شخص نظریاتی اور فکری طور پر غیر جانبدار نہیں ہوتا، لیکن اس میں اتنی جرأت، حوصلہ ہونا چاہئے کہ کام کے وقت وہ ایمانداری سے غیر جانبدار رہے، جو جیسا دیکھا ہے، اسے ویسا بیان کرے۔ اب حال تو یہ ہے کہ میڈیائی مخلوق اپنی پسندیدہ جماعتوں کے جھنڈے لے کر جلسوں میں رقصاں تک دکھائی دیتی ہے… سیلانی یو ٹیوب دیکھتے ہوئے گاہے بگاہے ٹیلی ویژن پر بھی نظر ڈال رہا تھا کہ نیوز چینل کی بریکنگ نیوز کے مخصوص میوزک نے اسے اپنی جانب متوجہ کر لیا اور اس کے منہ سے بے اختیار نکلا ’’یا اللہ خیر…‘‘
بریکنگ نیوز کے گرافکس اور میوزک سے ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کے بعد نیوز چینل کی اسکرین پر سجی سنوری نیوز کاسٹر صاحبہ سنسنی پھیلانے کے سے انداز میں کہنے لگی:
’’پی ٹی آئی نے بزرگ شہری پر تشدد کے ذمہ دار ایم پی اے پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ کر دیا… جرمانے کا فیصلہ پی ٹی آئی کی ڈسپلنری کمیٹی نے کیا۔ ساتھ ہی وارننگ بھی دی کہ آئندہ ایسا ہوا تو پارٹی کی بنیادی رکنیت ختم کر دی جائے گی۔ ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ پاکستان تحریک انصاف نے کراچی میں بزرگ شہری کو تھپڑ مارنے والے ایم پی اے عمران علی شاہ پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کر دیا ہے۔ ایسا کہنا ہے پاکستان تحریک انصاف کے سینئر راہنما فردوس شمیم نقوی کا۔ اس بارے میں مزید معلومات حاصل کرتے ہیں ہم اپنے نمائندے…‘‘
یہ خبر سن کر سیلانی کے منہ سے بے اختیار ’’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ نکل گیا۔ اس نے فوراً اپنے ایک دوست کو فون کیا، جس کی ذمہ داری ’’انصاف ہاؤس‘‘ کے چکر لگانا ہے۔ پی ٹی آئی سے متعلق خبریں کھوجنا اس کی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے۔
’’بھائی! کہاں ہو؟‘‘
’’انصاف ہاؤس۔‘‘
’’یہ پانچ لاکھ والی خبر درست ہے؟‘‘
’’بالکل درست ہے، میں وہیں پر ہوں، ابھی پریس کانفرنس ختم ہوئی ہے۔‘‘
’’یعنی نئے پاکستان میں…‘‘
’’ایک تھپڑ سوا لاکھ کا؟‘‘ اس نے بات کاٹ کر جملہ مکمل کر دیا اور ساتھ ہی یہ کہہ کر لائن بھی کاٹ دی کہ بعد میں بات کرتے ہیں۔
سیلانی نے اب کیا بات کرنی تھی، سوائے کف افسوس ملنے کے! پاکستان تحریک انصاف کے برطانیہ پلٹ کروڑ پتی، رکن سندھ اسمبلی ڈاکٹر عمران علی شاہ نے حلف اٹھانے کے دوسرے روز ہی اپنے والد کی عمر کے بزرگ شہری پر ہاتھ اٹھایا تھا۔ عمران شاہ کے بقول ان کے طمانچوں کا ہدف بننے والا بزرگ شہری داؤد چوہان اپنی گاڑی سے کسی اور شہری کی گاڑی ٹکرا رہا تھا۔ پیچھے سے اس کی گاڑی کو ٹکر مار رہا تھا اور یہ دیکھ کر نئے نویلے ایم پی اے سے رہا نہیں گیا کہ کپتان کے نئے پاکستان میں یہ سب کیسے ہونے دیا جائے؟ انہوں نے اپنی لینڈ کروزر داؤد چوہان کی گاڑی کے آگے لگا کر روکی اور اپنے
مسٹنڈے محافظوں کے ساتھ غصے سے نتھنے پھلاتے ہوئے نیچے اترے، وہیں عدالت لگائی اور سزا سنا کر بوڑھے شہری کے منہ پر طمانچے مار کر انصاف کا بول بالا کر دیا۔
عمران شاہ کی قسمت تھوڑی سی خراب تھی کہ اس کی یہ حرکت وہاں موجود کسی نوجوان نے اپنے سیل فون کے کیمرے میں ریکارڈ کرلی۔ نیوز چینلز نے نئے پاکستان کے اس ’’نئے جج‘‘ کے انصاف پر شور مچایا تو عمران شاہ نے پہلے یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ میں نے صرف دھکے دیئے ہیں، مارا شارا نہیں ہے، لیکن جب نیوز چینلز نے ان کا جھوٹ ان کے منہ پر دے مارا اور پارٹی قیادت کی طرف سے دباؤ پڑا تو بڑے باپ کا یہ بیٹا داؤد چوہان کے گھر پہنچ گیا، پھر اس نے داؤد چوہان سے گلے ملتے ہوئے تصاویر بھی بنائیں اور قبول ہو جانے والی معذرت کی تصاویر وائرل کرکے جان چھڑانا چاہی، لیکن چھڑا نہ سکے۔ سوشل میڈیا پر عام لوگ تو عام لوگ، تحریک انصاف کے کارکنوں اور ہمدردوں نے سخت ترین عمل ظاہر کیا۔ پی ٹی آئی کو نوٹس لینا پڑا۔ پارٹی نے لوگوں کا اشتعال ٹھنڈا کرنے کے لئے عمران شاہ کی رکنیت معطل کردی۔ کہا گیا کہ سخت انضباطی کارروائی کی جائے گی۔ اس اعلامئے پر نئے پاکستان کے شہریوں نے سکھ کا سانس لیا کہ ان کا پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کا فیصلہ غلط نہ تھا۔ کپتان، کپتان ہے، یہ بدمعاشیاں پرانے پاکستان میں تو ہوتی ہوں گی، نئے پاکستان میں ان مسٹنڈوں کی جگہ نہیں، لیکن نئے پاکستان میں صرف پانچ لاکھ روپے کے عوض عمران شاہ کو جگہ مل گئی۔ پارٹی کی ڈسپلنری کمیٹی نے محض پانچ لاکھ روپوں کا جرمانہ لگا کر تھپڑوں کے نرخ طے کر دیئے۔
پارٹی کی انضباطی کمیٹی نے فی تھپڑ سوا لاکھ روپے جرمانہ مقرر کر کے جہاں ایک نئی نظیر قائم کی، وہیں نئے پاکستان کے شہریوں کی خوش گمانیوں کا گراف بھی کم کر دیا۔ کپتان کے پاس سیلانی جیسے ناقدین کا منہ بند کرنے کا بہترین موقع تھا۔ عمران شاہ کسی جہانگیر ترین کا بیٹا نہیں کہ جس کے احسانات تلے دبی پارٹی قیادت کو حق سچ کا فیصلہ کرتے ہوئے لقوہ ہو جاتا۔ برطانیہ پلٹ عمران علی شاہ کو پارٹی میں آئے جمعہ جمعہ چار ہی دن تو ہوئے ہیں۔ کپتان اسے اسمبلی کی رکنیت سے فارغ کر کے اپنا قد کاٹھ بڑا کر سکتا تھا۔ سب کو پیغام دے سکتا تھا کہ جلسوں کی تقاریر صرف بڑھکیں نہیں تھیں۔ میں نئے پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہونے دوں گا۔ عمران شاہ اسی مقام پر اسی بوڑھے اور کمزور شہری سے تھپڑ کھائے یا پھر پارٹی اور اسمبلی سے نکل جائے… کپتان کا یہ اعلان پاکستانیوں کے دل جیت لیتا، کپتان کے پاس اب بھی وقت ہے، وہ انضباطی کمیٹی کا فیصلہ منسوخ کرکے عمران شاہ کی پارٹی اور اسمبلی رکنیت ختم کر سکتا ہے۔ اپنے عمل سے نئے پاکستان کا اعتبار دلا سکتا ہے، ورنہ یہ قوم بول بچن تو پچاس برسوں سے سنتی آئی ہے… سیلانی یہ سوچتے ہوئے چشم تصور سے سرعام سڑک پر تھپڑ کھاتے بزرگ کو افسردگی سے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment